"RKC" (space) message & send to 7575

سرائیکی وسیب کا لاڈلا محمود نظامی

کچھ دن سے لکھ نہیں پا رہا۔ آج بھی لکھنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا‘ لیکن لندن سے دوست ندیم سیعد نے اپنی فیس بک پر چند ایسی تصویریں پوسٹ کر دی ہیں کہ دل دکھ سے بھر گیا ہے اور کندھے میں مسلسل تکلیف اور درد بُھلا کر لکھنا پڑ گیا ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ تونسہ شریف میں رمضان بازار لگنا ہے۔ بادشاہ سلامت ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان تشریف لائے۔ جیسے ہر صاحب کے باڈی گارڈز کی عادت ہوتی ہے‘ راستے میں آنے والے ہر انسان کو نفرت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں‘ دھکے دیتے ہیں، گالیاں بکتے ہیں تاکہ صاحب کو تکلیف نہ ہو۔ انسانوں کو اس نفرت سے دیکھتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔ یہی کچھ تونسہ میں ہوا۔ نظامی ایک درویش انسان ہیں۔ کسی بات پر وہ گارڈز سے الجھ پڑے۔ پولیس نے مار پیٹ کرنے کے بعد اٹھایا اور ساتھ لے جا کر تھانے میں بند کر دیا۔ پڑھنے والے یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ وہ پولیس ہے‘ جو پچھلے دنوں چھوٹو گینگ کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی تھی‘ لیکن محمود نظامی جیسے درویش انسان کے لیے چنگیز خان بن گئی۔ 
تونسہ کی دھرتی کے سپوت محمود نظامی کو پورا سرائیکی وسیب جانتا ہے‘ بلکہ وہ پورے سرائیکی وسیب کا لاڈلا ہے۔ وہ کسی وقت بھی کسی کا مہمان ہو سکتا ہے۔ وہ کسی سے بھی کچھ مانگ سکتا ہے۔ وہ کسی کو کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور ردعمل میں کسی کی جرات نہیں وہ نظامی کی بے ادبی اور اس کے ساتھ گستاخی تک کا سوچ بھی سکے۔ 
میرا اپنا تعارف نظامی سے 1991ء میں اس وقت ہوا تھا‘ جب میں بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا سے ملنے بہاولپور گیا۔ نام سن رکھا تھا۔ نعیم نے کئی دفعہ بتایا کہ پرانے دور میں بادشاہوں کے بچوں کو پڑھانے اور آداب سکھانے کے لیے اتالیق رکھے جاتے تھے۔ نہ وہ بادشاہ تھے نہ ہی اتالیق افورڈ کر سکتے تھے کہ وہ ان کے چھوٹے بھائیوں کو آداب سکھائیں یا انہیں پڑھائیں‘ لیکن محمود نظامی وہ اتالیق ہیں جو بادشاہوں کے زمانے میں ہوتے تو کسی دربار میں شہزادوں کو ادب، سیاست، لاجک، فلاسفی پڑھانے پر مامور ہوتے۔
خیر اس روز رات گئے ان کے ہوسٹل عباس منزل کے کمرہ نمبر انیس میں گیا تو نعیم بھائی نیچے فرش پر ایک تکیہ لیے سو رہے تھے۔ بستر پر کوئی اور سو رہا تھا۔ میں حیران نہیں ہوا۔ نعیم بھائی ایک درویش انسان تھے۔ میں بھی خاموشی سے ان کے ساتھ فرش پر بچھائے ہوئے بستر پر ہی لیٹ گیا۔ انہوں نے مجھے محسوس کیا‘ آدھی آنکھ کھول کر مجھے دیکھا‘ نیند میں مسکرائے، میرے اوپر اپنا بازو رکھا‘ اور میری ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر‘ اپنے گلے سے لگا کر دوبارہ سو گئے۔ میں اکثر ان کے ہوسٹل جاتا تو وہ رات کو فرش پر بستر بچھا کر سوئے ہوئے ملتے‘ جبکہ ڈیرہ غازی خان، تونسہ، لیہ، راجن پور یا ملتان اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے ان کے دوست ان کے بستر پر سوئے ہوتے۔
اس صبح میری آنکھ کھلی تو نعیم بھائی آپریشن تھیٹر جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے‘ اور ناشتے کی ٹرے اس شخص کے سامنے رکھ رہے تھے‘ جو رات کو ان کے بستر پر سویا ہوا تھا‘ اور اب آلتی پلتی مارے بیٹھا انتظار کر رہا تھا کہ اسے ناشتہ پیش کیا جائے۔ اس شخص نے مجھے دیکھا‘ زور سے قہقہہ لگایا‘ جس سے کمرے کے در و دیوار لرز اٹھے‘ اور نعیم بھائی سے کہا: اچھا تو یہ روفی ہے۔ نعیم بھائی نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: اور یہ مشہور زمانہ نظامی صاحب ہیں‘ اس سے تم نے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ نظامی صاحب نے اپنی داڑھی کو کھجایا اور غور سے مجھے دیکھا۔ نعیم بھائی نے مجھے ہدایت کی اور کہا: نظامی صاحب کو درمیان میں نہیں ٹوکنا‘ ورنہ گالیاں کھائو گے۔ نعیم بھائی ویسے تو اپنے تمام دوستوں کی عزت کرتے اور خیال رکھتے تھے‘ لیکن استاد فدا حسین گاڈی، عبداللہ عرفان، منصور کریم، ارشاد تونسوی، محمود نظامی، اشولال، شاکر شجاع آبادی، رفعت عباس، ڈاکٹر انوار احمد، مظہر عارف کی سب سے زیادہ عزت کرتے تھے۔ سرائیکی ادب، شاعری، کلچر اور سیاست کے لیے ان سب کی خدمات کو بہت سراہتے تھے۔
اس کے بعد محمود نظامی کے لیکچرز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نظامی اتنا پڑھا لکھا شخص نہ تھا‘ لیکن اس کے پاس زندگی کا بے پناہ نالج اور لاجکس ضرور تھیں۔ میں نے خود کو اس کی ذہانت اور لاجکس کے سامنے بے بس پایا اور بہت کچھ سیکھا۔ وہ قہقہہ مارتے تو پورا ہوسٹل سنتا۔ وہ سنجیدہ ہوتے تو لگتا سناٹا کہیں آسمان کو نہ گرا دے۔ سرائیکی فوک قصے، کہانیاں، لطفیے ان پر ختم تھے۔ اگلا بندہ بات پوری طرح نہ سمجھتا‘ تو ایسی گالیوں سے تواضع ہوتی کہ وہ ہنس ہنس کر پاگل ہو جائے۔ نعیم بھائی نے ایک دن نظامی سے کہا: روفی کو وہ تو بتائو کہ تم دال کیوں نہیں کھاتے۔ نظامی صاحب دال کا نام سن کر ہی بے مزہ ہو جاتے تھے۔ بولے: اگر دال ہی کھانی تو پاکستان کیوں بنایا تھا؟ دال نظریہ پاکستان کی دشمن ہے۔ ہندو کہتا تھا کہ گائو ماتا کو ذبح مت کرو، دال کھائو۔ مسلمان کہتے‘ نہیں! ہم نے گائے کا گوشت کھانا ہے۔ اس پر ملک بنا۔ اگر اب پاکستان بننے کے بعد بھی دال ہی کھانی ہے تو پھر پاکستان کیوں بنایا؟ دال تو ہندو مفت میں کھلاتے تھے!
ایک دن ہوسٹل میں دال پکی ہوئی تھی۔ کمرے میں تین پلیٹیں دال کی آئیں۔ میں اور نعیم بھائی نے اپنے حصے کی کھا لی۔ نظامی صاحب نے
دال دیکھی تو منہ بن گیا۔ بولے: یہ بھی کھانے کی چیز ہے‘ تم دونوں بھائی کھائو‘ میں تو جا رہا ہوں‘ ارشاد تونسوی کے ہاں کڑاہی کھائوں گا۔ دال مزے کی تھی۔ رات گہری ہوئی تو مجھے دوبارہ بھوک لگی اور میں نے نظامی صاحب کے لیے رکھی دال بھی کھا لی۔ نظامی صاحب رات گئے لوٹے تو ان کی حالت دیکھ کر نعیم بھائی پریشان ہو گئے۔ نظامی بولا: دال کدھر ہے۔ بہت بھوک لگی ہے۔ پیدل چل چل کر حشر ہو گیا ہے۔ ارشاد تونسوی کو صلواتیں سنائیں کہ وہ گھر پر نہیں تھا۔ اسی لیے وہ اب تک بھوکے تھے۔ میرے منہ سے نکلا: لیکن آپ تو دال نہیں کھاتے‘ اس لیے میں نے وہ کھا لی تھی۔ یہ سننا تھا کہ نظامی نے گالیوں سے میری وہ تواضع کی کہ لکھ نہیں سکتا! نعیم بھائی کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو گیا۔ بولے: نظامی کیوں روفی پر غصہ کر رہے ہو‘ تم دال نہیں کھاتے‘ اس لیے اس نے کھا لی۔ بولے: ڈاکٹر! تمہیں تو پتہ ہے بندہ بھوکا ہو تو کیا کچھ نہیں کھا لیتا۔ نعیم بھائی اسے کنٹیں پر لے گئے‘ اور کڑاہی بنوا کر دی۔
ایک دفعہ نظامی سرائیکی رہنما تاج لنگاہ کے پاس گیا‘ تو وہ بولے: نظامی سرائیکی نیشلزم کا کیا مستقبل ہے؟ نظامی بولا: لنگاہ صاحب یہ بعد میں بتائوں گا پہلے میرے لیے مرغ کا سالن اور گولڈ لیف کی سگریٹ منگوائو۔ تاج لنگاہ نے مذاق میں کہا: یار نظامی ساری عمر تم نے دال کھائی ہے‘ اور مانگ کر سگریٹ پی ہے‘ اب تم نخرے کر رہے ہوں۔ نظامی برجستہ بولا: یہی سرائیکی نیشنلزم کا مستقبل ہے۔ لنگاہ نے کہا: سرائیکی نیشلزم کے مستقبل کا اس سے کیا تعلق؟ نظامی نے کہا: میں آپ کو سمجھاتا ہوں‘ آپ مجھے مرغی نہیں کھلا سکتے، میری من پسند سگریٹ نہیں پلا سکتے، صوبہ کہاں سے لے کر دیں گے؟ 
لنگاہ سنجیدہ ہوئے تو نظامی نے کہا: میں آپ کو سرائیکی کی ایک لوگ کہانی سناتا ہوں‘ جو ہماری مائیں، نانیاں، دادیاں بچوں کو صدیوں سے سناتی آئی ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک بادشاہ تھا۔ اس کی خوبصورت بیٹی محل کی چھت پر بال سکھا رہی تھی کہ اوپر سے ایک جن کا گزر ہوا‘ جو اس پر عاشق ہو گیا اور اسے اٹھا کر کوہ قاف لے گیا۔ اس کا باپ اس کے غم مین رو رو کر اندھا ہو گیا...
لنگاہ صاحب بولے: یار نظامی بور نہ کر... سب نے یہ کہانیاں سن رکھی ہیں۔ نظامی بولا: پوری سن لیں... خیر ساتھ والی ریاست کے شہزادے کی وہ منگ تھی۔ وہ گھوڑا نکال کر کوہ قاف کو نکل گیا۔ سات دریا، سات سمندر پار کیے۔ راستے میں کوئی ملا تو اس نے کہا: پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جائو گے۔ جب وہ کوہ قاف پہنچا تواس نے دیکھا کہ ایک بڑے غار کے سامنے وہی جن بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دال کی ایک بڑی دیگ اور روٹیوں کا انبار اپنے سامنے رکھا ہوا تھا اور بیٹھا دال روٹی کھا رہا تھا۔ اتنا کہہ کر نظامی رک گیا اور بولا: اندازہ کریں‘ سرائیکیوں کے جن بھی دال خور ہیں۔ بھائی تم جن ہو، بندے کھائو، اونٹ کھائو، لیکن سرائیکی لوک کہانیوں کا جن بھی دال کھاتا ہے۔ وہ عدم تشدد کا قائل ہے۔ اب بتائیں جس قوم کا جن دال کھاتا ہوں، ویجیٹیرن ہو‘ وہ قوم بھلا کیا ترقی کرے گی۔ آپ مجھے مرغی اور سگریٹ نہیں دلوا سکتے‘ صوبہ کیا دلوائیں گے؟ لنگاہ صاحب بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے اور فوراً نظامی کی فرمائشیں پوری کر دی گئیں۔ 
ڈپٹی کمشنر صاحب: آپ بادشاہ سلامت ہیں۔ آپ کی چار سو دہشت ہو گی۔ رعب ہو گا ۔ دبدبہ ہو گا۔ رعایا سے گستاخی ہو گئی۔ محمود نظامی بے چارے کو آپ کی چار سو پھیلی دہشت کا علم نہ ہو گا‘ ورنہ وہ تو فقیر انسان ہے۔ ایک چیونٹی تک کو نہیں مار سکتا ۔ وہ بھلا کب کسی بادشاہ کی گستاخی کر سکتا ہے۔ محمود نظامی کی بھی سرائیکی علاقے میں اپنی ایک حیثیت ہے۔ ایک مقام ہے۔ عزت ہے۔ وہ ہمارا استاد ہے، وہ ہمارا لاڈلا ہے۔ آپ سرائیکی وسیب کو اس کا لاڈلا لوٹا دیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں