"RKC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کی جگتیں…

ہم بھی مذاق کرنے سے باز نہیں آتے۔
میرے دوست کاشف عباسی نے پوچھ لیا کہ الطاف حسین کا ٹرائل ہو گا کیونکہ اب چوہدری نثار علی خان نے برطانوی حکومت کو تمام تر ثبوتوں کے ساتھ ریفرنس بھیج دیا ہے؟ 
میں نے جواب دیا: کاشف! جو بندہ یہ کہتا ہو کہ میرے پاس اعتزاز احسن، خورشید شاہ کے کرپشن کے ثبوت ہیں‘ یا جو یہ کہتا ہو کہ بلاول بھٹو کو پہلے اپنے باپ سے پوچھنا چاہیے کہ اس کے پاس سرے محل، دبئی میں محل اور سوئس بینکوں میں چھ ارب روپے کے برابر بینک بیلنس کہاں سے آیا‘ وہ کیا کارروائی کر سکتا ہے؟ باقی تو چھوڑیں ہمارے دوست چوہدری نثار علی خان تو رحمن ملک تک کا ٹرائل نہیں کر سکتے جن کے خلاف ان کے پاس لوٹ مار کے درجنوں ثبوت موجود ہیں۔ وہ الطاف حسین کو پاکستان لا کر ان کا ٹرائل کیا خاک کریں گے؟ 
یہی دیکھ لیں کہ رحمن ملک کے خلاف چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کرکے ان کی وزارت کے دنوں کے کئی پول کھولے۔ بلیو پاسپورٹس ہوں یا پھر سفارتی پاسپورٹس، لاکھوں کی تعداد میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے ہوں یا پھر سیف سٹی پروجیکٹ پر بدعنوانیاں‘ کئی باتیں سامنے آئیں۔ رحمن ملک نے سفاری اور بلیو پاسپورٹس ٹکے ٹوکری کر دیے تھے۔ برطانوی شہری بھی پاکستانی سرکاری پاسپورٹس لے کر دنیا بھر میں پھرتے رہے۔ کبھی پاکستانی سرکاری افسران کو دنیا بھر کے ستر سے زائد ممالک میں ویزے کے بغیر انٹری ملتی تھی۔ رحمن ملک کی فیاضیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ تعداد گھٹ کر انتیس رہ گئی ہے۔ سب کو پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان میں مال لگا کر بلیو پاسپورٹ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ صومالیہ کے سرکاری پاسپورٹ کی ساکھ بھی پاکستانی سے زیادہ ہی ہو گی۔
چوہدری نثار نے دعویٰ کیا کہ جناب زمین آسمان الٹا دیے جائیں گے‘ بلیو پاسپورٹس کی بے حرمتی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں ملیں گی۔ قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں بھی بڑھکیں ماری گئیں۔ قائمہ کمیٹیوں میں بھی بلند بانگ نعرے سننے کو ملے۔ پھر راجپوت‘ چوہدری نثار کے دل میں رحم اتر آیا۔ اچھے انسان ہیں‘ کسی کا برا نہیں چاہتے۔ کسی کو جیل جاتے نہیں دیکھ سکتے۔ انہی چوہدری نثار نے‘ جنہوں نے رحمن ملک دور کی کرپشن بے نقاب کی تھی‘ اپنی وزارت کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کے ذریعے یہ انکوائری کرائی اور کیس داخل دفتر ہو گیا۔ جناب اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ رحمن ملک کی جان لینا تھوڑی مقصود تھا۔ انہیں تھوڑا سا جھٹکا دینا مقصود تھا‘ دے دیا۔ اسی طرح رحمن ملک دور کا بڑا سکینڈل سیف سٹی پروجیکٹ بھی تھا۔ موصوف کو پتہ چلا کہ وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی یہ پروجیکٹ شروع کر رہی ہے۔ فوراً ایک سمری لے کر دوڑے دوڑے وزیر اعظم گیلانی کے پاس گئے کہ جناب ان کے ہوتے ہوئے یہ کام اور کون کر سکتا ہے؟ گیلانی کو بھی ایسے سمجھدار پارٹنر کی ضرورت تھی ۔ فوراً یہ پروجیکٹ وزارت آئی ٹی سے لے کر رحمن ملک کی وزارت کو شفٹ کر دیا گیا۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ جس پروجیکٹ کی لاگت انہوں نے بارہ ارب روپے لگائی وہ تو اصل میں سات ارب روپے کا ہے۔ چینی کمپنی کو پروجیکٹ شروع ہونے سے پہلے ہی سات ارب روپے ادا کر دیے گئے‘ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ مقدمہ چلا۔ وہاں روزانہ نئے نئے انکشافات ہوتے رہے، لیکن کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ پلاننگ ڈویژن نے بھی لکھ کر دے دیا کہ منصوبے کی اصل لاگت سات ارب روپے بنتی ہے لیکن رحمن ملک نے بارہ ارب روپے میں ہی ڈیل فائنل کی۔ یہ سب دستاویزات میرے پاس موجود ہیں۔ عدالت کا فیصلہ موجود ہے۔ چار سال قبل نیب کو سپریم کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کارروائی ہو چکی۔ نیب کے دل میں بھی چوہدری نثار کی طرح رحم ابھرا۔ اب رحمن ملک سب کا منہ چڑاتے پھرتے ہیں۔ 
کچھ اور بھی سن لیں۔ ابھی ایک سرکاری دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ رحمن ملک کے دور میں نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کے سیکرٹ فنڈز سے عیاشیوں کی ایک نئی داستان رقم کی گئی۔ رحمن ملک نے دو کروڑ روپے سیکرٹ فنڈ سے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو ادا کرائے۔ اسی سیکرٹ فنڈ سے رحمن ملک اور دیگر کے لیے لندن کے دوروں کے لیے دو کروڑ روپے کی ٹکٹیں خریدی گئیں۔ اسی سیکرٹ فنڈ سے راولپنڈی کے ایک جیولر سے زیوارت خرید کر کسی کو تحفے کے طور پر بھی دیے گئے۔
اس سے پہلے جب شعیب سڈل ڈی جی آئی بی بنے تو ان پر انکشاف ہوا کہ چالیس کروڑ روپے سے زائد رقم ان سے پہلے ڈی جی آئی بی نے نکلوا لی ہے۔ سابق ڈی جی آئی بی سے پوچھا گیا تو جواب ملا کہ انہوں نے وہ چالیس کروڑ روپے وزیر داخلہ رحمن ملک کو بیگوں میں بھر کر دیے تھے۔ شعیب سڈل یہ ساری فائل لے کر اس وقت کے وزیر اعظم گیلانی صاحب کے پاس چلے گئے اور انہیں سب کچھ بتایا۔ گیلانی صاحب بھی حیران ہوئے کہ رحمن ملک نے اتنی بڑی واردات ڈال دی اور انہیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ گیلانی صاحب نے رحمن ملک کا نک نیم رحمن بابا رکھا ہوا تھا۔ گیلانی صاحب نے توجہ سے چالیس کروڑ روپے کے اس نقد ڈاکے کی کہانی سنی۔ ابھی شعیب سڈل وہیں بیٹھے تھے کہ چند وفاقی وزرا ان کے دفتر میں داخل ہوئے۔ گیلانی سمجھدار تھے۔ انہوں نے سوچا‘ بہتر ہے ابھی چند گواہ بنا لیے جائیں کہ ان کے ساتھی وزیر نے کتنا بڑا ہاتھ مارا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔ شعیب سڈل کا خیال تھا کہ گیلانی صاحب کو یہ سب کچھ وزرا کو نہیں بتانا چاہیے تھا۔ یہ خبر سن کر وہاں موجود سب وزرا بھی اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا کر بیٹھ گئے۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس دن کے بعد گیلانی اور رحمن بابا کی پکی دوستی ہو گئی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
یہ بات کسی وزیر نے ایوان صدر میں صدر زرداری کو جا سنائی کہ کیسے چالیس کروڑ روپے کا ڈاکا مارا گیا ہے۔ زرداری صاحب کا منہ بھی کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ان کے علم میں بھی یہ بات نہیں تھی۔ زرداری صاحب نے اگر اپنے بچپن کے دوست ذوالفقار مرزا کو معاف نہیں کیا‘ اور اس سے شوگر مل لے کر چھوڑی تو آپ کا کیا خیال ہے کہ سیالکوٹ کے اس معزز شہری کو بخش دیا ہو گا؟ 
