"RKC" (space) message & send to 7575

پاکستان امریکہ لو اسٹوری 2016 ء …(3)

مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوچکا تھا ۔ ہزاروں کی تعداد میں بنگالی ہندو آپریشن سے بچنے کے لیے بھارت میں پناہ لے رہے تھے۔ اندرا گاندھی نے عالمی سطح پر رولا ڈالا ہوا تھا کہ اس آپریشن کی وجہ سے بھارت پر دبائو بڑھ رہا ہے، لہٰذا پاکستان کو روکا جائے اور آپریشن بند کیا جائے۔ فوجی حکمران یحییٰ خان کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ حال ہی میں چھپنے والی ایک کتاب Blood Telegram میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ کیسے ڈھاکہ میں موجود امریکی سفارت کار بار بار وائٹ ہائوس کو لکھ رہے تھے کہ آپ پاکستان کو روکیں۔ حالات بگڑ رہے تھے۔ تاہم وائٹ ہائوس میں نکسن اور ہنری کسنجر نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ نکسن اس وقت پورے قد کے ساتھ پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ انہیں پاکستان سے پیار ہوگیا تھا لیکن انہیں امریکی مفادات اس میں نظر آتے تھے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان امریکہ کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا تھا اور وہ کردار چین کے ساتھ تعلقات میں امریکہ کی مدد کرنا تھی۔
اندرا گاندھی نے پہلے پلان بنایا کہ وہ وائٹ ہائوس جا کر نکسن کو قائل کرنے کی کوشش کریں گی کہ وہ پاکستان پر دبائو ڈال کر فوجی آپریشن بند کرائیں۔ نکسن اور اندرا گاندھی ہمیشہ سے ایک دوسرے کو ناپسند کرتے چلے آئے تھے۔ نکسن نے اندرا گاندھی کے نک نیم کو بھی ایک جانور کے نام سے تشبیہ دے رکھی تھی۔ 
اندرا جب وائٹ ہائوس پہنچیں تو انہوں نے نکسن سے ملاقات میں یہ ایشو اٹھایا کہ پاکستان بنگالیوں پر ظلم کر رہا ہے اور یہ کہ فوجی آپریشن کے بعد معاملات مزید بگڑ گئے ہیں۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ روکے؛ تاہم نکسن نے اپنی انتظامیہ کا پرانا موقف دہرایا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا جس پر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اندرا گاندھی نے جواز دینے کی کوشش کی کہ وہ اب پاکستان کا اندورنی معاملہ نہیں رہا کیونکہ دس لاکھ کے قریب بنگالی مشرقی پاکستان سے جان بچا کر بھارتی علاقوں کے پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لے چکے تھے جس سے بھارت کے لیے مسائل پیدا ہورہے تھے۔
بھٹو نے دو برس بعد اطالوی صحافی اوریان فلاسی کو بھی یہ بات بتائی تھی کہ اندرا گاندھی نے پاکستان پر حملے کا جواز یہ پیدا کر لیا تھا کہ دس لاکھ بنگالی بھارت چلے آئے تھے لہٰذا اب اگر فوجی آپریشن نہیں رکتا تو وہ حملہ کر کے اس معاملے کو ٹھیک کردیں گی۔ تاہم بھٹو نے اوریانا فلاسی کو کہا تھا کہ اندرا گاندھی جھوٹ بول رہی تھیں کہ دس لاکھ بنگالی ہجرت کر کے بھارت چلے آئے تھے۔ بھٹو کا کہنا تھا کہ یہ مان لیتے ہیں کہ بنگالی بڑی تعداد میں بھارت گئے لیکن وہ ہرگز دس لاکھ نہیں تھے۔ 
جب اندرا گاندھی کو محسوس ہوا کہ نکسن کسی صورت بھی پاکستان کو مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن سے نہیں روکیںگے، تو اندرا نے ماسکو جانے کا فیصلہ کیا۔ اُسے ایک ہی خطرہ تھا کہ اگر پاکستان سے جنگ ہوئی تو شاید چین اس کا ساتھ دے۔ چین کو صرف ایک ہی طاقت روک سکتی تھی اور وہ روس تھا ۔ روس نے چین کو یہ پیغام دیا کہ اگر اس نے بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیا اور جنگ میں شریک ہوا تو اس کا مطلب چین روس جنگ ہوگی۔ چین نے اس دھمکی کے بعد جنگ میں نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ چین کے مفادات اسی میں تھے۔ 
