"RKC" (space) message & send to 7575

اپنی اپنی قسمت کی بات ہے…!

استنبول ائرپورٹ پر حملوں ، علی حیدر گیلانی کا انٹرویو اور اب سپریم کورٹ میں صفورا قتل عام اور سبین محمود کے قاتلوں کو دی گئی سزائے موت جسے اب ملٹری کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، ان سب میں کچھ نہ کچھ مشترک ضرور ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے مسلمان معاشرے تباہی کے کس دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور ان معاشروں کو اس طرح کی نشأۃ ثانیہ جیسی لٹریری تحریک کی ضرورت ہے جو کبھی یورپ میں ڈارک ایجز میں اٹلی میں شروع ہوئی اور جس نے پورے یورپ کو تاریکی سے نکال کر جدیدیت کا راستہ دکھایا تھا ۔ 
2013ء میں جب نواز شریف پہلی دفعہ ترکی گئے تو دنیا ٹی وی نے مجھے اپنے خرچے پر وہاں بھیجا کہ وہاں سے رپورٹنگ کروں ۔ واپسی پر جب اسی استنبول ائرپورٹ پر قطار میں کھڑا تھا اور میرے ہاتھ میں سبز پاسپورٹ تھا تو ایک ترک سپاہی میری طرف بھاگ کر آیا۔ اس نے باقی سب لوگوں کو جو میرے ساتھ قطار میں کھڑے تھے، نظرانداز کیا اور مجھ سے پاسپورٹ تقریباً چھین ہی لیا ۔ اسے خاصی دیر تک الٹ پلٹ کر کے دیکھتا رہا۔ کچھ سوال و جوابات کیے کہ یہاں کیوں آئے تھے، کیا کام تھا۔ کس سے ملنا تھا۔ میرے ذہن میں وہ بچپن سے پڑھی ہوئی تمام ترک پاکستان دوستی کی کہانیاں ایک لمحے میں گھوم گئیں۔ نہیں دنیا بدل گئی تھی۔ اب ترک بھی پاکستانیوں کو شک سے دیکھتے ہیں کہ کہیں ہم ان کے ہاں دہشت گردی کرنے تو نہین آجارہے۔۔ اگرچہ مجھے اس طویل قطار میں سے اس طرح الگ کر کے سوال و جواب کرنے پر دکھ تو یقینا ہوا لیکن پھر میں نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ کیا کریں ہمارے بزرگوں کی مہربانیاں ہی اتنی ہیں کہ دنیا ہم سے ڈر گئی ہے۔ 
چوہدری نثار علی خان کو سنتا ہوں تو لگتا ہے کہ پاکستان میں جتنے قابل لوگ اور ادارے ہیں شاید دنیا میں کہیں نہ ہوں۔ علی گیلانی کی کہانی پڑھی تو اندازہ ہوا کہ ہم تو قرون وسطی میں زندہ ہیں۔ علی حیدر گیلانی کوئی عام نہیں ملک کے سابق وزیراعظم کا بیٹا دن دہاڑے ملتان سے اغوا ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں یہ خبر سارے ٹی وی
چینلز پر چل رہی ہوتی ہے۔ علی بتاتا ہے کہ اسے دہشت گرد گاڑی میں ڈال کر بڑے آرام سے ملتان سے نکلتے ہیں اور فیصل آباد تک چار گھنٹوں کے سفر میں پہنچ جاتے ہیں۔ کہیں کوئی پولیس نہیں، کسی نے نہیں روکا۔ کوئی ناکہ نہیں تھا۔ کوئی چیکنگ نہیں ہوئی‘ کسی نے نہیں پوچھا۔ فیصل آباد ڈیرہ ماہ رکھا گیا۔ ہم ٹی وی چینلز پر پنجاب کے حکمرانوں کی بڑھکیں ہی سنتے رہے اور رانا ثناء اللہ کی جگتیں ۔ اس طرح وہ پنجاب سے نکلے اور علی گیلانی کو خیبر پختون خوا اوربارہ سرحدی فوجی چوکیوں پر سے گزارتے ہوئے وہ قبائلی علاقے میں لے گئے، کسی کے پاس نہ وقت ہے اور نہ ہی ترجیح کسی سول سپاہی یا فوجی نے کچھ نہیں پوچھا ۔ 