رحمن ملک بڑے سمجھدار آدمی ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کی کرپشن اور سکینڈلز پر انکوائریوں سے بچنے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی لے لی اور اس کے سربراہ بن بیٹھے۔ وہ کمیٹی جس نے وزراتِ داخلہ کے سکینڈلز کی تحقیقات کرنا تھی‘ رحمن ملک کے ماضی کے ان سکینڈلز پر کارروائی کرنا تھی اس کا سربراہ خود رحمن ملک کو ہی بنا دیا گیا۔ الٹا اب رحمن ملک وزارتِ داخلہ کے افسران کو بلا کر کارروائی ڈالتے اور رعب جھاڑتے ہیں۔ کر لو جو کرنا ہے۔
رحمن ملک اس حوالے سے بھی سمجھدار ہیں کہ انہوں نے اس کمیٹی کے اجلاس میں کبھی چوہدری نثار کے خلاف ایک لفظ بھی نہ بولا ہو گا۔ گزشتہ تین برسوں میں چوہدری نثار ایک دفعہ بھی رحمن ملک کی زیر صدارت اس کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ رحمن ملک نے بھی کبھی احتجاج نہیں کیا کہ باقی وزرا اپنی اپنی قائمہ کمیٹیوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی جوابدہی کی جاتی ہے‘ لیکن چوہدری نثار ایک دن بھی نہیں آئے۔ چوہدری نثار کو علم ہے کہ رحمن ملک کبھی گستاخی کی جرات نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس رحمن ملک کے کئی سکینڈلز کی فائلیں دراز میں رکھی ہیں۔ تین سال قبل جب چوہدری نثار علی اور اعتزاز احسن کے درمیان سینیٹ میں سخت لڑائی ہوئی اور پوری اپوزیشن واک آئوٹ کر گئی تھی کہ جب تک چوہدری نثار سینیٹ سے معافی نہیں مانگتے وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے اور اپوزیشن نے اپنے اجلاس پارلیمنٹ ہائوس کے لان میں شروع کر دیے تھے تو ایک دن جب سینیٹر سعید غنی نے چوہدری نثار علی خان پر تنقید کی کوشش کی تو رحمن ملک فورا دوڑے آئے اور بولے: ناں ناں‘ چوہدری نثار پر تنقید نہ کریں۔ بے چارے سعید غنی خاموش ہو گئے کیونکہ انہیں علم تھا کہ رحمن ملک کی جان چوہدری نثار کے پاس موجود پنجرے میں پھنسی ہوئی ہے۔ 
اسی رحمن ملک کے خلاف مصطفیٰ کمال نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جب وہ وزیر داخلہ تھے تو دبئی میں ان کی موجودگی میں لندن سے آئے ہوئے ایک شخص نے ایم کیو ایم کی بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سے فنڈنگ پر بریفنگ دی گئی تھی۔ رحمن ملک کو پورا علم تھا کہ ایم کیو ایم را سے فنڈز لے رہی ہے۔ اس انکشاف پر چوہدری نثار نے رحمن ملک کا کیا بگاڑ لیا تھا کہ وہ اب چلے ہیں الطاف حسین کو لندن سے واپس لا کر ان پر غداری کا مقدمہ چلانے۔ وہ تو چوہدری اعتزاز احسن، خورشید شاہ، زرداری اور رحمن ملک کا منہ بند کرانے کے لیے ان کی کرپشن فائلیں اپنی درازوں میں رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہ چوہدری نثار کے پاس قوت ارادی ہے، نہ اختیار اور نہ ہی جرات۔ 
میرے دوست‘ مذاق اور مخول کی بھی حد ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ حدیں بھی عبور ہو چکیں۔ اسلام آباد میں ہر نیا دن ایک نیا مخول، ایک نئی بڑھک، ایک نئی جُگت... ایک نیا سکینڈل اور ایک نیا مُک مُکا ہوتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں