قومی اسمبلی میں جتنی شدت کے ساتھ نعرے نواز شریف کے خلاف چالیس منٹ تک تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی نے لگائے، اس پر عامر متین کا خیال ہے اس کے مقابلے میں دس فیصد بھی ایوب خان کے خلاف نہیں لگے تھے پھر بھی وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے تھے۔ اسی قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ پچھلے تین برسوں میں فارن آفس کے دنیا بھر میں پھیلے بابوں 26ارب روپے خرچ کیے۔ ڈیڑھ ارب روپے سے ان بابوں کے بیرون ملک پڑھنے والے بچوں کی فیس ادا کی گئی۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی انکشاف ہوا کہ اب تک لندن، میڈرڈ، پیرس، نیویارک، واشنگٹن، لاس اینجلس، سویڈن، سٹاک ہوم میں دفتر خارجہ کے کئی پاکستانی ملازمین تین سال پورے ہونے پر پاکستان لوٹنے کی بجائے وہیں غائب ہوگئے۔ ان کے علاوہ جو بڑے بڑے معزز سفیر بیرون ملک شادیاں رچا کر وہیں سیٹل ہوجاتے ہیں، بچوں کی پڑھائی کے نام پر توسیع لیتے رہتے ہیں وہ فہرست ابھی خفیہ رکھی گئی ہے۔ جو ایک دفعہ اس ملک سے فارن آفس کے ذریعے پوسٹنگ لے کر باہر نکل گیا وہ واپس نہیں آنا چاہتا۔۔سفیروں کا بڑا ہاتھ لگتا ہے جب کہ نچلی سطح کے ملازمین چپکے سے اس وقت دائو لگاتے ہیں جب پاکستان لوٹنے کا وقت آتا ہے۔
ویسے سوچتا ہوں کیا سارا قصور ان نچلی سطح کے فارن آفس کے ملازمین کا ہے جنہیں اب مفرور قرار دے دیا گیا ہے؟ طارق فاطمی کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے بچے امریکی شہری ہیں؟اُنہیں یہ شہریت بھی اس وقت ملی جب وہ فارن آفس میں ملازمت کرتے تھے ۔ نواز شریف کی اتنی قصیدہ گوئی کی کہ سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ طارق فاطمی فارن آفس کے ان ملازمین پر کیسے اعتراض کر سکتے ہیں جنہوں نے بیرون ملک سفارت خانے چھوڑ کر وہیں شہریت لے لی‘ جب کہ ان کے اپنے بچوں نے امریکی شہریت لے رکھی ہے؟
ہمارے دوست چوہدری نثار علی خان کے بچے بھی امریکی شہری ہیں۔ رحمن ملک کے بچے برطانوی شہری ہیں‘ واجد شمس الحسن برطانوی شہری تھے ۔ان کے ذمے لگا کہ وہ پاکستان کے ہائی کمشنر لگ کر ہمارے مقاصد کا خیال رکھیں۔کمال کا جاب ان کے ذمے لگا۔ کینیڈا میں ہمارے سفیر عظیم طارق برطانیہ کے شہری تھے۔ جنرل مشرف کی ناک کا بال ‘ نواز شریف ان کے بغیر اداس رہنا شروع ہوگئے تھے۔شاید ان جیسے کسی ذہین انسان نے ہی پیپلز پارٹی کو مشورہ دیا ہوگا کہ عاصم حسین کو کینیڈا کی حکومت سے خط لکھوائیں کہ ہمارے لوٹ مار میں گرفتار شہری کو انسانی بنیادوں پر رہا کردیں۔ جب عاصم حسین لوٹ مار میں مصروف تھے تو اس وقت نہ کینیڈاکو خیال آیا نہ اس کے شہری کو کہ وہ کہتے کہ کچھ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ہی پاکستان پر رحم کریں جو قرضوں تلے دب گیا ہے۔ پاکستان ایک چرا گاہ ہے؟پہلے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرو اورپھر پاکستان لوٹ کر ان جانوروں پر حکمرانی کرو؟
خورشید شاہ کی سن لیں‘فرماتے ہیں بینظیر بھٹو کے نواز شریف پر کتنے احسانات تھے اور آج دیکھیں ان کے بیٹے بلاول کے خلاف سعد رفیق اور رانا تنویر نے کیا زبان استعمال کی ہے۔ رانا تنویر نے کہا کہ بلاول کو حرام کی دولت کی گھٹی دی گئی تھی‘ سعد رفیق حرام کی چُوری تک محدود رہے۔خورشید شاہ دیر تک بینظیر بھٹو کے نواز شریف پر احسانات کی کہانیاں سناتے رہے اور میں حیران ہوتا رہا کہ انسان وزیراعظم کس لیے بننا چاہتا ہے اگر عزت بھی نہ رہے؟ کیا فائدہ اس ملک کے سربراہ ہونے کا اگر عدالت میں آپ کے بیٹوں اور بیٹی کے نام پکارے جائیں ؟ کیا فائدہ لندن سرے محل یا دوبئی میں قلعوں کا اگر آپ کے بچوں کو حرام کی گھٹی کے طعنے دیے جائیں؟ خورشید شاہ سیاست کے دل میں سینے کی تلاش میں تھے تو یاد آیا کہ اگر سیاست کے سینے میں دل ہوتا تو اعتزاز احسن کچھ بھی تنقید کرتے، نواز شریف، چوہدری نثار علی خان، مشاہد اللہ اور سعد رفیق کے ہاتھوں ان کی پوری قوم کے سامنے تذلیل نہ کراتے۔ یہ اعتزاز احسن ہی تھے جنہوں نے نواز شریف کے مقدمے جنرل مشرف دور میں اس وقت لڑے جب ان کا نام کوئی سننے کو تیار نہ تھا۔ اعتزاز احسن کو جو صلہ ملا وہ ہم سب نے دیکھا ہے۔ سعد رفیق نے ایک دن سینیٹ میں اپنے تئیں اعتزاز احسن کی کلاس لی کہ وہ قبضہ گروپوں اور کرپٹ لوگوں کی وکالت کرتے ہیں۔ میں بیٹھا سن رہا تھا ‘ مسکرا پڑا کہ اب سعد رفیق کو کون یاد دلائے کبھی یہی اعتزاز احسن نواز شریف اور ان کے خاندان کے وکیل بھی تھے۔
خیر اعتزاز احسن بھی اب عمر کے اس حصے میں سینیٹ کی ایک سیٹ کے لیے جس طرح کے کمپرومائز کررہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ڈاکٹر عاصم حسین کو سیاسی قیدی قرار دینے پر دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ، اسے دیکھ کر یقین آتا ہے جہاں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ، وہاں شاید انا بھی نہیں ہوتی ۔خورشید شاہ کی باتیں سن کر یاد آیا اگر لندن میں بینظیر بھٹو جنرل مشرف سے این آر او کی ڈیل نہ کرتیں تو نواز شریف 2012ء تک جدہ بیٹھے رہتے۔ بینظیر بھٹو کی وجہ سے ہی نواز شریف کو واپسی کا راستہ ملا تھا۔ نواز شریف سعودی عرب کے سہارے لوٹ رہے تھے لہٰذا بچ گئے جب کہ امریکی گاڑی پر سوار بینظیر بھٹو ماری گئیں۔
نواز شریف اپنے محسنوں کو یاد کرنے کے حوالے سے اچھا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ سابق سینیٹر طارق چوہدری کہانی سناتے ہیں کہ ایک دن ان سے مشورہ ہورہا تھا کہ گورنر پنجاب جیلانی سے کیسے جان چھڑائی جائے...؟ جی ہاں اگر طارق چوہدری کسی دن پوری کہانی لکھ دیں تو کم از کم اعتزاز احسن کا دکھ کم ہو جائے گا۔ یا پھر زیادہ تفصیل میں جانا ہے تو عابدہ حسین کی کتاب میں لکھایہ واقعہ پڑھ لیں کہ انہیں1996ء میں چوہدری نثار علی خان مری لے کر گئے ‘ جہاں ابا جی ان سے ملاقات کے ایسی بے چینی سے منتظر تھے کہ جب گاڑی پہنچی تو پہلے سے پورے خاندان کے ساتھ پورچ میں کھڑے تھے عابدہ حسین حیران بھلا ‘انہیں کون سے آسمان سے تارے توڑ کر لانے ہوں گے کہ اتنا پروٹوکول مل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد پتہ چل گیا کہ جھنگ کے کرنل عابد حسین اور فاروق لغاری کے والد پرانے دوست تھے۔ عابدہ حسین اگر فاروق لغاری اور نواز شریف کی صلح اور ملاقات کرادیں تو شریف خاندان ساری عمراحسان نہ بھولے گا۔ عابدہ حسین بھی خوشی کے مارے پھولے نہ سمائی کہ ان کے ذمے ٹام کروز کی طرح مشن امپاسبل لگایا گیا تھا جسے وہ پورا کرسکتی تھیں۔ اگرچہ بیگم فاروق لغاری نے عابدہ کو منع کیا کہ ان کے خاوند سے یہ کام نہ کرائیں۔بینظیر بھٹو نے انہیں صدر بنوایا تھا‘عابدہ اور فاروق بھلا کب سننے والے تھے۔ بی بی کی اسمبلیاں اور حکومت توڑی گئی۔ اسی بلوچ فاروق بھائی نے اپنی بہن کو کئی دن تک وزیراعظم ہائوس میں قید رکھا‘عابدہ حسین خوش کہ انہوں نے ابا جی کی درخواست کی لاج رکھ لی تھی۔
عابدہ لکھتی ہیں کہ1997ء کے الیکشن کے بعد جب نواز شریف دو تہائی اکثریت سے جیت گئے تو وہ فخر امام کے ساتھ لاہور میں انہیں مبارک باد دینے گئیں۔ نواز شریف اپنی نئی کابینہ کے نام فائنل کررہے تھے‘عابدہ نے کہا اگر وہ مناسب سمجھیں تو فاروق لغاری جو اس وقت صدر پاکستان تھے سے بھی مشورہ کر لیں۔عابدہ لکھتی ہیں کہ فاروق لغاری کا نام سن کر نواز شریف کے چہرے پر شدید ناپسندیدگی کے تاثرات نے اُنہیں حیران کر دیا کہ تین ماہ پہلے پورا شریف خاندان کہہ رہا تھا کہ وہ فاروق لغاری کے ساری عمر احسان مند رہیں گے۔ یہ اوربات ہے کہ جس بلوچ فاروق لغاری کو نواز شریف نے تضحیک کا نشانہ بنا کر چلتا کیا، اس کی کرپشن پر احتجاج کے لیے چوٹی زیریں میں زرعی فارم تک مارچ کیا تھا ، آج اس بلوچ سردار کے بیٹے اویس لغاری اور جمال خان نواز شریف اور شہباز شریف کے حق میں ایسی ایسی تقریریں کرتے ہیں کہ سننے والے شرمندہ ہوجاتے ہیں۔ اپنے اپنے علاقے میں سرداری قائم کرنے کے لیے کیسے کیسے عزت دار بلوچ سردار بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔خورشید شاہ بینظیر بھٹو کے احسانات گنوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور میں حیران ہورہا تھا ‘بھلا سیاست کے سینے میں دل کب تھا جسے وہ اب ڈھونڈ رہے تھے۔ بینظیر بھٹو نے تواپنی ماں نصرت بھٹو کو ہی پارٹی قیادت سے چلتا کردیا تھاکہ اس خاتون کے اندر ماں نہ جاگ جائے اور وہ مرتضی بھٹو کو ہی پارٹی کا سربراہ نہ بنا دیں، تو آج نواز شریف سے بھلا گلہ کس بات کا۔؟
جب سیاست میں سے عزت اور انا رخصت ہوچکی ہو،عدالتوں میں آپ کے بچوں کے نام پکارے جارہے ہوں یا پھر حرام کی گھٹی کے طعنے مل رہے ہوں اور پھر بھی زرداری نواز بھائی بھائی کے نعرے لگ رہے ہوں، تو پھر یہ رونا دھونا کس بات کا۔۔؟حلال کی دولت اور عزت کمانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔۔جتنی محنت سرے محل اور لندن فلیٹس خریدنے پر کی گئی اگر اس کے مقابلے میں تھوڑی سی محنت عزت کمانے پر لگائی ہوتی تو شاید آج قومی اسمبلی میں یہ نعرے نہ سن رہے ہوتے کہ ''گلی گلی میں شور ہے.............‘‘!!