"RKC" (space) message & send to 7575

تین لیڈرز، تین انقلاب، تین کہانیاں ۔۔۔۔ (4)

زرداری کو احساس ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ وہی دھوکا ہوا ہے جس کا خدشہ بینظیر بھٹو نے ظاہر کیا تھا۔ بینظیر بھٹو حیران تھیں کہ آخر جنرل مشرف اپنے یس باس ٹائپ وزیر اعظم جمالی اور وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو ہٹا کر اقتدار کیونکر پیپلز پارٹی کو پلیٹ میں رکھ کر دیںگے؟ جنرل مشرف کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ملک سے باہر تھے، لیکن زرداری نے بینظیر بھٹو کو طعنے دے دے کر ہلکان کر رکھا تھا کہ آپ کوکیا پتا؟ اپنے تئیں زرداری نے جنرل مشرف کے قریبی آرمی افسران کو شیشے میں اتار لیا تھا۔ انٹیلی جنس کے نچلے لیول کے چند افسران سے جیل اور پمز ہسپتال میں ہونے والی ملاقاتوں میں زرداری کو پوری طرح بیوقوف بنایا گیا تھا۔ اس پلان کا مقصد یہ تھا کہ نواز شریف کے بعد اب پیپلز پارٹی کے غبارے سے ہوا نکالی جائے‘ جو ان (زرداری) کے جیل میں بیٹھنے کی وجہ سے بھر چکی تھی اور ان کا خیال تھا کہ جب چاہیں عوام کے ذریعے انقلاب لا کر سب کی چھٹی کرا سکتے ہیں۔ 
زرداری کو پتا نہیں تھا کہ اب انہیں مزید جیل میں رکھنا جنرل مشرف کے لیے فائدہ مند نہیں تھا۔ جنرل مشرف پر الزام لگ رہا تھا کہ وہ اپنے مخالفوںکو جیل میں رکھ کر انہیں بلیک میل کر رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو بھی عالمی سطح پر زرداری کے نام پر ہمدردیاں سمیٹ رہی تھیں۔ جنرل مشرف کو بتایا گیا کہ اگر وہ نواز شریف کو 2000 ء میں جدہ نہ جانے دیتے تو شاید وہ آسانی سے حکومت نہ کر پاتے۔ نواز شریف اگر جیل میں بیٹھا رہتا تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا تھا کیونکہ نواز لیگ کے لوگوں کو توڑنا مشکل ہو رہا تھا۔ اسی سوچ کے تحت زرداری کو نہ صرف جیل سے رہا کیا گیا بلکہ ایسا بیوقوف بنایا گیا کہ وہ تین برس بعد اس وقت پاکستان لَوٹے جب بے نظیر بھٹو کی میت لاڑکانہ لے جانے کی تیاری ہو رہی تھی۔
اس سے پہلے جب نواز شریف اٹک قلعے میں تھے، اس وقت یہ پلان بنایا گیا کہ وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ الائنس بنا کر جنرل مشرف پر دبائو بڑھائیں۔ اس کام کے لیے نواز شریف کی نظر انتخاب نوابزادہ نصراللہ خان پر پڑی کہ وہ سب سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر جنرل مشرف کے خلاف ایک گرینڈ الائنس بنوائیں۔ اس نئے سیاسی الائنس کی بینادیں رکھنے کے لیے نواز لیگ کے ظفرعلی شاہ نے دبئی کا ایک خفیہ دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات بینظیر بھٹو سے ہوئی۔
بینظیر بھٹو، نواز شریف کے ساتھ الائنس بنانے کو تیار نہیں تھیں کیونکہ ان کے پاکستان چھوڑنے کی وجہ نواز شریف ہی تھے اور سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب سیل کے ذریعے سوئس بنکوں میں موجود چھ ارب روپے کے حوالے سے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ بعد میں لاہور ہائیکورٹ کے جج ملک قیوم کے ذریعے زرداری اور بینظیر بھٹو کو سزائیں بھی دلوائی گئی تھیں۔ بینظیر بھٹو بھلا اس ( نواز شریف) پرکیسے اعتبار کر سکتی تھیں۔
اگرچہ نواز شریف چلے گئے اور جنرل مشرف حکومت کر رہے تھے لیکن بینظیر بھٹو سوئس مقدمات بھگت رہی تھیں اور ان کی عالمی سطح پر بدنامی ہو رہی تھی۔ بینظیر بھٹوکو جنرل مشرف بہتر لگتا تھا جنہوں نے نواز شریف سے ان کی جان چھڑائی تھی؛ تاہم بینظیر بھٹو، جنرل مشرف سے کوئی بڑا فائدہ لینے میں ناکام رہیں، اس لیے کہ نواز شریف کے بنائے ہوئے مقدمات میں زرداری جیل میں تھے اور جنرل مشرف بھی سوئس عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں دلچسپی لے رہے تھے۔ بینظیر بھٹو کی پیشکش کے باوجود جنرل مشرف بینظیر بھٹو سے بات چیت کے لیے تیار نہ تھے، اس لیے بینظیر بھٹو کو لگ رہا تھا کہ جنرل مشرف اب طویل عرصے کے لیے اقتدار پر قابض رہیںگے۔
اب انہیں کیا کرنا چاہیے تھا؟ جنرل مشرف کی طرف سے کسی پیشکش کا انتظار کریں یا نواز شریف کے ساتھ الائنس بنا کر جنرل مشرف پر دبائو بڑھائیں اور اس کے عوض جنرل مشرف سے کچھ فوائد لیں۔ ان فوائد میں سب سے بڑا فائدہ زرداری کی رہائی اور سوئس عدالتوں میں چلنے والے مقدمات تھے۔ بینظیر بھٹوکو اصل خطرہ سوئس مقدمات سے تھا جہاں کوئی دبائو یا سفارش کام نہیں آسکتی تھی۔ ایک طرف نواز شریف تھے جنہوں نے سوئس مقدمات میں اپنی حکومت کو پارٹی بنا کر زرداری کے ان بینکوں میں پڑے چھ ارب روپے واپس مانگ لیے تھے اور بینظیر بھٹو کو پاکستان چھوڑنا پڑگیا تھا کیونکہ انہیں پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ اگر وہ ملک سے باہر نہ گئیں تو انہیں بھی ان مقدمات میں گرفتار کر لیا جائے گا۔ لہٰذا گرفتاری سے قبل ہی بینظیر بھٹو پاکستان سے چلی گئیں۔ شاید نواز شریف بھی یہی چاہتے تھے کہ بینظیر بھٹو ملک سے چلی جائیں کیونکہ ان کی گرفتاری سے ان کے لیے بھی بھاری مسائل پیدا ہوسکتے تھے، خصوصاً سندھ میں۔ ایک طرف خاتون سیاستدان کو جیل میں رکھنے پر شدید ردعمل ہو سکتا تھا، دوسرے سندھ میں پیپلز پارٹی یہ نعرہ بلند کرسکتی تھی کہ پہلے پنجابی جنرل ضیاء نے بھٹوکو پھانسی دی اوراب اس کی بیٹی کو ایک اور پنجابی وزیراعظم نواز شریف نے جیل میں بند کر دیا ہے۔ نواز شریف اتنا بھاری پتھر اٹھانے کے لیے تیار نہ تھے؛ اگرچہ وہ اس بات پر دکھی تھے کہ ان کے والد میاں شریف کو بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ایف آئی اے کے ذریعے لاہورکے دفتر سے اٹھوا لیا تھا۔ چنانچہ معاملہ زرداری کو جیل میں رکھنے تک ہی محدود رہا کہ زرداری کو سندھ میں بینظیر جتنی مقبولیت بھی حاصل نہ تھی۔ تاہم بینظیر بھٹو کو جھکانے کے لیے حالات پیدا کر دیے گئے۔ جب انہیں یہ پیغام ملا کہ بہتر ہوگا وہ ملک سے چلی جائیں ورنہ گرفتار ہوجائیں گی تو وہ بچوں سمیت اگلی پرواز سے دبئی روانہ ہوگئیں۔
بینظیر بھٹو کو علم تھا کہ انہیں جھکانے کے لیے زرداری کو ہر حکومت استعمال کرے گی کیونکہ موصوف نے دوران حکومت خاصا مال بنالیا تھا۔ بدقسمتی تو یہ تھی زرداری نے بینظیر بھٹوکو بھی قائل کر لیا تھا کہ اگر نواز شریف کا سیاست میں مقابلہ کرنا ہے تو پھر انہیں نواز شریف جتنی دولت بھی کمانا ہوگی۔ بالآخر بھٹو کی بیٹی حاکم علی زرداری کے برخوردارکی اس نئی سیاسی فلاسفی کی قائل ہوگئیںکہ دولت کے بغیر سیاست نہیں ہوسکتی۔ جو زیادہ مال بنا سکتا ہے وہی پاکستان پر حکومت کر سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے تمام نظریات اور آدرش غائب ہوگئے۔ دولت کمانا ہی اب نیا سیاسی اسلوب اور فلسفہ تھا۔ لیکن وہ سب یہ بھول گئے کہ حرام کی دولت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اپنے ساتھ ہزاروں مسائل لاتی ہے۔ اگر زرداری اور بینظیر بھٹو نے سوئس بنکوں میں چھ ارب روپے رکھے تھے تو اب وہ اس رقم پر عیاشی کرنے کی بجائے جیلوں میں تھے یا پھر بینظیر بھٹو ہر ہفتے اپنے تین چھوٹے بچوں کو کراچی جیل میں ان کے والد سے ملانے جارہی ہوتی تھیں۔ ان کی ایک تصویر تو آج بھی حساس دلوں کو چھو جاتی ہے کہ وہ جیل کے باہر تھک ہارکر اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی زرداری کے ساتھ ملاقات کا انتظار کر رہی ہیں۔ 
وقت نے کیا ستم کیا تھا کہ اب وہی نواز شریف لانڈھی جیل کراچی میں بیٹھ کر بینظیر بھٹو سے الائنس بنانے کی درخواستیں کر رہے تھے تاکہ ان کی جنرل مشرف سے جان بخشی ہو سکے۔۔۔۔ وہی بینظیر بھٹو جسے انہوں نے جسٹس ملک قیوم کے ذریعے سزا دلوائی تھی۔ 
دو برس بعد ظفر علی شاہ یہ تجویز لے کر بینظیر بھٹو کے پاس دوبئی میں موجود تھے کہ انہیں نواز شریف کے ساتھ الائنس بنانا چاہیے، وہ دونوں مل کر جنرل مشرف کے خلاف جدوجہد کریں اور جمہوریت واپس لائیں۔ بینظیر بھٹو حیران تھیں کہ وہ نواز شریف سے کیسے اتحادکر لیں۔ سوال یہ تھا کہ اگر بینظیر بھٹو نواز شریف سے الائنس بنا بھی لیتی ہیں تو انہیں کیا ملے گا؟ نواز شریف اب ان کی طرح سابق وزیراعظم ہو چکے تھے اور جیل میں تھے، وہ بھلا بینظیر بھٹو کا کیا بھلا کر سکتے تھے؟ ہاں بینظیر بھٹو یقیناً نواز شریف کا بھلا کرسکتی تھیں، اس لیے الائنس کا پیغام بھیجا گیا۔ 
بینظیر بھٹو ایک دفعہ پھر اسی صورت حال کا سامنا کر رہی تھیں جو انہوں نے 1993ء میں اس وقت کیا تھا جب وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان میں لڑائی ہوگئی تھی۔ دونوں نے بینظیر بھٹوکا تعاون حاصل کرنے کے لیے رابطے کیے تھے۔ بینظیر بھٹوکے پاس ٹرمپ کارڈ تھا کہ وہ اسحاق خان کا ساتھ دیں اور وہ نواز شریف کی حکومت برطرف کردیں یا پھر وہ جمہوریت بچانے کے نام پر نواز شریف کا ساتھ دیں۔ ان کی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ ایک گروپ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا ساتھ دیں کیونکہ یہ جمہوریت کاتقاضا ہے جبکہ دوسرے گروپ کا خیال تھا کہ اگر نواز شریف کی حکومت برطرف ہوگی تو بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگی۔ بینظیر بھٹو نے جمہوری تقاضوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسحاق خان سے ہاتھ ملا کر نواز شریف کی حکومت برطرف کرادی اور بعد میں وہ وزیراعظم بن گئیں۔
اب بدلتے حالات میں دوبئی میں بینظیر بھٹو کشمکش کا شکار ہوگئیں کہ کس کا ساتھ دیں؟ ادھر نواز شریف بھی چال رہے تھے۔ ایک طرف بینظیر بھٹوکو الائنس کا پیغام بھیجا اور دوسری طرف سعودی اور قطری حکمرانوں کے ذریعے جنرل مشرف سے ڈیل کرنے کے لیے خفیہ مذاکرات بھی کر رہے تھے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بینظیر کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے نواز شریف سے الائنس کر لیا تو وہ جنرل مشرف سے بہتر ڈیل لے سکتی تھیں۔ زرداری رہا اور سوئس مقدمات ختم ہوسکتے تھے جبکہ نواز شریف کا خیال تھا اگر بینظیر بھٹو نے ان سے الائنس کر لیا تو وہ جنرل مشرف سے ڈیل کر کے رہا ہوسکیںگے۔ اب سوال یہ تھا کہ اس بار اپنے مفادات کے لیے پہلے کون کس کو استعمال کرے ۔۔۔۔ بینظیر بھٹو یا نواز شریف۔
بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کو استعمال کر کے جنرل مشرف سے فائدے لینے کا سوچ رہے تھے جبکہ جنرل مشرف، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے سیاسی الائنس کے نام پر ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی خفیہ تیاریوں کو انجوائے کر رہے تھے۔ جنرل مشرف نے ایک سابق وزیراعظم کو ایسی ڈیل دینی تھی جس سے اسے خود فائدہ ہو۔ 
اب دیکھنا یہ تھا کہ پہلے کون کس کو استعمال کر کے جنرل مشرف کو ڈیل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ دوبئی میں بیٹھی بینظیر بھٹو یا اٹک قلعے میں قید نواز شریف؟ْ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں