دہشت گردوں نے ایک دفعہ پھر کوئٹہ میں ظلم ڈھا دیا ہے۔ حسب دستور اس کی مذمت جاری ہے اور جاری رہے گی۔ چند دن اجلاس ہوںگے، سخت کارروائی کرنے کے اعلانات کئے جائیں گے، قوم کو دو تین عالمی سازشیں سنائی جائیں گی اور پھرکاروبار زندگی معمول کے مطابق چلتا رہے گا۔
تحقیقات کے بعدپریس کانفرنسیں کرکے ہمیں وہ راستے سمجھانے کی کوشش کی جائے گی جن کو عبور کرکے دہشت گرد پولیس ٹریننگ سکول تک پہنچے۔ پھر ان کے سہولت کاروں کے بارے میںبتایا جائے گا۔ ایسے لگے گا کہ جب دہشت گرد گھر سے حملہ کرنے نکلے تھے تو ہمارا کیمرہ ان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔لیکن حملہ رک نہ سکا۔
ہماری نااہلیوں کی داستان اتنی طویل ہوگئی ہے کہ اب ہر جگہ آپ کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئٹہ میں جاری ظلم و ستم تو اپنی جگہ، حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب اسلام آباد بھی ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو اس کی تباہی و بربادی کے در پے ہیں۔ ملک کے پالیسی میکرز اور بیوروکریٹس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں!
کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سکول کی چار دیواری تک نہیں تھی۔ باقی اندازہ آپ خود کر لیں۔ اگر ہوتی بھی تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ پشاور آرمی سکول کی تو عمارت بھی تھی، اس پر حملے کی دھمکی بھی آئی ہوئی تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان فرماتے ہیںکہ اس سکول پر حملے کی خبر پہلے سے موجود تھی۔ سو، سب پتا ہوتا ہے۔ ہماری اوقات ہی یہ ہے کہ اس کے باوجود حملے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے بچے مارے جاتے ہیں۔ جب ہم یہ رونا رو رہے ہیں کہ کوئٹہ کے ٹرینگ سکول کی دیوار تک نہ تھی تو اسلام آباد کی حالت بھی سن لیں۔
میجر عامر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ خیریت پوچھنے گیا تو حیرت کا پہاڑ مجھ پر آ گرا۔ ان کے بیٹے عمار نے بتایا کہ چند دن پہلے بابا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ وہ انہیں اسلام آبادکے بڑے ہسپتال پمز لے کرگئے۔ وی آئی پی روم لیا۔ چوبیس گھنٹوں تک کوئی ڈاکٹر چیک اپ کے لئے نہ آیا۔ فریج کھولا تو اس کی بہت بری حالت تھی، واش روم کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب! جو صاحب پمزکے سربراہ ہیں وہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بابا کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی تو ان کی چھوٹی بہن نے والد کے دوست ملک ریاض کو فون کیا کہ انکل بابا کی طبیعت بگڑ گئی ہے اور ہسپتال میں انہیں اٹنڈکرنے والا کوئی نہیں۔ ملک ریاض آئے اور انہیں پرائیویٹ ہسپتال لے گئے، جہاں ان کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں آپ کی زندگی بچ سکتی ہے، سرکاری ہسپتال میں آپ صرف مرنے کا انتظار کریں۔
میجر عامر وضع دار انسان ہیں۔ دوستوں کا گلہ نہیںکرتے۔ نواز شریف سے قریبی تعلق رہا، حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ اگر میجر عامر جیسا نامور اور وسیع تعلقات رکھنے والا انسان بھی سرکاری ہسپتال سے بھاگ جائے اور پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانے پر مجبور ہو تو کیا وزیراعظم کے رحیم یار خان میں غریبوں کا علاج نہ ہونے پر بہائے گئے آنسوئوں کو ہمیں سنجیدہ لینا چاہیے؟ اگر اسلام آباد کے ایک ہسپتال کی یہ حالت ہے کہ چوبیس گھنٹے تک علاج شروع نہ ہوسکا توکیا ایسی حکومت کے سربراہ کو آنسو بہانے کا ڈرامہ کرنا چاہیے؟ خود کو چھینک بھی آ جائے تو اگلے دن لندن تشریف لے جاتے ہیں۔
درست، جوکچھ کوئٹہ میں ہوا اس کے سامنے پمز میں میجر عامرکی کہانی عام سی بات لگے گی۔ لیکن اسے سنانے کا مقصد یہ تھا کہ جن حکمرانوں سے اسلام آباد کا ایک چھوٹا سا ہسپتال نہیں چل پا رہا، وہ ملک کو در پیش بڑے مسائل سے کیسے ہماری جان چھڑائیںگے؟ ہرجگہ اپنا بندہ لگانے کی کوشش ہوگی تو پھر گورننس اور سروس لیول تو نیچے ہی جائے گا!
ہم سب جانتے ہیںکہ شاید پاکستان کے پاس دہشت گردی کے ناسورکا کوئی پائیدار حل موجود نہیں ہے۔ ہم اس خطے میں جاری پراکسی وار کا حصہ ہیں۔ کچھ پراکسی کھیل ہم کھیل رہے ہیں اور کچھ ہمارے دشمن۔ معصوم شہریوںکو مارا جاتا ہے اور الزام دوسرے پر لگا دیا جاتا ہے۔کابل،کوئٹہ، ممبئی۔۔۔۔ ہر جگہ بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ اسّی کی دہائی میں بھی اس طرح کی دہشت گردی ہوئی تھی۔ بازاروں میں اسی طرح بم دھماکے ہوتے تھے۔ اس وقت ہم افغانستان میں روس کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ جی ہاں، وہی روس جس کے فوجی دستے کچھ روز قبل ہمارے ہاں مشترکہ مشقیں کرتے پائے گئے۔ دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہمارے جان جگر تھے اور آج روس پر ہم صدقے واری جا رہے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہماری جان تھے اور ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ اہل کتاب ہیں، ان کی خواتین سے تو شادی جائز ہے جبکہ روسی تو کمیونسٹ ہیں، خدا تک کو نہیں مانتے۔ آج ہمیں بتایا جا رہا ہے، اسلامی فرمودات کے مطابق یہود و ہنود تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یوں آج ہم نے کیمونسٹوں سے دوستی کر لی ہے۔
ہمارے ملک کے اصل حکمرانوں کے پاس جنرل ضیاء دور میں روس کے خلاف لڑنے کی ہزاروں دلیلیں تھیں۔ آج اسی روس کے ساتھ دوستی کی بھی وجوہات ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا روس گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان کے بعد پاکستان پر قبضہ کرے گا۔ روس نے تو آج تک بھول کر بھی گرم پانیوںکا ذکر نہیں کیا؛ تاہم پتا چلا کہ ہم تو افغانستان میں روسیوں کوگرم پانی تک نہ پہنچنے دینے کے لئے لڑتے رہے جبکہ گرم پانی پر نظریں تو چین کی تھیں۔ اب چین گوادرکے ذریعے بیرونی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔ ہمیں کبھی کسی نے بتانے کی کوشش نہیں کی کہ ہم کیوں اورکب دشمن اور دوست بناتے ہیں۔
افغانستان کو ہی لے لیں۔ چار سابق پاکستانی سفارتکاروں نے پچھلے دنوں ایک انگریزی اخبار میں اہم مضمون لکھا تھا۔ یہ چاروں عام لوگ نہیں۔ پوری دنیا دیکھی ہوئی ہے۔ اچھا برا سب سمجھتے ہیں۔ یہ سفارت کار بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں ہمارے بارے میں مشہور ہوگیا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ غلط یا درست لیکن ہمار امیج یہی بن گیا ہے۔ مثلًا افغانستان ہمارے بارے میں کہتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ بھارت کہتا ہے ہم مسعود اظہرگروپ کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ ہم یہی الزامات افغانستان اور بھارت پر لگاتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں حملے کراتے ہیں۔
ان سفارتکا روں نے ایک اہم سوال اٹھایا: ہم ہر بار افغانستان میں طالبان کے ساتھ کیوں کھڑے ہوتے ہیں جو وہاں بربادی، قتل و غارت اور پس ماندہ قوتوں کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں؟ ہم افغانستان کے پڑھے لکھے، روشن خیال اور سمجھدار طبقات کے ساتھ کیوں تعلقات نہیں رکھتے؟ طالبان کو افغانستان میں پروموٹ کر کے ہم نے کیا نتائج حاصل کیے؟ پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ تیس برس سے زیادہ عرصے سے ہم افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں، اس کے بدلے میں افغانستان اور بھارت نے پاکستان میں تحریک طالبان کو ایکٹوکرکے ہمارے ساٹھ ہزار افراد قتل کرا دیے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ افغانستان میں باون ملکوں کی افواج پر مشتمل عالمی فورس موجود ہے۔ ہم پوری دنیا سے ٹکر لے رہے ہیں۔ اب پوری دنیا دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے۔ ہمیں دنیا میں بھارت نے تنہا نہیں کیا بلکہ ہم نے خود اپنے آپ کو تنہا کیا ہے۔ ہمیں طالبان کو راضی کرنا چاہیے کہ وہ بھی کابل کے ساتھ تعلقات درست کریں۔ گلبدین حکمت یار کی طرح پاور میں شیئر لیں اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کی نگرانی کریں۔ طالبان کابل حکومت میں بیٹھ کر ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں، پہاڑوں پر رہتے ہوئے کابل کی مارکیٹوں پر حملہ آور ہوکر بے گناہ افغانوںکو قتل کر کے نہیں۔ پاکستان کو بہر صورت افغانستان میں امن کرانے کے لیے آخری حد تک جانا ہوگا۔ میرے خیال میں اس وقت افغانستان میں امن قائم کرنا افغانوں سے زیادہ پاکستان کے لیے ضروری ہے۔اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔بڑھکیں بہت مار لیں اور اس کے نتائج بھی بھگت لیے۔
چکوال کے ٹاپ آسٹرولوجسٹ پروفیسر غنی جاوید مجھے بڑے عرصے سے خبردار کر رہے ہیںکہ تم کالموں میں لکھو اور بار بار لکھو کہ پاکستان سمجھداری سے کام لے۔ پاکستان کے حالات 1971ء سے بھی زیادہ خراب ہونے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت دنیا کو دوست بنانے اور بچا کچھا پاکستان بچانے کی ضرورت ہے۔ میں انہیںکہتا ہوں پروفیسر صاحب! ہمارے عقلمندوں کو ان مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔وہ 1971ء میں بھی سمجھدارکہلاتے تھے اور اب بھی ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔ آپ لاکھ انہیں ستاروں کی چالیں سمجھاتے رہیں، انہیں آسمان پر ہونے والی تبدیلیوں سے خبردار کرتے رہیں، انہوں نے پھر بھی کرنی وہی ہے! یہ واحد قوم ہے جس نے ماضی سے سیکھنے سے انکار کیا ہوا ہے۔ جس روس کے ساتھ جنگیں لڑیں، ہزاروں بچے مروائے آج اس کے ساتھ فوجی مشقیں اور جس امریکہ کے لیے اپنے بچے مروائے آج اسے دشمن بنایا ہوا ہے۔ ان کو عقل کی نہیں ڈالروں کی ضرورت ہے۔جہاں سے ملیں، جیسے ملیں۔ پراکسی جنگوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والے ہمارے نوجوان بچوںکی ماتم کرتی مائوںکا کیا ہے، وہ اور پیدا کر لیں گی۔۔۔۔!