کون سا دن گزرتا ہے جب کوئی بری خبر ہمارے بارے میں عالمی میڈیا میں نہیں چھپتی ۔ دنیا میں کہیں کوئی واقعہ ہوجائے ہم سب سجدے میں گر جاتے ہیں کہ ذمے دار کا تعلق پاکستان سے نہ نکل آئے۔ سب کی جان سولی پر لٹکی رہتی ہے‘ چاہے وہ واردات امریکہ میں ہو یا یورپ کے کسی ملک میں ۔ اس کی وجہ ہمارا اپنا کردار بھی رہا ہے جب ہم نے انہی یورپین کے کہنے پر جہادی تیار کیے اور پھر جب امریکہ کا مقصد پورا ہوگیا تو ہم نے انہیں ریکروٹ کر کے دنیا بھر کو فتح کرنے کا پلان بنایا ۔ دنیا کیا فتح ہوتی اب اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
یہ اس لیے یاد آیا کہ اب امریکی محکمے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے پاکستان کا منی ایکسچینج گروپ کالیا خانانی بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔ اس گروپ کی حرکتوں پر جو رپورٹ دی ہے وہ ہوسکتا ہے ان کے لیے نئی ہو اور پاکستان جہاں روزانہ ایک نیا سکینڈل آتا ہے وہاں اسے سب بھول بھی چکے ہوں گے۔ اس سکینڈل کو ہمارے تحقیقاتی رپورٹر دوست عبدالستار خان نے بڑے عرصے تک رپورٹ کیا تھا ۔
یہ دسمبر دو ہزار آٹھ کی بات تھی جب کالیا خانانی کا یہ سکینڈل سامنے آیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آئے نوماہ ہوچکے تھے۔ اس وقت کے وزیرداخلہ رحمن ملک نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی جس میں موصوف نے انکشاف فرمایا کہ منی لانڈرنگ کا بڑاگینگ پکڑا گیا ہے جو پاکستان سے ہنڈی کے ذریعے پیسہ باہر بھیج رہا تھا۔ رحمن ملک نے دعوی کیا کہ 104 ارب روپے یا ایک ارب ڈالر کے برابر رقم پاکستان سے باہر ہنڈی کے ذریعے بھیجی گئی تھی ۔ ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کا مطلب تھا
کہ یہ زیادہ تر لوگوں کی حرام کی کمائی تھی جس میں رشوت، بھتہ سے لے کر کرائے کے قاتلوں تک کے پیسے ہوسکتے تھے۔ رحمن ملک نے جو بڑھکوں کے لیے مشہور ہیں ‘ فرمایا تھا اس سکینڈل میں بڑے بڑے لوگوں کے نام آرہے ہیں جن میں سیاستدانوں سے لے کر بیوروکریٹس شامل ہیں اور سب کے نام وقت آنے پر بتائیں گے۔ ایف آئی اے نے چھاپے مار کر لاہور کراچی اور اسلام آباد اور دیگر شہروں میں کالیا کے دفاتر بند کر دیے تھے۔ ان چھاپوں میں سترہ کمپیوٹر ایف آئی اے نے اپنی تحویل میں لیے تھے جن میں سے اس وقت تک ایف آئی اے نے صرف تین کو ڈی کوڈ کیا تھا جن سے پتہ چلا تھا کہ صرف ایک سال دو ہزار پانچ اور چھ میں کالیا نے 5 لاکھ سے زائد دفعہ رقومات کراچی سے باہر بھجوائیں جب کہ دو ہزار آٹھ میں 34 ملین ڈالرز اور چھ لاکھ سے زائد پونڈز اور بیس لاکھ ین باہر بھجوائے گئے۔ رحمن ملک کے بقول ملک سے چار کروڑ پچاس لاکھ ڈالرز غیرقانونی طور پر بھجوائے گئے جب کہ کل رقم کا تخمینہ ایک سو ارب سے زیادہ تھا ۔ رستم علی خان، طارق محمود، جاوید خانانی، مناف کالیا گرفتار کر لیے گئے تھے۔
رحمن ملک نے اس وقت کی ایف آئی اے ٹیم کو پورا کریڈٹ دیا تھا ۔ ایف آئی اے کے ایماندار افسران یہ سمجھ کر کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ جن لوگوں نے ملک کو دھوکا دیا تھا ان کے ساتھ رعایت نہیں ہوگی ۔ پھر ایک دن پتہ چلا سب مقدمات ختم، ملزمان کی ضمانتیں اور معاملہ ٹھپ ۔پھر کسی نے مڑ کر نہیں پوچھاکالیا کا کیا بنا، رحمن ملک نے وہ نام بتانے تھے کہ کون سے سیاستدان اور بیوروکریٹس ملک سے پیسہ لوٹ کر کالیا کے ذریعے باہر لے گئے تھے‘ سب بھول گئے۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی مہربانی سے یہ سکینڈل دب گیا یا دبا دیا گیا لیکن اس دوران امریکہ کالیا گروپ کے پیچھے لگا رہا ‘ انہوں نے گرفتاریاں کیں اور اب اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے الطاف خانانی نے دہشت گردوں کے لیے اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی ہے۔ اور مجرموں کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ چین سے لے کر کولمبیا اور دہشت گردوں اور مافیا تک سب کے لیے کام کرتے رہے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کیوں کہ بہت اہم جگہ واقع ہے لہٰذا یہاں سے دنیا کے بہت سارے ملکوں میں دہشت گردوں کو پیسہ ناجائر طریقے سے بھیجنے میں آسانی رہتی ہے لہٰذا اس کالیا خانانی گروپ نے یہ سروسز فراہم کیں۔
دل دکھا جب امریکی رپورٹ میں پڑھا پاکستان میں آرگنائزڈ مالی جرائم، ٹیکس چوری، فراڈ، کرپشن، جعلی نوٹوں کا کاروبار، سمگلنگ اور ڈرگز کا کاروبار عام ہے۔ انسانی سمگلنگ بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے علاوہ دہشت گردوں کو بھاری پیسہ بھی دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بلیک مارکیٹ ہونے کی وجہ سے جہاں رشوت عام ہو، غیرقانونی پیسہ ہو وہاں منی لانڈرنگ کے کاروبار کی گنجائش بہت ہوتی ہے۔ تاہم ایک چیز اس رپورٹ میں بہت اہم ہے کہ پاکستان کی ایف آئی اے ایجنسی نکمی اور نالائق ہے اور کسی کام کے قابل نہیں ہے۔ میری پچھلے سال اتفاقاً ایک پولیس افسر سے ملاقات ہوگئی تھی جو کالیا خانانی سکینڈل کی تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے ٹیم کا حصہ تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا تھا سکینڈل کہاں گیا ؟ اتنے بڑے ثبوتوں کے باوجود کیسے ان کی ضمانت ہوگئی تھی اور وہ مقدمے ہی ختم ہوگئے تھے؟
اس افسر نے گہری سانس بھر کر بتایا‘ ایف آئی اے کو استعمال کیا گیا تھا؟ دھوکا دیا گیا تھا ۔ سیاسی حکمرانوں کا پرانا طریقہ ہے جب کسی سکینڈل کی تحقیقات کرانی ہوں تو ڈھونڈ کر ایماندار پولیس افسر لگایا جاتا ہے تاکہ وہ سب ثبوت اکھٹے کرے اور وہ خود پیسے لے کر سائیڈ پر نہ ہو۔ جب میڈیا میں خبریں لگوانے اور ایف آئی اے کے ذریعے گرفتاریوں کے بعد سب ثبوت اکھٹے ہو کر عدالت سے سزا دلوانے کا وقت آتا ہے تو پھروہ وہی سیاسی حکمران انہی ملزمان سے ڈیل کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے ایماندار افسران کو ہٹا کر ان کی جگہ کرپٹ کو لایا جاتا ہے جو ان کو ڈیل کرانے میں مدد کرتے ہیں اور وہ افسر ایک پائو گوشت لے کر پورا اونٹ ان سیاسی حکمرانوں کے حوالے کردیتے ہیں کہ اب اسے آپ ذبح کریں ۔ بڑے دکھ سے اس پولیس افسر نے مجھے بتایا تھا اس کالیا کا مقدمہ بھی پیپلز پارٹی کے بعض لوگوں نے ایک ارب روپے میں ختم کیا تھا ۔ اس نے جو دو نام بتائے تھے وہ سن کر مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ میں دکھ سے اس پولیس افسر کو دیکھتا رہا تھا جس کے منہ سے نکلاتھا کہ کالیا کے سکینڈل میں ایف آئی اے کے ساتھ دھوکا ہوا تھا ۔ کمانے والے ایک ارب روپے کما گئے تھے اور بدنامی ایف آئی اے کی ہوئی تھی کہ کچھ نہ کرسکی ۔
چوہدری نثار علی خان بھی کچھ دن پہلے پیپلز پارٹی کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد اچانک پھٹ پڑے تھے کہ وہ دوبارہ کالیا خانانی سکینڈل کی تحقیقات کرارہے ہیں اور انہیں پتہ ہے کس کس پیپلز پارٹی لیڈر نے کالیا خانانی سکینڈل کو دبانے میں کیا رول اور کیوں ادا کیا تھا؟
چوہدری نثار علی خان کب تک اپنے سیاسی مخالفین کے منہ بندکرانے کے لیے محض وقتی طور پر پرانے سکینڈلز کا حوالہ دیتے رہیں گے؟ وزارت کا آخری سال ہے ۔ اور کچھ نہ کریں پیپلز پارٹی کے ان دو بڑوں کے کارنامے تو بتا دیں جنہوں نے ایک تگڑی رقم لے کر کالیا خانانی سے ڈیل کر کے انہیں جانے دیا تھا ۔ اس دور کے ایف آئی اے کے افسران آج بھی دکھی ہیں کہ ان ایماندار افسران کو استعمال کر کے سیاسی حکمرانوں نے مال بنالیا تھا اور آج امریکن کہتے ہیں ایف آئی اے نالائق اور نکمی ہے۔
چوہدری نثار کب تک پیپلز پارٹی کی توپوں کے دہانے اپنے خلاف بند کرانے کے لیے سکینڈلز کی بند فائلوں کو دھمکی کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے، آخر کب تک میرے پیارے چکری کے چوہدری صاحب! کب تک؟ اپنی ذات کا ہی خیال کریں ؟ کچھ خیال اس لٹنے والے ملک اور اس کے عوام کا بھی چوہدری صاحب کر لیں ، جنہوں نے آپ کو سر پر بٹھایا ۔ عزت دی اور آپ سے توقعات باندھ لی تھیں!