موجودہ دور کے عظیم فٹ بالر میسی کے خلاف سپین کی عدالت میں مقدمہ کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء سے لے کر 2009ء تک اپنے باپ کے ساتھ مل کر پینتالیس لاکھ ڈالرز کا ٹیکس فراڈ کیا۔ میسی کے والد پہلے ہی کچھ رقم جمع کرا چکے ہیں‘ لیکن کارروائی جاری ہے۔ ان معاشروں میں جو جتنا بڑا ہے اس کے خلاف کارروائی بھی اتنی ہی بڑی کی جاتی ہے کیونکہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کسی کو میسی پر ترس نہیں آیا‘ جیسے ہمارے ہاں پاناما کے کرداروں پر پوری قوم کو آیا ہوا ہے۔
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر سے پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے پاناما لیکس اور دوبئی لیکس پر کچھ کام کیا ہے؟ جواب ملتا ہے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘ وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ قانون کے تحت پانچ سال سے زائد وہ کسی کے ریکارڈ کو چیک نہیں کر سکتے۔ یہ قانون بھی انہوں نے ہی بنایا تھا جو پاناما لیکس میں ملوث پائے گئے ہیں۔
دوبئی میں ہزاروں پاکستانیوں نے اربوں ڈالرز کی جائیدادیں خرید لی ہیں۔ چپکے سے سب پیسہ نکال کر دوبئی لے گئے‘ اور ایف بی آر کہتا ہے کہ اسے علم تک نہیں ہے۔ نیا بجٹ پیش ہو رہا ہے۔ اس میں نئے ٹیکسوں کی خبر سننے میں آ رہی ہے۔ جو لوگ ٹیکس بچا کر پیسہ پاکستان سے باہر نکال کر لے گئے، ان کے بارے ایف بی آر والے کہتے ہیں کہ انہیں کچھ علم نہیں۔ کسی دور میں نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے تیس لاکھ ایسے پاکستانیوں کا پتہ لگایا ہے‘ جنہیں ٹیکس دینا چاہیے۔ اسحاق ڈار صاحب نے فرمایا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالرز پڑے ہیں‘ وہ واپس لائیں گے۔ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب اسحاق ڈار تیس لاکھ والے ڈیٹا کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ فہرست ہی درست نہ تھی۔ یوں تمام معاملہ ختم ہوا۔ آسان حل یہ نکالا ہے کہ نئے ٹیکس لگا دو۔ پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں ایک دستاویز پیش کی گئی‘ جس سے انکشاف ہوا کہ جب سے نواز لیگ اقتدار میں آئی ہے‘ اب تک بجلی کے بلوں سات نئے ٹیکسوں کا اضافہ کیا چکا ہے۔ تیس ماہ میں سات نئے ٹیکس... لوگ ادا کر رہے ہیں‘ پھر بھی کہتے ہیں: اس ملک میں کوئی ٹیکس نہیں دیتا‘ حالانکہ جی ایس ٹی کی وجہ سے آپ پانی کا ایک گلاس پیتے ہیں تو اس پر بھی ٹیکس ادا کر کے پیتے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ ٹیکس عام آدمی سے لیا جا رہا ہے۔ جو میرے گھر صفائی کرتا ہے اسے بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے... اور ٹیکس خرچ کہاں ہو رہا ہے؟ یہ سوال اگر پوچھا جائے تو فوراً جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اگر جواب طلبی کی جائے تو فوراً جواب ملتا ہے: جواب طلبی کا حق عوام کے پاس ہے۔ مطلب یہ کہ پانچ سال خوب لوٹو، اس کے بعد دیکھیں گے‘ کیا ہوتا ہے۔ آج کل بلاول بھٹو بھی کشمیر کے دورے پر ہیں‘ اور نواز شریف صاحب کی جواب طلبی میں مصروف ہیں‘ جیسے کبھی نواز شریف اور شہباز شریف کیا کرتے تھے‘ جبکہ زرداری صاحب کے لاڈلے صوبائی وزیر شرجیل میمن‘ جن پر پانچ ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے اور جنہوں نے دوبئی میں بھی خفیہ جائیدادیں خرید رکھی ہیں، وہ لندن کی سڑکوں پر عام پاکستانیوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے پائے گئے ہیں۔ وہ ویڈیو کلپ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘ جس میں ایک پاکستانی، سندھ کے وزیر شرجیل میمن کو بار سے باہر نکلتے ہوئے پکڑ لیتا ہے‘ اور گالیوں سے تواضع کرتا ہے کہ تم لوگ پاکستان سے پیسہ لوٹ کر اب یہاں عیاشیاں کرنے آ گئے ہو! شرجیل میمن کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا جواب دے۔ یہ تماشہ اب پوری دنیا اس ویڈیو کلپ میں دیکھ رہی ہے۔ جب وہ پاکستانی نوجوان اسے کہتا ہے کہ وہ پولیس کو بلانے جا رہا ہے کہ جنہوں نے پاکستان سے منی لانڈرنگ کی ہے وہ یہاں عیاشیاں کر رہے ہیں تو شرجیل میمن کو جرات نہ ہوئی کہ وہ اس نوجوان کو کچھ کہہ سکے یا اس کی باتوں کا کوئی جواب ہی دے سکے۔ کراچی ہوتا تو اس کا حشر ہو جانا تھا... لیکن بیرون ملک یہ سب شریف بن جاتے ہیں۔ یہ عزت کمائی ہے بلاول کے صوبائی وزیروں اور پارٹی لیڈروں نے‘ جو سب کچھ پاکستان سے لوٹ کر دوبئی اور لندن میں عیاشیاں کر رہے ہیں اور بلاول یہاں نواز شریف سے حساب کتاب مانگتے پھرتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بلاول صاحب بھی نواز شریف صاحب پر وہی الزامات عائد کر رہے ہیں‘ جو کبھی ان کی والدہ اور والد محترم پر نواز شریف لگایا کرتے تھے کہ انہوں نے نوے کی دہائی میں سرے محل خریدا تھا‘ اور اس کے لیے بے نامی کمپنیاں استعمال کی گئی تھیں‘ اور وہ کمپنیاں بھی پاناما میں رجسٹرڈ تھیں۔ اب زرداری صاحب کہتے ہیں وہ پاناما کو انجام تک پہنچائیں گے۔ ان کا مطلب ہے کہ اگر ہماری آف شور کمپنیاں نکل آئی تھیں‘ اور ہمیں نہیں بخشا گیا تھا‘ تو آپ کو کیوں بخشا جائے؟
نواز شریف صاحب کو بھی داد دینا چاہئے کہ 1995ء سے 2013ء کے الیکشن تک وہ زرداری کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے سوئس بینکوں میں پیسہ رکھنے اور بعد میں بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ جب سوئس سکینڈل سامنے آیا تھا‘ تو نواز شریف صاحب نے دوسرے دور حکومت میں باقاعدہ تیس کروڑ روپے کی ایک خصوصی اور خفیہ گرانٹ منظور کی تھی‘ جو وزارت خزانہ نے انٹیلی جنس بیورو کو دی۔ بیورو سے کہا گیا کہ یہ سیکرٹ فنڈ ہے اور یہ سیف الرحمن کو دے دیا جائے‘ جو اس وقت زرداری کے مقدمات پر کام کر رہے تھے۔ یہ تیس کروڑ روپے سیف الرحمن نے بیرون ملک جاسوسوں، وکیلوں اور فرموں پر خرچ کیے تاکہ وہ بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف بیرون ملک غیرقانونی جائیدادوں اور بینک اکاونٹس کی تفصیلات نکلوا سکیں۔ سیف الرحمن اس میں کامیاب ہوئے اور اس طرح میاں بیوی کی کرپشن کی کہانیاں مع ثبوت سامنے آئیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب زرداری اقتدار میں آئے تو سب کچھ غائب کرا دیا گیا اور حال ہی میں نیب نے عدالت میں بیان دیا کہ ان کے پاس اصل دستاویزات ہی موجود نہیں ہیں۔ زرداری صاحب اب ہمارا منہ چڑاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ پاناما لیکس پر نواز شریف کو نہیں چھوڑیں گے۔
زرداری اور بینظیر بھٹو کا پاناما لیکس سکینڈل 1995ء میں سامنے آیا تھا‘ جب سرے محل کا انکشاف ہوا تھا۔ شریف خاندان کا پاناما لیکس اب ہوا جب 1993ء میں خریدے گئے لندن فلیٹس سامنے آئے ہیں۔ یہ قوم ایک پاناما لیکس سے دوسرے پاناما لیکس تک کے لیڈروں کے ہاتھوں مسلسل یرغمال بنی ہوئی ہے۔ کبھی شریف حکمران زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھیسٹنے اور پیٹ پھاڑ کر سوئس دولت واپس لانے کا سودا بیچتے تھے‘ تو اب زرداری پاناما لیکس پر نواز شریف کو چھٹی کا دودھ یاد دلانے کی قسمیں کھا رہے ہیں۔
ویسے آپس کی بات ہے‘ جب زرداری اور نواز شریف ملتے ہوں گے‘ تو نوٹنکی اور ان طویل سٹیج ڈراموں کی ریہرسل کرتے وقت ہمارے اوپر ہنستے تو ضرور ہوں گے!