چھبیس اپریل کو تھانہ بیگوالا میں ایک خاتون نے درخواست دی کہ اس کی بیٹی جو دو ماہ پہلے اکیس فروری کو اغوا ہوئی تھی‘واپس گھر آگئی ہے۔ اس کا مقدمہ تین نوجوانوں پر درج کیا جائے۔درخواست میں لکھا ہوا تھا وہ بیگووالا کے موضع واں کی رہائشی ہے۔ اس کا خاوند بیرون ملک ہوتا ہے۔ اکیس فروری کو اس کی تیرہ چودہ سالہ بیٹی گھر سے سودا سلف لینے نکلی اور واپس نہ آئی۔ تین دن بعد اس کا خاوند بیرون ملک سے آیا۔ اب دو ماہ بعد پتہ چلا ہے اس کی بیٹی کو ملزمان خالد چیمہ ولد ضیاء اللہ چیمہ، امتیاز احمد اور محمد عامر اقوام جٹ چیمہ اور علی ولد بشیر نے اغوا کیا تھا ۔ اس درخواست پر ابتدائی تفتیش محمد خلیل اے ایس آئی کے سپرد ہوئی اور سب ملزمان کو تھانے بلا کر گرفتار کیا گیا اور گیارہ مئی کو ان سب کا چھ روزہ جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا گیا ۔
جب یہ لڑکے گرفتار ہوئے تو پورا واں گائوں اکٹھا ہوگیا کیونکہ سب کو علم تھا کہ پرچہ جھوٹا ہے۔ لڑکی اکیس فروری کو غائب ہوئی تھی اور مقدمہ اب دو ماہ بعد چھبیس اپریل کو درج ہوا تھا ۔ اس پر ڈی ایس پی سیالکوٹ سمبڑیال نے انکوائری شروع کر دی کیونکہ ایس ایچ اوشاہد ڈھلوں کے اس پوری معاملے میں کردار پر سوالات اٹھنے شروع ہوگئے تھے۔ ڈی ایس پی کی تفتیش میں پتہ چلا وہ خاتون اس بچی کی سوتیلی ماں تھی۔ اکیس فروری کو وہ لڑکی رات کے وقت ایک ویران علاقے میں تھی۔ اسے وہاں دیکھ کر نصرت عباس جو وہاں سے گزررہا تھا ‘اسے اپنے ساتھ راولپنڈی لے گیا۔ اس نے لڑکی کو دو ماہ دس دن اپنے پاس رکھا۔ لڑکی نے اسے اپنے گائوں کا پتہ نہ بتایا ۔ ملزم علی نے اس دوران مغویہ سے شادی کی کوشش بھی کی۔ تاہم کم عمری کی وجہ سے کورٹ میرج نہ ہو سکی۔ اس پر لڑکی نے اپنے مبینہ اغوا کے بارہ روز بعد پانچ مارچ مجسٹریٹ سمبڑیال کو درخواست دی اس کا میڈیکل کرایا جائے‘وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس درخواست میں اس لڑکی نے لکھا وہ مدینہ کالونی سمبڑیال کی رہائشی ہے ‘عاقل اور بالغ ہے اور انڈر مڈل ہے۔ اس کی سوتیلی ماں اس کی شادی ادھیڑ عمر شخص سے زبردستی کرنا چاہتی ہے ۔ انکار پر اس کی سوتیلی والدہ نے اسے مار پیٹ کر گھر سے باہر نکال دیا ہے۔ باپ بیرون ملک مزدوری کررہا ہے اور وہ در بدر کی ٹھوکریں کھارہی ہے اور اب اپنی مرضی سے نکاح نصرت عباس سے کرنا چاہتی ہے۔ تاہم اس میڈیکل رپورٹ سے پتہ چلا‘ اس کی عمر چودہ سال تھی اور نکاح نہیں ہوسکتا تھا۔ اس دوران پولیس نے کیبل ٹی وی پر لڑکی کی گمشدگی کی تصویریں چلائیں تو وہ لڑکا اسے لے کر اس گائوں کے چیئرمین کے ڈیرے پر گیا۔ چیئرمین عمران اسلم نے چھبیس اپریل کو لڑکی کے والد اور اس کے چچا شوکت کو بلا کر لڑکی ان کے حوالے کر دی۔
اب ڈی ایس پی سمبڑیال اپنی انکوائری رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ لڑکی جب گھر پہنچ گئی تو پھر گھر کے مکینوں نے بیٹھ کر باقاعدہ منصوبے کے تحت چیمہ برادری کے ان لڑکوں کو مقدمے میں نامزد کرنے کا فیصلہ کیا جن کے خاندان کے ساتھ ان کی برادری کی پرانی دشمنی چل رہی تھی اور خالد چیمہ کو اغواء کرنے کے جرم میں رانا برادری کے پانچ لوگوں کو دو دو دفعہ عمر قید بھی ہو چکی تھی۔ دبائو کے باوجود چیمہ خاندان رانا برادری کے جیل میں عمر قید بھگتتے پانچ لوگوں کو معاف کرنے پر تیار نہ تھا۔ یوں اس درخواست میں خالد چیمہ کا نام دیا گیا جو ان دنوں دبئی سے اپنی شادی کے سلسلے میں اپنے گائوں واں آیا ہوا تھا۔ ڈی ایس پی نے اپنی رپورٹ میں لکھا‘ جیل میں قید رانا فرمان کے تین بھتیجوں اور مقدمہ کے موجودہ مدعی ایک ہی برادری کے ہیں لہٰذا خالد چیمہ اور دیگر کے نام جان بوجھ کر لڑکی کے اغوا میں ڈال دیے گئے ہیں تاکہ چیمہ خاندان پر دبائو ڈال کر رانا خاندان کے پانچ عمر قید بھگتتے لوگوں کو باہر لایا جاسکے۔ ڈی ایس پی نے لکھا‘ اس مقدمے میں ملزم نصرت عباس ہی ملوث پایا گیا ہے۔ باقی تین لوگ بشمول خالدچیمہ بے قصور ہیں۔ اس رپورٹ کے باوجود ایس ایچ او نے اگلے روز جا کر عدالت سے مزید ریمانڈ مانگ لیا۔ عدالت نے ریمانڈ نہ دیا اور جوڈیشل کر دیا۔ اس دوران ڈی پی او ڈاکٹر عابد نے اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی بجائے نئی کہانی شروع کر دی کہ بہتر ہوگا ان لڑکوں کا ڈی این اے کرایا جائے اور ایس ایچ او کو اشارہ دیا گیا کہ انہیں مقدمے سے خارج نہیں کرنا اور یوں ڈیڑھ ماہ سے وہ بے گناہ لڑکے سیالکوٹ جیل میں سڑ رہے ہیں۔
اس دوران جب سلمان شہباز کو اس معاملے میں انکوائری کرانے کی درخواست کی گئی تو معاملہ وزیراعلیٰ شہباز شریف تک پہنچا تو وہاں سے ڈی آئی جی ابوبکر خدابخش کو انکوائری کے لیے بھیجا گیا ۔ ڈی آئی جی خدابخش نے اپنی انکوائری رپورٹ میں مزید تہلکہ خیز انکشافات کیے۔ کیسے سیالکوٹ کے ڈی پی او سے لے کر ایس ایچ او تک نالائقی کی ایک ایسی داستان رقم کی گئی جو پنجاب پولیس میں عام ہے۔
ڈی آئی جی کی اس رپورٹ مطابق چھبیس اپریل کو جب تھانے میں لڑکی کے اغوا اور واپسی کے دو ماہ بعد باپ نے درخواست دی تو اسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اس نے کس کو ملزم ٹھہرانا ہے۔ اس نے محض درخواست دی اور کہا کہ وہ کچھ وقت بعد آکر بتائے گا کہ اس پر کیا کارروائی کرنی ہے۔ابوبکر خدابخش کی رپورٹ مطابق وہ بچی اپنے گائوں کی دکان پر سبزی لینے گئی۔ اس وقت دکان کا مالک غضنفر دکان پر نہ تھا مگر اس کی بیوی موجود تھی۔ بچی نے آلو خریدے اورمبینہ طور پر دکاندار کا پرس جس میں پانچ سو روپے موجود تھے‘ چرالیا ۔ تھوڑی دیر بعد وہی بچی دکان پر واپس آئی اور غضنفر کی بیوی کو بتایا کہ اسے راستے سے غضنفر کا شناختی کارڈ گرا ہوا ملا ہے۔ اس پر غضنفر کی بیوی نے شور مچادیا کہ اس نے پرس چرایا ہے جس میں پانچ سو روپے تھے اور اسی میں یہ شناختی کارڈ تھا۔ اس پر بچی ڈر گئی کہ اب اس کی سوتیلی ماں کو شکایت ہوگی لہٰذا ڈر کے مارے وہ گھر نہیں گئی اور گائوں سے بھاگ گئی۔ ا س دوران شام ہوگئی تو وہ ایک ویران جگہ پر جا کر چھپ گئی جہاں اسے نصرت عباس نے دیکھا‘وہ اسے اپنے ساتھ پنڈی لے گیا اور بعد میں اپنے گھر لے گیا اور کوشش کی کہ لڑکی سے شادی کر لے لیکن کم عمری کی وجہ سے نہ ہوسکی۔
ڈی آئی جی ابوبکر نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ تھانے دار شاہد ڈھلوں کی وجہ سے یہ سب ٹریجڈی ہوئی کہ بے گناہ لڑکے پکڑ لیے گئے حالانکہ اسے کیس کے بیک گرائونڈ کا پتہ تھا کہ رانا اور چیمہ برادری میں پرانی دشمنی تھی اور انہیں جان بوجھ کر پھنسایا گیا تھا۔ تھانے دار شاہد ڈھلوں پر گرفتار لڑکوں کے ورثاء الزام لگا رہے تھے‘ وہ بھی رانا برادری کے ساتھ مل گیا تھا لہٰذا پہلے اس نے جھوٹا مقدمہ درج کیا اور پھر عدالت میں ضمانت رکوانے کے لیے مزید ریمانڈ مانگ لیا تاکہ رانا برادری اس اثنا میں چیمہ خاندان پر دبائو ڈال کر صلح کرالے۔ جب شاہد ڈھلوں سے پوچھا گیا اس نے کیوں تفتیش کیے بغیر تین لڑکوں کو تھانے بلا کر گرفتار کیا جب کہ اسے پتہ تھا دونوں خاندانوں کے درمیان پرانی دشمنی چل رہی تھی اور سزا یافتہ مجرموں کو چھڑانے کے لیے دبائو تھا تو اس نے جواب دیا کہ اس پر میڈیا کے لوگوں کا دبائو تھا اور وہ اسے دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر مقدمہ درج نہ ہوا تو وہ ٹی وی چینل پر رپورٹ چلا دیں گے۔ پوچھا گیا کس رپورٹر نے اسے دھمکی دی تھی تو وہ کوئی نام نہ بتا سکا۔ ایس ایچ او شاہد ڈھلوں نے ایک اور کھیل کھیلا کہ گرفتار لڑکوں کے ورثاء کو یقین دہانی کرائی کہ اس نے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا اور وہ اسے چھوڑ دے گا لہٰذا وہ بھاگ دوڑ نہ کریں۔ اطمینان رکھیں۔ اس لیے یہ تینوں لڑکے خود ہی تھانے میں موجود رہے۔ تاہم ایک دن ایس ایچ او نے تفتیشی کو حکم دیا کہ ان پر مقدمہ درج کر کے باقاعدہ گرفتاری ڈال دو۔
جب لڑکوں کے خاندان کو پتہ چلا تو وہ بھاگے بھاگے اعلیٰ حکام سے ملے جس پر ڈی ایس پی نے انکوائری کی اور گیارہ مئی کو اپنی رپورٹ میں انہیں بے قصور ٹھہرایا لیکن پولیس نے پھر بھی جا کر عدالت سے مزید ریمانڈ مانگا نہ کہ انہیں رہا کرنے کی سفارش کی۔ ایس ایچ او نے عدالت میں یہ بہانہ بنایا کہ اس نے ان ملزمان کا ڈی این اے لینا ہے۔ سب حیران تھے‘ لڑکی اپنے گھر سے اکیس فروری کو غائب ہوئی تھی‘ اب گیارہ مئی کو کون سا ڈی این اے ہوگا جس سے وہ ملزم مجرم ثابت ہوجائیں گے۔ مجسٹریٹ سے لے کر ایس ایچ او اور ڈی پی او سیالکوٹ ڈاکٹر عابد تک سب کو داد ددینی چاہیے...کیا شاندار انصاف ہو رہا تھا!
اس کے بعد لڑکے کے خاندان والوں نے سیشن کورٹ رابطہ کیا ۔ وہاں شنوائی نہ ہوئی تو ہائی کورٹ چلے گئے، وہاں بھی کسی کو یہ مقدمہ سننے میں جلدی نہ تھی۔ اب بدھ بائیس جون کو اس مقدمے کی پیشی تھی۔ جج صاحب فرماتے ہیں وہ عمرہ کرنے جارہے ہیں۔ یوں ضمانت کے لیے دلائل سنے ہی نہیں گئے۔
تین بے قصور لڑکے تقریباً دوہ ماہ سے جیل میں گل سڑ رہے ہیں۔ پورا گائوں کہتا ہے وہ بے گناہ ہیں۔ ڈی ایس پی سیالکوٹ کی رپورٹ کہتی ہے وہ بے گناہ ہیں۔ ڈی آئی جی ابوبکر خدابخش کی رپورٹ کہتی ہے وہ بے گناہ ہیں۔ ڈی پی او سیالکوٹ ڈاکٹر عابد نے مجھے خود بتایا وہ بے گناہ ہیں اور دو دن میں چھوٹ جائیں گے، سلمان شہباز نے انکوائری کے بعد مجھے بتایا وہ بے گناہ ہیں، لیکن پھر بھی کوئی عدالت ان کی ضمانت لینے کوتیار نہیں !ایسا کون سا خفیہ ثبوت عدالت کے ہاتھ لگ گیا ہے جو شہباز شریف ، سلمان شہباز، ڈی پی او ، ڈی آئی جی اور ڈی ایس پی کے پاس بھی نہیں ہے جس سے ضمانت نہیں ہوئی اور نہ ہی مقدمہ خارج ہوا ۔
یہ رام کہانی سنانے کا مطلب یہ ہے کہ شہباز شریف نوٹس لیں، سلمان شہباز بھی ذاتی دلچسپی لیں، پولیس کی دو انکوائریاں ان کو بے گناہ ثابت کر دیں، میں بھی تین کالم لکھ لوں مگر بات وہی سچ ہے جو میرے نیویارک کے دوست تبسم بٹ نے کہی تھی....ہونا کج وی نئیں!!
یہ ہے پاکستان، پاکستان کی پولیس اور ہماری عدالتوں کا انصاف۔ جب تک واں گائوں کا چیمہ خاندان رانا برادری کے پانچ سزایافتہ مجرموں کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتا سیالکوٹ جیل میں دوماہ سے پڑے لڑکوں کی ضمانت کوئی نہیں کراسکتا ۔
رہے نام اللہ کا اور ان کا جو پنجاب میں رنجیت سنگھ کے بعد سب سے زیادہ برس حکمرانی کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے انقلابی شاعر حبیب جالب کی انقلابی نظمیں انتہائی ترنم کے ساتھ مجمع میں سنانا بھی نہیں بھولتے..... میں نہیں مانتا....میں نہیں مانتا....ایسے دستور کو.....صبح بے نور کو....!!