یہی وجہ تھی کہ جب اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کیں تو نکسن نے فوری طور پر پاکستان کی امداد کا سوچا ۔ تاہم 65ء کی جنگ کی وجہ سے پاکستان پر اسلحہ کی پابندیاں لگ چکی تھیں۔ اس پر نکسن نے شاہ ایران، مصر، اردن اور دیگر ممالک کو کہا کہ وہ پاکستان کوفوری امریکی اسلحہ فراہم کریں۔ اس دوران نکسن کی ہدایت پر کسنجر فوری طور پر چینی سفیر کو ملے اور پیغام دیا کہ وہ پاکستان کی مدد کو آئے اور بھارت کے ساتھ سرحد پر محاذ کھولے تاکہ پاکستانی فوج پر سے مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کا دبائو کم ہو۔ اتنی دیر میں نکسن نے چھٹا بحری بیڑا بھی بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ 
جنگ شروع ہوچکی تھی۔ نکسن انتظار کر رہا تھا کہ چینی سفیر کب لوٹ کر جواب دے اور اس سے پہلے بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کو پہنچے، چین فورا ًپاکستان پر سے بھارت کے دبائو کو کم کرائے اور محاذ کھولے تاکہ پاکستان کو بچایا جاسکے۔ تاہم چینی سفیر لوٹ کر کسنجر کو ملنے نہیں گیا۔ چینی قیادت کا پیغام بڑا واضح تھا کہ وہ پاکستان کے لیے روس کے ساتھ جنگ نہیں لڑ سکتے۔ تاہم نکسن اس کوشش میں تھا کہ ان تمام مسلمان ممالک سے پاکستان کی فوجی امداد کرائی جائے جہاں امریکہ اسلحہ پڑا تھا تاکہ پاکستان بھارت کی فوج کی پیش قدمی روکے اور اتنی دیر میں بحری بیڑہ بھی پہنچ جائے گا اور بھارت کے ساتھ امریکہ براہ راست جنگ کے لیے تیار ہوگیا تھا ۔ تاہم یہ خبر وائٹ ہائوس پر بم کی طرح گری کہ پاکستانی فوج نے سولہ دن کی جنگ کے بعد ہتھیار ڈال دیے تھے۔ وائٹ ہائوس کا خیال تھا کہ پاکستان آرمی کم از کم تین ماہ تو لڑے گی اور اس دوران نکسن سب بندوبست کرنے میں لگا ہوا تھا۔ 
نکسن کو اندازہ ہوگیا کہ روس اور بھارت نے مل کر شکست دے دی تھی جب کہ چین جو پاکستان کی دوستی کے دعوے بھرتے نہیں تھکتا تھا وہ اس جنگ میں نیوٹرل رہا تھا۔ امریکہ تمام تر دبائو اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی قربانی کے خطرات کے باوجود نیوٹرل نہیں رہا اور نکسن نے بحری بیڑہ بھیجنے کا اعلان کر دیا تھا لیکن اس کی توقع سے پہلے ہی جنگ ختم ہوگئی۔ اس دوران نکسن کو خبریں ملیں کہ اب اندرا گاندھی مغربی پاکستان پر بھی حملے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ اس پر نکسن نے براہ راست اندرا گاندھی کو دھمکی بھجوائی کہ اگر مغربی پاکستان پر حملہ ہوا تو امریکہ جنگ میں شریک ہوجائے گا۔ یہ دھمکی کام کر گئی اور اندرا گاندھی نے مغربی پاکستان پر حملہ نہیں کیا۔ 
یہ وہ سب حقائق ہیں جو اب برسوں بعد امریکہ انتظامیہ کے کلاسیفائیڈ دستاویزات میں سے نکلے ہیں جن کی بنیاد پر اب کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں دو کتابیں بروس ریڈل اور تیسری کتاب بلڈ ٹیلی گرام لکھی گئی ہے جس میں ان لمحات کی کہانی بیان کی گئی ہے جب پاکستان بھارت کی جنگ جاری تھی اور نکسن اپنی انتظامیہ کی تمام تر وارننگ کے باوجود پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ امریکی سفارت کاروں کا خیال تھا کہ نکسن غلط گھوڑے پر جوا کھیل رہا تھا۔ خطے میں چین کا توڑ پاکستان نہیں بلکہ بھارت کی شکل میں تھا اور بھارت کو ناراض کر کے یہ کوئی عقلمندی نہیں کی جارہی تھی۔ تاہم نکسن اور ہنری کسنجر کی سوچ کچھ اور تھی۔ نکسن پاکستان کو چین کے ساتھ تعلقات کے لیے استعمال کرچکا تھا اور وہی کچھ ہوا جب بھٹو کے ذریعے چینیوں سے رابطہ ہوا اور پہلی دفعہ کسنجر نے چین کا خفیہ دورہ کیا اور یوں چین اور امریکہ کے درمیان برف پگھلی ۔ نکسن اور کسنجر نے بھارت کی ناراضگی مول لے کر پاکستان کی جنگ میں حمایت کی تھی جو اس رابطے کا صلہ تھا۔ 
ان چند واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
سبق بڑا واضح ہے کہ ملکوں کی دوستیوں کا مقصد ہوتا ہے کہ آپ ایک دوسرے کے مفادات پورے کر سکتے ہیںیا نہیں۔ امریکہ پاکستان کے مفادات پورے کر رہا تھا اور جنگ میں بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے رہا تھا۔ اس طرح پاکستان چین کے حوالے سے امریکہ کے مفادات پورے کر رہا تھا۔ اسے دوستی کا نام دیں یا مفادات کا؟ 
اس طرح چین پاکستان کا دوست ہوتے ہوئے بھی پاکستان کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکا کیونکہ چین کو فیصلہ کرنا تھا کہ کیا پاکستان کو بچانے کے لیے اسے روس کے ساتھ جنگ کا خطرہ مول لینا چاہیے؟ چین کو لگا کہ یہ سودا مہنگا ہوگا لہٰذا چین نے خاموشی اختیار رکھے رکھی۔ امریکہ منافق تھا یا مفاد پرست لیکن نکسن نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی پروانہیں کی ‘پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا اور بھارت کے ساتھ تعلقات خراب کرلئے جو بعد میں جمی کارٹر کے دور میں جا کر بڑی مشکل سے معمول پر آئے۔ 
اس طرح جب جنرل ایوب کا اپنا مفاد تھا تواُس نے امریکیوں کے ساتھ مل کر چین کے باغیوں کو ڈھاکہ کے قریب فضائی اڈے فراہم کیے۔ سی آئی اے ان باغیوں کو چین کے خلاف استعمال کر رہی تھی۔ اس طرح پشاور کا فضائی اڈہ بھی سی آئی اے کے کنٹرول میں تھا جہاں سے روس کی جاسوسی ہورہی تھی۔ اس لیے چین اور روس کو یقینا پاکستان پر غصہ ہوگا اور اس کا نتیجہ ہم نے 71ء کی جنگ میں دیکھ لیا۔ اس لیے جب ہمارا مفاد تھا تو ہم چین اور روس کے خلاف امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے اس کے بدلے جنرل ایوب کو اقتدار میں رہنے کا موقع مل رہا تھا۔ اب وہی چین ہمارا سب سے بڑا دوست ہے حالانکہ امریکی کہتے ہیں کہ چینیوں نے پاکستان کو ہمیشہ قرضہ دیا لیکن امریکیوں نے مفت امداد دی۔ اب سرتاج عزیز فرماتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کا خودغرض دوست ہے، مطلب کی دوستی ہے۔ تو امریکی بھی پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کب مفت میں کام کرتے ہیں۔ 35 ارب ڈالرز کی امداد مل چکی ہے۔ آپ بھی تو ڈالرز لیتے ہیں چاہے جنرل ضیاء نے ریگن سے وصول فرمائے یا جنرل مشرف نے بش سے حاصل کیے۔ کیا پاکستان نے کبھی کوئی کام مفت میں کیا ہے؟سرتاج عزیز نے تو حد کر دی کہتے ہیں: ضرورت پڑی تو پاکستان خطے میں ایٹم بم استعمال کر سکتا ہے۔ اندازہ کریں موصوف کے خیال میں ایٹم بم بہترین دفاع ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ یہ دفاع امریکیوں نے ویت نام اور روسیوں نے افغانستان میں دفاع کا یہ طریقہ کیوں استعمال نہ کیا اور وہاں سے شکست خوردہ ہو کر نکل گئے؟ ویسے اگر نوے برس کی عمر میں بھی سرتاج عزیز کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کوئی ملک آپ کا دشمن یا دوست نہیں ہوتا، مفادات کا کھیل ہے تو پھر یہ بات پاکستان کے عام آدمی کو کیسے سمجھائی جاسکتی ہے جو ہر ملک کے ساتھ دوستی کو بچپن کے دوستوں کی طرح کی دوستی سمجھتا ہے اور اس کی ایک ناں پر طعنے اور گلے شروع کردیتا ہے۔۔
سرتاج عزیز کو اب ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔جتنی خارجہ پالیسی کی سمجھ کا مظاہرہ انہوں نے پچھلے دنوں فرمایا ہے اس کے بعد پتہ چلتا ہے کہ فارن آفس کی تباہی کس حد تک ہوچکی ہے۔ بہتر ہے طارق فاطمی ، اعتزاز چوہدری اور فارن آفس کے افسران اپنی بیگمات کی این جی او کے لیے غیرملکی سفارت خانوں سے چندے اکٹھے کریں، فارن پالیسی کے لیے بقول سرتاج عزیز ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔!(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں