گزشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری کا ٹی وی انٹرویو دیکھتے ہوئے‘ ان کا انتہائی رعونت اور تکبر بھرا لہجہ اور خود کو دنیا کا ذہین، چالاک ، اور ہرکولیس اور دیوتا نما انسان پیش کرتے ہوئے مجھے برسوں بعد بڑی شدت سے ابن حنیف یاد آئے۔ جس لہجے میں زرداری اپنے سیاسی مخالفوں اور پرانے دوستوں کو استعمال کرکے ٹشو کی طرح ڈسٹ بن میں پھینکنے کی بات کررہے تھے ، میں کانپ گیا۔ مٹی کے انسان کی کیا اوقات ہوتی ہے اوراتنی اکڑ اور غرور۔ ! مجھے خود پتہ نہیں کہاں آصف زرداری اور کہاں ابن حنیف۔کیونکر میرے ذہن میں دونوں کا موازنہ ابھرا۔ ایک دنیا کے قدیم ادب اور تہذیبوں کی تلاش کے رسیا ، دوسرا حرص، ہوس اور دولت کا پجاری۔ اس موازنے پر شرمندگی ہوئی۔ انسانی ذہن بھی عجیب مذاق ہے زرداری کا انٹرویو دیکھتے سنتے ہوئے ابن حنیف یاد آئے۔بھلا یہ بھی کوئی تک بنتا ہے۔
ابن حنیف ... سات دریائوں کی سرزمین ، دنیا کا قدیم ترین ادب، مصر کا قدیم ادب جیسی شاہکار کتابوں کے مصنف ۔ ان کی عمر بیت گئی قدیم تہذبیوں کو تلاش کرتے اور لکھتے۔ نفیس اور خوبصورت انسان۔ ہندوستان سے ہجرت کی تو ملتان کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ کیا طبیعت پائی تھی ۔ چہرے پر ایک سکون، قناعت اور محبت ۔ ان کے چہرے پر پھیلے سکون اور قناعت کو دیکھ کر لگتا تھا نیلا آسمان رک گیا ہے، سمندر ٹھہر گیا ہے اور بے رحم صحرا میں بادل کا ٹکڑا چھائوں بن کر مسافر پر بازو پھیلا کر محو رقص ہے۔ ابن حنیف انٹرویوز اور اپنی تصویر چھپانے سے بہت گریزاں رہتے تھے۔ ملتان کے اخبار نویس کوشش کر کے بھی ان کی تصویر حاصل نہ کرسکتے تھے۔ وہ ہنس کر ٹال جاتے۔ برخوردار میں نے کیا ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے تصویر چھپے، یا میرے کارناموں کی دھوم مچائی جائے۔
ملتان یونیورسٹی کے دنوں سے ہی میری ان سے دعا سلام شروع ہوئی ۔ میں ان دنوں یونان کے ڈیرھ ہزار سال پرانے سوفکلیز کے ڈراموں کے ترجمے کر رہا تھا۔ ڈاکٹر انوار احمد نے اپنے ریفرنس سے مجھے ابن حنیف کے پاس بھیجا تھا ۔ وہ اس وقت کالج میں پارٹ ٹائم بیٹھتے تھے۔ بڑے خوش ہوئے، قدیم یونانی لٹریچر پر بات ہوتی رہی ۔ مجھے ایسے ظاہر کیا مجھ سے بڑا سکالر شاید کوئی پیدا ہوا ہو۔ اتنی توجہ دی مجھے خود شرمندگی ہونے لگی۔ مجھے زندگی میں پہلی اور آخری دفعہ محسوس ہوامیں کوئی دانشور ہوں ۔ ان کی توجہ پا کر میں نے بھی یونانی لٹریچر کا ان پر پورا رعب ڈالا۔ وہ توجہ سے ہر بات سنتے رہے۔
میں روانہ ہونے لگا تو مجھے باہر تک چھوڑنے آئے۔ بڑا اصرار کیا کہ بس اپنے دفتر سے ہی اجازت دے دیں‘ نہ مانے‘ پارکنگ تک آئے اور بولے میرے پاس کوئی طالب علم، علم کی تلاش میں آئے تو اس کی عزت میرے اوپر فرض ہے۔ اگلے روز بیکن بکس پر گیا اور اس کے مالک عبدالجبار صاحب سے ابن حنیف کی کتابوں کا پوچھا۔ انہوں نے ایک شیلف کی طرف اشارہ کیا۔ نظر دوڑائی تو شرم سے سر جھک گیا کہ ابن حنیف کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی اور میں صرف چار یونانی ڈرامے ترجمہ کر کے ان پر رعب ڈال آیا تھا اور انہوں نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا برخوردار ہم نے بھی درجنوں کتابیں لکھ چھوڑی ہیں اور ایسی لکھ چھوڑی ہیں جو پاکستان میں شاید دوبارہ کوئی نہ لکھ سکے کیونکہ اتنی محنت اور ریسرچ اور کسی کے بس کی بات نہیں تھی ۔
میں کتنے دن شرمندہ شرمندہ پھرتا رہا ۔ مجھ سے پیار کرتے۔ گھر کے ڈرائنگ روم میں بٹھاتے، گرمیوں میں شربت سردیوں میں چائے کے ساتھ تکلفات ۔ دھیمہ لہجہ۔گھنٹوں خاموش ہو کر اگلے کو سنتے اور ظاہر کرتے اس سے زیادہ سمجھدار انسان کوئی نہیں۔ مختصر بات کر کے دوسرے کو موقع دیتے تاکہ وہ بات جاری رکھے۔ وہ سب برداشت کرتے تھے لیکن اپنی نایاب اور مہنگی کتابوں کے قریب نہیں جانے دیتے تھے۔ بڑے عرصے بعد مجھے اتنی اجازت ملی کتاب کو ہاتھ لگا لوں ۔ان کی الماری میں پتہ نہیں کتنے مصری فرعون، قدیم خدائی کے دعویدار ، بادشاہ اور قدیم دنیا قید تھے جس کی چابی ان کے پاس تھی ۔ دنیا میں قدیم تہذیبوں اور لٹریچر پر لکھی گئی ہر کتاب ان کے پاس تھی۔ ایک جنونی انسان ۔
عمر کے آخری حصے میں انہیں کمر کا مسئلہ ہوگیا تھا۔ چلنا پھرنا کم ہوگیا تھا۔ گھر پر مقید رہتے یا پھر بیکن ہاوس کے عبدالجبار کے پاس جا بیٹھے جنہوں نے ان کی شاندار کتابیں چھاپی تھیں ۔ وہ خاموش بیٹھ کر کتابوں سے بھری دکان میں کتابوں کو دیکھتے رہتے اور پھر کوئی کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کردیتے۔ کوئی پہچان کر ہاتھ ملانے کی کوشش کرتا تو جھینپ سے جاتے، جیسے شرما گئے ہوں کہ پکڑے گئے۔ میں نے اپنی زندگی میں ابن حنیف جیسا مہذب اور نفیس انسان اور انکساری سے بھرپور کم ہی دیکھا ہوگا۔
میں کچھ حیران ہوتا اتنا پڑھا لکھا انسان، درجنوں کتابوں کا مصنف اتنا کم گو اور مہذب کیسے ہے؟ وہ بڑھکیں کیوں نہیں مارتا، وہ شوخیاں کیوں نہیں مارتا، وہ اپنے جیسے انسانوں پر رعب ڈالنے کی کوشش کیوںنہیں کرتا، اس میں تکبر کیوں نہیں، وہ غرور بھرے لہجے میں بات کیوں نہیں کرتا ، وہ باتوں باتوں میں دوسروں کا مذاق یا تمسخر کیوں نہیں اڑاتا، اس میں اتنی انکساری کیوں ہے، وہ دوسروں کو جاہل کیوں نہیں سمجھتا ، وہ اپنے آپ کو چالاک کیوں نہیں سمجھتا جو ساری دنیا کو استعمال کرنے کے فن پر مہارت رکھتا ہے ۔جس نے پوری دنیا کے قدیم ادب کے ایک ایک لفظ کو پڑھا، سمجھا اور پھر اس کا ترجمہ تک بھی کیا ، وہ کیوں اتنا خاموش ہے؟ وہ تو سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ باتیں جانتا ہے جو ہم نہیں جانتے، جس کے سینے میں صدیوں کے راز دفن ہیں وہ کیوں چپ ہے۔!
ایک دن میں نے ان سے عجیب سے بات پوچھ لی۔۔آپ کو موت سے ڈر نہیں لگتا۔۔؟مسکرا پڑے۔ مختصر بات کرتے تھے۔ اتنا بولے رئوف میاں۔ جس کے سامنے ان کتابوں میں کئی فرعون، بادشاہ، ملکائیں، شہزادے، جنگجو، سلطنتیں ابھری اور ڈوبی ہوں، جس نے پرانی کھدائی کی جگہوں پر گھنٹوں بیٹھ کر پرانی انسانی ہڈیوں سے لے کر ان کے استعمال تک کی چیزوں کو ہاتھ میں لے کر دیر تک دیکھا ہو، سونگھا ہو اور اندازہ لگانے کی کوشش کی ہو یہ کتنے ہزار سال پرانے انسان کی ہوسکتی ہے، اس کے لیے موت کیا معنی رکھتی ہے؟
مجھے تھوڑا ساحیران پا کر بولے روزانہ میرے سامنے ایک کتاب میں کتنے بادشاہ اور فرعون خدائی دعویٰ کرتے ہیں اوراگلی کتاب میں وہ گم ہوجاتے ہیں ۔ڈوب جاتے ہیں، ان کی جگہ نئے بادشاہ فرعون ابھرتے ہیں۔ وہ بھی ڈوب جاتے ہیں۔سب ایک دن مٹی میں مٹی ہوجاتے ہیں...کس چیز کا فخر، کس چیز کا تکبر، کس چیز کا ڈر۔؟
برسوں گزر گئے، ابن حنیف جیسا خوبصورت انسان خود برسوں ہوئے مٹی میں جا کر مٹی ہوئے اور شاید آج سے ہزاروں سال بعد ان جیسا جنونی انسان کبھی ان پر تحقیق کررہا ہوگا کتنے ہزار سال پرانے انسان کی قبر تھی۔۔اسے کیا پتہ ابن حنیف کون تھا، کیا تھا ، اس نے کتنی سلطنتیں، فرعون، بادشاہ اپنی آنکھوں کے سامنے ابھرتے اور دفن ہوتے دیکھے۔۔
اسلام آباد کی اس ڈھلتی شام غالب کی دلی یاد آئی جب بہادر شاہ ظفر کی نسل کا خاتمہ ہورہا تھا ، ان مغلوں کی نسلیں تہس نہس ہورہی تھیں جنہوں نے کبھی ہندوستان کو تہس نہس کر دیا تھا ۔ وقت نے اپنی تلوار چلا دی تھی۔
ابھی بھی حیران ہوں مجھے زرداری کا تکبر بھرا انٹرویو سنتے ہوئے ابن حنیف جیسا نفیس اور خوبصورت انسان کیوں یاد آرہا تھا۔ دونوں کا کیا جوڑ، کیا مقابلہ اور کیا جواز۔ اپنی اس سوچ پر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی ۔
آصف زرداری کے تکبر سے یاد آیا وہ مغل جو کبھی ہندوستان کے مالک تھے، آج ان کے بہادر شاہ ظفر کو دفن ہونے کے لیے چند گز زمین بھی ہندوستان میں نہیں مل پائی تھی۔۔ افسردہ ہو کر آنکھیں بند کیں تو سامنے دلی کی گلیوں کے بانکے اور ایک اور مغل بچے غالب کو دکھی پایا۔!
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا۔۔۔!