چھ برس بعد موبائل فون پر ٹیکسٹ پیغام مجھے ماضی میں لے گیا، جب میںنے ایک ایسی غلطی کی تھی جس کی کسک اب بھی میرے دل میں ہے۔ ایک ایسا پیغام جسے میں نہیں پڑھنا چاہتا تھا، لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی پڑھ لیا۔
ایک ماہ پہلے مجھے سیالکوٹ کے ایک گائوں سے زارا ضیا چیمہ کا ٹیکسٹ میسج آیا، تب سے میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی توجہ کے لئے ایک کالم لکھنا چاہتا تھا، لیکن پورا مہینہ سوچتا رہا کہ کیا لکھوں!
زارا نے لکھا تھا ہماری مدد کریں۔ آپ پر ہمارا قرض باقی ہے، وہ قرض اتاریں،کفارہ ادا کریں۔ آپ کو تو سب پتا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں ہم پرکیا گزری تھی،کن عذابوں سے ہم گزرے ۔ پورا گائوں بھی گواہ ہے۔ آپ کچھ کریں۔
زارا کا یہ پیغام مجھے ماضی میں لے گیا، جب میں نے اس کے خاندان کے ساتھ ایسی ذیادتی کر دی تھی جس کا کفارہ اب ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ چھ برس قبل میں ایک ہم عصر اردو روز نامہ میںکالم لکھا کرتا تھا۔ سماجی موضوعات پر لکھنا اچھا لگتا تھا۔۔۔غریب اور دکھی لوگوں کی کہانیاں، معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کے شب و روز۔ ایک دن خط ملا جو پرائمری سکول کے استاد کی طرف سے لکھا گیا تھا۔ اس میں ایک دکھی کہانی رقم تھی۔گائوں کے لڑکے کو باپ نے مارا تو وہ گھر سے بھاگ گیا۔ ظالم چودھری باپ نے مخالفین پر مقدمہ درج کرادیا کہ انہوں نے اغوا کیا ہے۔ بے گناہ لوگوں پر تھانے میں تشدد ہو رہا ہے۔ استاد نے لکھا کہ یہ ظلم اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے مگر وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ میںنے سوچے سمجھے بغیر یہ خط اٹھا کر اپنے کالم میں چھاپ دیا، جس میں سنگ دل چودھری کی کہانی لکھی کہ کیسے بیٹے پر تشدد کیا، لڑکا بھاگ گیا تو اب بے گناہ لوگوں کوتھانے میں پٹوا رہا ہے۔ کالم چھپا تو مجھے ایک لڑکی زارا ضیا چیمہ کا فون آیا، جو بہت غصے میں تھی۔ کہا، آپ کو پتا ہے آپ نے کیا لکھا ہے؟ آپ کو احساس ہے آپ نے کتنی بڑی زیادتی کر دی ہے؟ لڑکی غصے میں تیز تیز بولتی گئی اور میں حیران کہ کیا ہوگیا! زارا نے کہا، آپ نے یہ کالم ہمارے خاندان کے بارے میں لکھا ہے۔ آپ گائوں تشریف لائیں اور سب سے پوچھیں کہ اصل کہانی کیا ہے۔ اس نے بتایا، گائوں میں میرے بھائی خالد ضیا چیمہ کو اغوا کیا گیا تھا۔ اغوا کار تاوان مانگ رہے تھے۔ اس کی باقاعدہ پولیس کو رپورٹ کرائی گئی تھی۔ پولیس نے بڑی تگ و دوکے بعد اغواکاروں کو گرفتار کر کے خالد کو زخمی حالت میں برآمد کیا اور اب اس کا علاج ہو رہا ہے کیونکہ اس پر سخت تشدد کیا گیا تھا۔ الٹا اغوا کاروں نے آپ کو گمراہ کرنے کے لیے جعلی خط لکھ دیا اورآپ نے چھاپ دیا۔ کیا آپ کو اندازہ ہے ہمارے گھر والوں پرکیا گزری! آپ نے کالم میں لکھاکہ میرے بابا نے بیٹے پر تشدد کیا جس سے وہ گھر سے بھاگ گیا۔ آپ کبھی میرے بابا کو مل کر دیکھیںکہ وہ کیسے انسان ہیں۔ وہ ایک پیارے انسان ہیں، وہ تو کسی چڑیا کو بھی نہیں مارتے۔ زارا بولتی رہی۔
مجھے شدید افسوس اور پشیمانی کا احساس ہوا۔ مجھے پہلی بار اندازہ ہواکہ ہم دیہاتی اتنے سادہ نہیں ہوتے جتنی سادہ دکھنے کی اداکاری کرتے ہیں۔ سیالکوٹ کے گائوں میں ایک دیہاتی ہی کے ذہن میں یہ منصوبہ آیا کہ اغوا کاروں کو بچانے کے لیے کسی کالم نگار کو خط لکھا جائے، جھوٹی کہانی سناکر چھپوائی جائے اور اس طرح ملزمان کو چھڑایا جائے۔ یقینا سوچا گیا ہوگا کہ اس کام کے لیے کونسا کالم نگار مناسب رہے گااور قرعہ فال مجھ بیوقوف کے نام کا نکلا۔ انہیں میری تحریروں سے اندازہ ہوا ہوگا کہ میں مظلوموں کے لیے قلم اٹھاتا ہوں۔کمال اداکاری سے سکول ماسٹرکے نام سے خط لکھا گیا۔ انہوں نے میرے بارے میں جو اندازے لگائے وہ درست نکلے۔ میں نے یہ سوچ کر خط چھاپ دیا کہ سکول ماسٹر جھوٹ نہیں بولے گا۔ چونکہ میرا ذاتی پس منظر دیہات کا ہے، اس لئے سکول کے اساتذہ کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ انہوں نے میری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔ میں نے خط چھاپ دیا کہ مظلوموں کی مدد کر رہا ہوں۔
میں نے زارا سے معذرت کی کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ۔کہا، آپ کو معذرت میرے بابا سے کرنی چاہیے جن کا آپ نے دل دکھایا۔ کہنے لگیں میرے ماموں بہت غصے میں ہیں،
کہتے ہیں اس کالم نگار پر بھی مقدمہ ہونا چاہیے، اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔آپ نے بہت زیادتی کی ہے۔ زارا نے کہا، اس وقت وہ لاہور میں ہیں، ویک اینڈ پہ گائوں جائیںگی اور اپنے بابا سے میری بات کرائیں گی۔کچھ دن بعد زارا کا فون آیا۔کہا میرے بابا سے بات کریں۔ میں نے بات کی۔ ایک مدھم، پیاری، خوبصورت آواز۔ میں نے معذرت کی تو بولے ''پتر کوئی گل نیں‘‘ (بیٹے کوئی بات نہیں۔) میں نے کہا، آئی ایم سوری، آپ کے ساتھ مجھ سے انجانے میں زیادتی ہوگئی۔ بولے کوئی بات نہیں، میں نے بچوں کو بتایا تھا کہ انہیں کسی نے غلط بات بتائی ہے اس لیے انہوںنے لکھ دی، ورنہ اس کالم نگار کی ہم سے کیا دشمنی ہے۔ میں نے کہا، میں کالم میں لکھ کر معذرت کروںگا۔ بولے: چھڈو پتر جی،کیا کرنا ہے لکھ کر آپ نے، کہہ دیا کہ آپ سے غلطی ہوگئی تو بس ٹھیک ہے۔ در اصل ان کا ماموں بہت غصے میں تھا، میں نے اسے بھی سمجھایا جانے دو یار۔
فون بند ہوا تو میری شرمندگی برقرار تھی کہ میں نے ایک باپ کا دل دکھایا۔ میں خود بچوں کا باپ ہوں اس لیے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ اگرکوئی میرے بارے میں اسی طرح لکھ دے تو مجھے کیسا لگے گا؟ میں ایک بار پھر شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ چند دن بعد پھر زارا کا فون آیا اور بولی بابا نے تو معاف کر دیا تھا لیکن ہمارے ماموں بہت ناراض ہیں۔ وہ کسی صورت بخشنے کو تیار نہیں۔ میں نے کہا مجھے آپ کے ماموںکی فکر نہیں، مجھے زیادہ تکلیف آپ کے والد کا دل دکھانے کی تھی، میں نے ان سے معافی مانگ لی تھی اور انہوں نے فورا مجھے معاف کر دیا تھا۔ ماموں اگر مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ بولیں بابا نے منع کیا ہے، آپ بے شک کالم میں معذرت نہ کریں۔ آپ نے ان سے زبانی معذرت کر لی تھی جوکافی تھی؛ حالانکہ وہ تو اتنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ میں نے اگلے روز کالم لکھا کہ کیسے ہم لکھاریوں کو گائوں کا کوئی عام سا دیہاتی پوری پلاننگ سے بیوقوف بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاید وہ اتنا چالاک نہیں تھا لیکن مجھ جیسے دیہاتی ہر انسان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کر جال میں پھنس جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اپنے تئیںکسی کی مدد کر رہے ہیں۔
اس واقعے کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔ پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ میرے اعتماد کو جھٹکا لگا، میں نے فوراً عام لوگوں کی کہانیان لکھنا بند کریں۔ خط چھاپنا بھی بند کر دیے کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ دنیا ذہین اور فنکار لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو آپ کے حساس دل کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔ وہ آپ کے ذریعے معصوم لوگوں کے ساتھ بھی کھیلتے ہیں۔کئی دن احساس جرم رہا۔ ایک دن پتا چلا جن لوگوں نے خالد چیمہ کو اغوا کیا تھا انہیں عدالت سے پچاس پچاس سال قید ہوگئی ہے۔ میں یہ واقعہ بھول گیا تھا۔ چھ برس طویل عرصہ ہوتا ہے، یہاں تو شام کو یاد نہیں رہتا کہ صبح کیا ہوا تھا۔ میں نے اس واقعے سے یہ ضرور سیکھا تھا کہ دوسروں کے جھگڑوں میں پڑنا عقلمندی نہیں ہوتی۔
اب چھ برس بعد مجھے نامعلوم نمبر سے ٹیکسٹ پیغام آیا۔ لکھا تھا میں زارا ضیا چیمہ ہوں۔ شاید آپ کو یاد ہو ہمارے بھائی پر آپ نے کالم لکھا تھا۔ آپ سے بات ہوئی تھی۔ آپ سے بات کرنی ہے۔ ہمارا خاندان بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ آپ ہماری مدد کریں۔ میں بار بار پیغام پڑھتا رہا۔ میں نے سوچا تھا شاید بات ختم ہوگئی، لیکن ابھی میرا امتحان اور سزا ختم نہیں ہوئی تھی۔ ایک باپ کا دل دکھانا مجھے بہت مہنگا پڑگیا تھا۔ چھ برس بعد بھی اس خاندان کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ میں کافی دیر سوچتا رہا کہ اس معاملے میںکودوں یا نظراندازکردوں۔ مجھے یاد آیا کچھ کام خدا پر چھوڑ دینے چاہئیں، انسان ایک حد تک ہی کسی کی مدد کرسکتا ہے۔ چنانچہ میں نے پیغام کو نظرانداز کردیا کہ پھر کسی نئے پھڈے میں نہ پڑوں۔ اگلے دن زارا چیمہ کا پھر میسیج آیا، خدا کے لیے مجھ سے بات کرلیں، ہم بہت پریشان ہیں۔ بابا نے کہا ہے رئوف صاحب سے بات کر کے دیکھ لیں۔ شاید وہ ہماری کچھ مدد کر سکیں۔ میں نے تمامتر احتیاط اور ماضی میں کھائی گئی قسمیں ایک طرف رکھیں اور زارا چیمہ کو فون کیا۔ زارا نے جو کہانی سنائی، اسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
مجھے زارا چیمہ سے بات کرتے ہوئے لیو ٹالسٹائی کا عظیم ناول 'انینا کرینا‘ یاد آ گیا کہ ہر سکھی گھر ایک جیسا ہوتا ہے لیکن ہر دکھی گھر کی کہانی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ وقت نے سیالکوٹ کے دوردراز گائوں کے اس مظلوم چیمہ خاندان پر کیا ستم کیا! انہونیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اس خاندان کے ساتھ بھی کچھ انہونی ہوچکی ہے۔ (جار ی)