گورنر سلمان تاثیر کا بیٹا دن دہاڑے لاہور سے اغوا ہوا۔ کہیں کوئی پولیس نہیں، کچھ نہیں، سب زبانی جمع خرچ۔ وہ بھی لاہور سے باہر لے جایا گیا ، ہماری ایجنسیاں، پولیس سب ڈرامے کرتی رہیں۔ اب یہی کچھ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کے ساتھ ہوگا۔ اب تک وہ کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہوگا اور بڑے لوگ اس کے گھر پہنچ کراہل خانہ کو تسلیاں دے رہے ہیں۔۔جیسے گیلانی، اور تاثیر کے خاندان کو دی گئی تھیں ۔ یہی گیلانی دوبارہ وزیراعظم بن جائیں تو ویسے ہی حکمرانی کریں گے جیسے پہلی دفعہ کی گئی تھی ۔ وہ بھی اسی نالائق پولیس اور ایجنسیوںکے سہارے ہی مزے کرتے ہیں چاہے بچے ہی کیوں نہ اغوا ہوجائیں۔دوسری طرف جو کچھ صفورا قتل عام کے مجرموں کے بارے میں ملٹری کوٹ اپیل میں پیش کی گئی تفتیش میں انکشافات کیے گئے ہیں انہیں پڑھ کر ہی آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں کہ ہمارے لیڈروں کو احساس تک نہیں ہے کہ ہم کس خطرے سے دوچار ہیں۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق طاہر منہاس جس نے صفورا قتل عام کا منصوبہ بنایا تھا دراصل پہلے بھی شیعہ کمیونٹی کو قتل کرتا رہا تاکہ وہ اسلامک سٹیٹ کے بڑوں کو متاثر کر سکے کہ وہ اسے پاکستان میں کوئی اہم عہدہ دیں۔ منہاس کے پاس کراچی میں اپنا پورا گروپ تھا جسے وہ چلا رہا تھا۔ وہ پہلے طالبان کے ساتھ کام کر رہا تھا لیکن پھر اس کا دل بھر گیا جب اس نے طالبان کی اندورنی لڑائیاں اور گروپنگ دیکھی۔ اس پر اس نے اسلامک سٹیٹ کے امیر کے نام پر بیعت لینے کا فیصلہ کیا اور کراچی میں مقامی طور پرمخالف فرقے کے لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا ۔ پہلے اس نے کراچی میں مقامی آئی ایس کی قیادت سے رابطے کیے۔ اس کا برادرنسبتی عمر المعروف جلال بھی القاعدہ کا اپنا کراچی میں گروپ چلا رہا تھا ۔ منہاس نے اپنے بردار نسبتی کو بھی آئی ایس میں شریک ہونے کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کر دیا اور اس نے کہا کہ وہ اُسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر چکا ہے لہٰذا اس کا وفادار رہے گا۔ تاہم منہاس کو احساس ہوچکا تھا کہ القاعدہ اب پرانی بات ہوچکی تھی، نیا سودا اب آئی ایس ہی بیچ سکتی تھی۔ 
2014ء میں آئی ایس نے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور ابو محمد ال ادنی نے ایک وڈیو ریلیز کی جس میں خراسان صوبے کے قیام کا اعلان کیا اور حافظ سعید خان کو اس کا امیر مقرر کیا جو اس سے پہلے طالبان کے اورکزئی ایجنسی میں سربراہ تھے۔ منہاس نے سعید سے رابطہ کیا اور آئی ایس کی بیعت کر لی۔ اسے کراچی آئی ایس کا امیر مقرر کر دیا گیا۔ 
2014-15ء میں انہوں نے کراچی کی دیواروں پر آئی ایس کے نعرے لکھنے کا منصوبہ بنایا اس اور کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ ایک ٹیم کے ذمے دیواروں پر لکھنا اور دوسری ٹیم کا اسے سیکورٹی کور فراہم کرنا تھا۔ یوں اس ٹیم نے کراچی شہر میں اہم شاہرائوں پر آئی ایس کے نعرے لکھے۔اس سے پہلے سعد عزیز دو ہزار دو میں بلوچستان کے راستے افغانستان گیا تاکہ وہ تین ماہ کی تربیت لے سکے۔ افغانستان میں قیام کے دوران سعد کی ملاقات اسامہ بن لادن ، ایمن الظواہری، ابو یحییٰ اور حمزہ مصری سے ہوئی۔ منہاس نے بھی تفتیش کے دوران بتایا 2011ء سے لے کر اب تک جلال اسے رقومات فراہم کر رہا تھا۔ جلال ہر ماہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو تیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دے رہا تھا۔ اس کے بردار نسبتی جلال کو یہ پیسے سعودی عرب، بحرین اور کویت سے ملتے تھے۔ وہ دوسروں ملکوں سے القاعدہ کے کارکنوں کو پاکستان لانے کا بھی کام کرتا تھا ۔ اور پھر پاکستان سے انہیں افغانستان بھیج دیا جاتا تھا۔ یوں یہ سلسلہ وہ کراچی سے چلا رہا تھا ۔ جب یہ القاعدہ کے لوگ واپس اپنے ملکوں کو جاتے تو وہ وہاں سے جلال کو بھاری رقومات بھیجتے تھے۔ جلال کو عربی بولنی آتی تھی لہٰذا وہ القاعدہ کے لوگوں کے بہت قریب تھا۔ جلال نے تفتیش کے دوران یہ بھی بتایا کہ حاجی بلوچ جو رمزی یوسف کا بھائی تھا وہ بھی انہیں پیسے دیتا تھا۔ بلوچ کے بیٹے انور نے بیرون ملک سے آٹھ کروڑ روپے اکٹھے کیے تھے اور اس نے اس میں سے ایک کروڑ روپے وزیرستان بھی بھیجے تھے۔یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ دل دُکھتا ہے کہ کیسے عام انسان اپنے جیسے انسانوں کو قتل کرنے کے لیے جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دوسروں کے بچوں سے ان کا باپ چھین لیتا ہے۔ جب پھانسی لگنے کا وقت آتا ہے تو پھر وکیل بھی کر لیتے ہیں اور ان کے وکیل چند ہزار روپوں کے لیے ٹیکنکل جواز بھی تلاش کر لیتے ہیں۔
دکھ اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ جب جناح کا پاکستان ہائی جیک ہورہا تھا اور پاکستانی گاجر مولی کی طرح کاٹے جارہے تھے، تو اس وقت ہماری سول ملٹری بیوروکریسی انہی دہشت گردوں کو مجاہد بنا کر دنیا میں بیچ رہی تھی۔ جب کہ زرداری، شریف خاندان اور ہمارے سیاسی لیڈرز دوبئی، لندن اور پاناما میں کمپنیاں بنا کر جائیدادیں بنا رہے تھے۔ جب کہ ارب پتی پاکستانی دوبئی میں سات ارب ڈالرز کی جائیداد خرید رہے تھے۔ پاکستان سے پیسہ باہر بھیجنے کے لیے ایان علی ٹائپ کردار ایجاد کیے جارہے تھے‘جن کی وکالت پنجاب کا سابق گورنر لطیف کھوسہ کر رہا ہے جو پی پی پی کی طرف سے فائل کیے گئے ریفرنس میں میاں شریف، نواز شریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار سب کو منی لانڈرنگ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، کہتے ہیں انہوں نے ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک بھیج دی ۔ لیکن اسی سانس میں وہ ایان علی کو بے قصور سمجھتے ہیں ۔ 
اگر کبھی کسی مورخ نے ہمارے اس دور کی کہانی لکھی تو یہی لکھے گا جب پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا ، اس کے لیڈرز پاکستان سے لوٹ مار کر کے پاناما میں کمپنیاں قائم کر رہے تھے۔ اشرافیہ کے لوگ دوبئی میں جائیدادیں خرید رہے تھے۔ لطیف کھوسہ ہزاروں صفحات ٹائپ کر کے شریف خاندان کی 1970ء سے اب تک منی لانڈرنگ کو غلط لیکن ایان علی کی منی لانڈرنگ کو جائز قرار دے رہے تھے۔ زرداری، نواز شریف، اسحاق ڈار سب اپنے اپنے بچے اور کاروبار باہر سیٹل کر رہے تھے اور باقی ماندہ بیس کروڑ قوم جن میں سے آٹھ کروڑ سرکاری طور پر بدترین غریب قرار دیے جاچکے ہیں، وہ سب لندن سے بادشاہ سلامت نواز شریف کی وطن واپس پر فقید المثال استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں