لیہ میں اپنے گائوں جیسل کلاسرا جانا اب خوشی سے زیادہ بوجھ کا سبب بن گیا ہے۔
وہ دن گئے جب انتظار ہوتا تھا کہ اب کی دفعہ گائوں جائیںگے، کچھ آرم، گپ شپ، پرانے دوستوں سے ملاقات، بہن بھائیوں کے ساتھ وقت۔۔۔۔ لیکن اب یہ سب ماضی کا قصہ ہوا۔ اب حالت یہ ہے کہ گائوں جانے سے پہلے اپنی کونسلنگ کرنی پڑتی ہے اور واپسی پر بھی ماہر نفسیات کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ نارمل ہو سکوں۔
گائوں میں نوجوان بچے کی موت ہوئی۔ میرے بیٹے کی عمرکا تھا۔ دل دکھ سے بھرگیا۔ ہمارے بچپن کا دوست جسے سب پیار سے بھٹوکہتے ہیں،کا پندرہ سالہ نوجوان بیٹا حادثے میں فوت ہوگیا۔ اس کی طویل کہانی ہے۔ اپنے گھر میں غربت اور چھوٹے بہن بھائیوںکو دیکھ کر برداشت نہ ہوا۔ سکول میں گرمیوںکی چھٹی ہوئی تو تونسہ چلا گیا جہاں آٹے کی چکی پرکام کیا کہ کچھ روپے گرمیوں کی چھٹیوں میںکما کر گھر کی ضروریات پوری کرے گا اور پھر سکول بھی جائے گا۔ لیکن وہاں جا کر حادثے کا شکار ہوگیا۔ ڈی جی خان میں مناسب علاج نہ ہوسکا۔ سات دن بے ہوش رہا۔ ماں باپ پندرہ سالہ نوجوان بیٹے کی لاش اٹھا کرگائوں لے آئے۔
میں جب بھی گائوں جاتا وہ بھاگ کر آجاتا۔ مجھے ماموں کہتا۔ ماموںکوئی کام ہو تو بتائو۔ میں واپسی پر اس کی جیب میں خرچی ڈال دیتا۔ وہ گھر جا کر ماںکو دے دیتا۔ میرے لیے اس کی ماں اور باپ سے تعزیت کرنا مشکل مرحلہ تھا۔ اس کی ماں مجھے دیکھ کر بہت روئی۔ اس کی بہن اس کا موبائل فون اٹھا لائی جس میں اس نے میرے ٹی وی شوکی تصویریں لی ہوئی تھیں۔کہنے لگی وہ تمہارے شوکے وقت کسی اورکو کچھ نہ دیکھنے دیتا۔ بعض دفعہ باتیں سن کر قہقہے لگاتا۔ اگر اس کا باپ کوئی بات کرتا تو فوراً کہتا کروں ماموں رئوف کو فون۔ اس نے گھرکو مسائل سے نکالنے کے لیے پڑھائی کے ساتھ ساتھ مزدوری کی۔ ابھی اس نے نویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا۔ ماں بتانے لگی کہ اس نے مزدوری کرکے پانچ ہزار روپے بھیجے تھے۔کچھ خرچہ کم ہو رہا تھا تو بولاکوئی بات نہیں، اپنا موبائل بیچ کر تمہیں پیسے دے دوںگا۔ ایک ماںکو روتا دیکھ کر دل دکھ سے بھرگیا۔
گھر لوٹا تو ایک باپ اپنے دس سالہ بیٹے کو اٹھا لایا جس کا ہر ماہ ملتان میں علاج کے لیے جانا ہوتا ہے۔ تیرہ ہزار روپے کی دوائیاں خریدنا ہوتی ہیں۔ چار پانچ کنال کا مالک کسان اب کہاں سے ہر ماہ تیرہ ہزار روپے لائے۔ میں نے کہاکچھ کرتے ہیں۔ دو غریب عورتیں ملنے آئیں۔ پتا چلاوہ سرائیکی ارائیں ہیں۔ زمین پر بیٹھنے لگیں۔ دریا سندھ ان کی زمینیں کھاگیا تھا۔ دربدر ہوکر ہمارے گائوں کے قریب آ بیٹھے ہیں۔ دریاکی وجہ سے کل کے کھاتے پیتے لوگ فقیر ہوگئے ہیں۔ مشکل سے انہیں اٹھا کر صوفے پر بٹھایا۔ وہ ڈری ہوئی تھیں۔ پتا چلا کچھ عرصہ قبل ان کے گھر پر حملہ ہوا تھا۔ ان کے رشتہ دار نے کسی لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ بعد میں صلح ہوگئی لیکن ہمارے گائوں کے لوگوں نے ہی اس کے گھر پر حملہ کیا۔ اس عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ کہانی بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوئوںکی برسات جاری ہوگئی۔ اس غریب عورت اور اس کے شوہر نے مزدوری کرکے ایک ماچھی سے ایک کنال زمین لی تاکہ بچوں کے لیے کمرہ بنا لیں۔ ماچھی آج کل غنڈہ بنا ہوا ہے۔ پچاس ہزار روپے لے کرکھا گیا۔ زمین کا انتقال نہیں ہونے دیا۔ اصرارکیا تو الٹا دھمکیاںدیں۔ غریب لوگ عدالت تک گئے،کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ الٹا گھر میںگھس کر عورتوں پر تشدد کیا گیا۔ مقدمے میں چند سخت دفعات شامل ہوئیں۔ پتا چلا ہے کہ ایس ایچ او تھانہ کوٹ سلطان نے ایک سیاسی فرعون کے کہنے پر وہ دفعات ہٹا دی ہیں۔ ایک مظلوم عورت پر تشدد تھانیدار کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور اگر تھانیدار ہو بھی کھوسہ! مفت میں کون کام کرتا ہے۔ تھانیدارکو دیر نہ لگی، یہ انصاف کیا۔ مجھے یہ سب سن کر دکھ ہوا۔گھر میں گھس کر عورتوںکو مارنا۔۔۔۔کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں رہا۔ ظلم سے بچنے کے لئے پیٹھ پر کسی کا ہاتھ ہونا چاہیے۔کوئی ایم پی اے ساتھ ملا لیں یا کونسلر یا تھانیدار۔ یہ سب ملے ہوئے ہیں۔ ان عورتوں پر ہونے و الے تشدد کی کہانی سن کر مجھے نواز لیگ کے سینیٹر یعقوب
ناصر کا جملہ یاد آ گیا کہ یہ غریب تو پیدا ہی ہوتے ہیں امیروں کی نوکری کے لیے۔ چلیں نوکری کرا لیں، لیکن امیر لوگ ان پر تشدد کیوں کرتے ہیں اور تھانیدارکو ملا کر اپنے خلاف دفعات بھی ہٹو ا دیتے ہیں۔ لیہ کے ڈی پی اوکو علم نہیںکہ اس کے کوٹ سلطان جیسے تھانے کیسے بک رہے ہیں۔کون سا ایس ایچ اوکس ظلم میں شریک ہے۔کیسے ان سیاسی لوگوں نے غریبوں کو غلام بنا لیا ہے۔
لیہ میں جو پہلے ڈی سی او تھا اس کی کرپشن کی داستانیں ضلع بھر میں اب تک زبان زد عام ہیں۔ تخت لاہور جس ڈی سی او کو انعام دینا چاہتا ہے اسے لیہ بھیج دیتا ہے کہ بیٹا جائو مزے کرو۔ جس نے مزے کیے اور محاورے کے مطابق کسی کے گھرکاکتا بھی رشوت میں نہ چھوڑا اسے وہاں سے ہٹا کر انٹی کرپشن میں لگادیا گیاکہ صاحب تم نے لیہ میں کم کرپشن کی تھی اب یہاں زیادہ لوٹو۔ جس ڈی سی اوکو انٹی کرپشن محکمے کوگرفتار کر نا چاہیے تھا وہ اسی محکمے کے ایک ڈویژنل ہیڈکوارٹرکا سربراہ لگا ہوا ہے۔ یہ تماشہ ہے اس ملک میں! پس ماندہ علاقوںکی آواز میڈیا تک نہیں پہنچتی۔ پہنچ بھی جائے توکون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔
میرے گھر میں بیٹھی مسلسل روتی دو غریب عورتوںکوکون سمجھائے کہ ان پر جو تشدد ہوا، یہ کارنامہ انجام دینے والے میرے اپنے ہی گائوں کے بدمعاش ہیں اور انہیں سیاسی لوگوںکی پشت پناہی حاصل ہے۔یہ جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے! تھانے میں ایم پی اے کا نام چلتا ہے ۔گائوںکے دو تین بدمعاش ایم پی اے کے چمچے بن جائیں پھر وہ جو چاہیں کریں۔ تھانیدار ان کا غلام۔ جنہیں خود چھتر لگنے چاہئیں وہ غریب عورتوں کوگھروں میںگھس کر مار رہے ہیں۔ یہ ہے جمہوریت کا حسن اور ڈی پی او لیہ کی کارگردگی۔
دوسری طرف بیروزگاری گمبھیر مسئلہ ہے ۔گائوں میں غریبوں نے بھی اپنے بچے پڑھانے شروع کردیے کہ وہ صاحب بن جائیں گے۔ اب حالت یہ ہوئی کہ انہیںنوکری نہیں ملتی۔ تین برس قبل میں نے گائوںکے دس غریبوںکے بچوںکو ڈیلی ویجز پر نوکری دلوائی تھی۔ ڈھائی سو روپے دیہاڑی ملتی تھی۔ نواز لیگ کے پیر بھائی ایم این اے کو پتا چلا تو اس نے اس افسرکو گالیاں دیں۔ قومی اسمبلی میں اس کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرائی کہ کیسے ان بچوں کو ڈیلی ویجز پر کام ملا۔ وہ سب لڑکے برطرف ہوئے۔ آج کل وہ گائوں کی گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں۔ باپ دادا کا کام وہ نہیں کرسکتے کیونکہ پڑھ لکھ گئے ہیں اور انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ کون لوگوںکی شیوکرے یا برتن بناکر بیچے۔نوکری ملی تو ایم این اے نے نہیں کرنے دی۔ میں جب بھی جائوں وہ سب آجاتے ہیں۔ وہ نہیں تو ان کے ماں باپ یا بہن بھائی منت ترلہ کرنے آجاتے ہیںکہ ان کا کچھ کر دیں۔ وہی ایم این اے جو خوف کے مارے قومی اسمبلی میں بات نہیں کرسکتا لیہ میں دہشت کی علامت بنا ہوا ہے۔ اسلام آباد سے ایم این ایز اپنے علاقوں میں غریبوں کو ڈراتے ہیں۔ ان پر ظلم کرتے ہیں۔ تھانیدار استعمال کر کے ان پر تشدد کراتے ہیں۔ جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر تشدد کرانا معمول ہے۔ ایک غریب عورت نے ساری عمر مانگ تانگ کر بیٹے کو بی اے کرایا۔ اس کو بھی ڈیلی ویجز پرکام لے کر دیا۔ اسے بھی ایم این اے نے نکلوادیا۔ وہ ہر دفعہ آتی ہے،گھرکے دروازے پر چپ چاپ بیٹھی رہتی ہے۔ شاید اس دکھیاری ماں کی دل سے نکلی ہوئی آہ کبھی آسمان تک پہنچ جائے۔
اور سن لیں! تین سال ہوگئے جمن شاہ کے قریب سے ایک بوڑھا بزرگ میرے پاس آیا۔ اس نے اور اس کی بیوی نے اپنے نواسے کو پال پوس کر بڑاکیا۔ اب وہ بی اے کر چکا ہے۔ جب بھی جائوں وہ آتے ہیں۔ اس دفعہ پھر آئے۔ آنے سے پہلے اس لڑکے کی چھوٹی بہن جو تیسری جماعت میں پڑھتی ہے نے کہا اسے ساتھ لے جائیں وہ بات کرے گی۔ وہ اسے پہلے دن ساتھ نہ لائے کہ کیا بات کرے گی؟ دوسرے دن وہ ضدکرکے آئی ۔ سات آٹھ برس کی ہوگئی۔ میرے پاس آئی اور سب کی موجودگی میں بولی آپ کی بھی میری عمر کی بیٹی ہوگی۔ آپ مجھے بیٹی سمجھ کر ہی میرے بھائی کی نوکری کرادیں! میں خاموش نظروں سے اس معصوم بچی کو دیکھتا رہا جو بھائی کی سفارش بن کر آئی تھی۔گائوں کے وہ دس غریب نوجوان یاد آئے جنہیں ڈیلی ویجز پر لگوایا تھا اور وہ سب نواز لیگ کے ایم این اے کا نشانہ بن گئے۔
یہ کہانیاں ہرگائوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مظلوم ہیں تو ظالموں کی بھی کمی نہیں۔ میں تو اب گلہ کرنے کے بھی قابل نہیں رہا۔ اب تو ظالم اور بدمعاش میرے اپنے گائوں میں ہی پیدا ہوگئے ہیں جو غریب عورتوں کے گھرگھس کر تشدد کرتے ہیں، بشکریہ مقامی سیاستدان اور تھانہ کوٹ سلطان ۔
تخت لاہور چن چن کر پولیس افسران اور ڈی سی اوز کو لیہ بھیجتا ہے جو انسانوں کی بجائے ان کے ایم این ایز اور ایم پی ایزکی غلامی کرکے معصوم انسانوں پر تشدد اور زیادیتاں کراتے ہیں۔ ڈی پی اور تھانیداراب سیاسی لوگوںکے ٹائوٹ بن کر نوکری کرتے ہیں۔ بڑے افسران مال بناتے ہیں اور ہر ماہ خرچہ بیوی بچوںکو لاہور بھیجتے ہیں۔ اور تو اور لیہ کا سابق ڈی سی او جو لوٹ مارکے بعد جیل جانے کی بجائے انٹی کرپشن کا ڈویژنل سربراہ لگ گیا۔
لگے رہو منے بھائی کیونکہ آپ ظالموں کو پتا ہے۔۔۔۔ہونا کُجھ وی نئیں۔۔۔!