دو ہزار پانچ میں سعودی عرب حج پر گیا تو واپسی پرجدہ میں نواز شریف سے اپنے انگریزی اخبار کے لیے انٹرویو کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر وہ تیار نہیں ہورہے تھے۔
نواز شریف کو خوف تھا اگر انٹرویو دیا تو جنرل مشرف کو پتہ چل جائے گا کہ یہ باتیں انہوں نے خود مجھے بتائی تھیں ۔ روزانہ سرور پیلس جاتا اور لوٹ آتا کیونکہ میاں صاحب راضی نہیں ہورہے تھے۔ ان دنوں خواجہ آصف اپوزیشن میں قومی اسمبلی میں خوب گرجتے برستے اور ہمیں اچھے لگتے تھے لہذا جانے سے پہلے ان سے سفارشی فون کال کرائی میاں صاحب اگر مل لیں ۔ خواجہ آصف کی مہربانی کہ انہوں نے شہباز شریف کو فون کردیا۔
جدہ پہنچا تو شہباز شریف کو فون کیا۔ بولے آپ آجائیں۔ وہاں پہنچا تو ایک عجیب منظر دیکھا شہباز شریف سب سے گلے مل کر نیویارک کے لیے روانہ ہورہے تھے۔ پورے محل میں ایک سوگوار اور اداسی کی سی کیفیت تھی۔ پتہ چلا جنرل مشرف سے منت ترلوں کے بعد اجازت لی گئی تھی شہباز شریف کا علاج نیویارک ہونا تھا ۔ یہ بہت بڑی خبر تھی شریف خاندان کے اہم فرد کو سعودی عرب سے باہر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔ تاہم یہ خبر خفیہ رکھی جارہی تھی۔ نواز شریف کے ڈرائنگ روم میں جہاں وہ ٹوپی پہن کر بیٹھے ہوتے اور درجن بھر لوگ موجود ہوتے، وہیں میں بھی جا کر کونے میں بیٹھ گیا ۔پہلے مجھے پتہ نہ چلا شہباز شریف کیوں سب سے مل کر رخصت ہورہے ہیں؟ شہباز شریف میرے قریب آئے اور بولے سوری رئوف صاحب مجھے علاج کے لیے امریکہ جانا پڑگیا ہے۔ خواجہ آصف نے فون کیا تھا۔ پھر موقع ملا تو گپ شپ لگائیں گے۔ میں اب پریشان میری سفارش تو گئی۔ اب نواز شریف سے کون بات کرے گا ؟ خیر میری قسمت اچھی چوہدری نثار علی خان مل گئے۔ چوہدری نثار نے بڑی عزت دی۔ جب میں نے انہیں بتایا میں کس مقصد سے آیا ہوں تو بولے کچھ کرتے ہیں۔ انہوں نے میاں صاحب کو ڈٹ کر سفارش کی رئوف کو انٹرویو دیں‘ آپ اس پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔ یہ آزاد صحافی ہے۔ میاں صاحب خاموش ہوکر مجھے دیکھتے رہے جیسے جائزہ لے رہے ہوں واقعی بھروسہ کر کے انٹرویو دیا جائے؟
اتنی دیر میں کسی نے پاکستانی اخبارات میں چھپنے والے کالم اونچی آواز میں پڑھ کر سنانے شروع کردیے۔ تبصرہ ہوتا پھر اگلا کالم ۔ اتنی دیر میں کھانے اور نماز کا وقت ہوا تو میں بھی جماعت میں پیچھے کھڑا ہوگیا ۔ نواز شریف نے پیچھے مڑ کر مجھے تلاش کیا اور تقریبا گھسیٹ کر اپنے ساتھ پہلی صف میں کھڑا کیا ۔ نماز کے بعد کھانا لگ گیا ۔ بڑا دستر خواں سج چکا تھا۔ لطیفے اور گپ شپ جاری تھی۔ اتنی دیر میں میاں صاحب کو کسی نے بتایا ٹی وی اینکر شاہد مسعود کا فون تھا۔ میاں صاحب نے فون کان پر رکھا۔ مجھے نہیں پتہ شاہد مسعود نے کیا بات کی۔ میاں صاحب نے فورا میری طرف دیکھا۔ کچھ ہوں ہاں کی اور فون بند ہوگیا ۔ فون بند ہوتے ہی میری طرف دیکھ کر بولے آپ نے شاہد مسعود کو شہباز شریف کی امریکہ روانگی کی خبر لیک کی ہے؟ میں ایک لمحے کے لیے سن ہوگیا‘ کاٹو توبدن میں لہو نہیں ۔ آپ کسی کے گھر مہمان ہوں، کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں اور میزبان آپ پر شک کریں کہ آپ نے ان کے اہم فیملی سیکریٹ کو افشا کردیا تھا ۔نواز شریف کو یہ فکر تھی کہ اگر خبر پہلے نکل گئی تو شہباز شریف کو ائرپورٹ پر نہ روک لیا جائے۔
میں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیے اور بولا میاں صاحب پہلی بات‘ میری اب تک شاہد مسعود سے زندگی میں کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ دوسرے‘ میں تو سمجھا بیٹھا تھاکسی کو پتہ نہیں لہٰذا میں رات گئے آپ سے اجازت لے کر اپنے انگریزی اخبار کے لیے ایکسلوسو فائل کر کے اپنے نمبر بنائوں گا ۔ دوسرے اگر ٹی وی چینل پر میں نے خبر بریک کرانا ہوتی تو اس چینل پر بریک کراتا جس کے گروپ کے انگریزی اخبار میں خود رپورٹر ہوں۔ مجھے کسی اور ادارے کے اور صحافی کو اتنی بڑی خبر بریک کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
میاں صاحب خاموش دیکھتے رہے کہ بات پر اعتبار کروں یا نہیں؟
مجھ سے اس کے بعد کھانا نہ کھایا گیا۔ بے عزتی سی محسوس کی کہ کس بات پر میاں صاحب کو لگا ہوگا کہ میں نے شاہد مسعود کو وہیں سے بیٹھے خبر لیک کردی؟ کیا سوچتے ہوں گے یہ سب میرے بارے کہ ہم صحافی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
خیر کھانے کے بعد پھر میاں صاحب کو عرضی پیش کی۔ وہ خاموش رہے۔ بولے کل تشریف لائیں تو بات کریں گے۔ اگلے دن پھر گیا تو بھی بات نہ بنی۔ وہ ڈرائنگ روم، پاکستانی کالم نگاروں کے کالم اور ان پر اچھے برے تبصرے۔ میں نے پھر چوہدری نثار علی خان سے مدد مانگی۔ انہوں نے کمال مہربانی سے پھر میاں صاحب سے بات کی۔ لیکن ان پر ایک ہی خوف سوار تھا اگر انٹرویو دے دیا تو جنرل مشرف سعودی حکومت کو شکایت کردیگا۔
آخر میاں صاحب راضی ہوئے لیکن شرائط کی ایک طویل فہرست میرے سامنے رکھ دی۔ وہ فوجی بغاوت سے لے کر اب تک ایشوز پربات کرنے کو تیار تھے لیکن ان کا نام تک اس انٹرویو میں نہیں آنا چاہیے۔ کہیں یہ پتہ نہ چلے کہ نواز شریف نے کوئی بات کی ہے۔ اب میں کشمکشں میں پڑ گیا یہ کیسا انٹرویو ہوگا جس میں نواز شریف کا نام استعمال نہیں ہوسکتا۔ تو پھر کس کے نام سے ہوگا؟
میں نے اس کا بھی حل تلاش کرنے کی کوشش کی کہ چلیں آپ سب باتیں کہہ دیں میں خود اپنی طرف سے لکھوں گا۔ یہ کہیں نہیں لکھوں گا آپ سے میری ملاقات یا بات ہوئی تھی تاکہ آپ پر جنرل مشرف کا عذاب نازل نہ ہو۔ جو عذاب ہو وہ میرے اوپر نازل ہو کہ ایسی انفارمیشن کہاں سے لیں اور اس کا ذریعہ کون ہے۔ یہ شرط طے ہوگئی تو نئی شرط پیش کردی ۔ فرمایا لیکن کیا پتہ کوئی بات آپ ایسی لکھ دیںجس سے جنرل مشرف ناراض ہوجائے، لہٰذا سب کچھ لکھ کر چوہدری نثار علی خان کو پہلے دکھائیں گے اور چوہدری صاحب کی مرضی اس میں سے کیا کاٹتے ہیں ۔ وہ کاٹ چھانٹ کے بعد آپ کے حوالے ہوگا ۔ میں اس پر بھی راضی ہوگیا چلیں ان کا انٹرویو ہے وہ جو چاہیں کاٹ دیں۔
پاکستان لوٹ کر وہ سب لکھا جیسے مجھے فرشتوں نے وہ سب انفارمیشن دی ہو۔ لکھ کر چوہدری نثار علی خان کی خدمت میں پیش ہوا ۔ انہوں نے پڑھا۔ کچھ زیادہ کاٹ چھانٹ نہیں کی۔ مجھے داد دی اس انداز میں لکھا تھا کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ میری کبھی نواز شریف سے ملاقات ہوئی ہو یا انہوں نے وہ باتیں بتائی ہوں ۔یوں اگر نزلہ گرتا تو میرے اوپر۔ میں نے خوش ہو کر وہ طویل پروفائل لکھا اور اپنے انگریزی اخبار کو بھیج دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے یہ کہہ کر چھاپنے سے انکار کر دیا گیا آپ چاہتے ہیں جیسے کبھی نواز شریف نے ہمارے گروپ کو بند کرکے بغاوت کے پرچے کاٹ دیے تھے وہ کام دوبارہ جنرل مشرف کرائے؟
مایوس ہوکر میں نے نجم سیٹھی کو فون کیا ۔ بولے بھیج دیں۔ اعجاز حیدر نے بہترین ایڈیٹنگ کر کے اسے فرائیڈے ٹائمز میں چھاپا ۔ میں نے شکریہ کیلئے نجم سیٹھی کو ای میل بھیجی تو جواب آیا جب میاں صاحب نے میرے خلاف کارروائی کی تھی(جیل ڈالا تھا) تو کہا تھا جب آپ پر برے دن آئیں گے تو ہم ہی کام آئیں گے۔ اسی ای میل میں نجم سیٹھی نے لکھا اگرچہ ان کی بیگم صاحبہ جگنو محسن ایک قبائلی مزاج کی خاتون ہیں وہ سخت ناراض ہیں کہ نواز شریف کا انٹرویو فرائیڈے ٹائمز میں کیوں چھاپا۔( نواز شریف پر لکھا گیا وہ سنسنی خیز پروفائل میری کتاب" ایک سیاست کئی کہانیاں" میں پڑھا جاسکتا ہے)
اس انٹرویو کے ڈیرہ سال بعد لندن میں نواز شریف سے ڈیوک اسٹریٹ والے دفتر میں ملاقات ہوئی تو فوراً طعنہ دیا کلاسرا صاحب جب جدہ سے آپ لوٹ کر گئے تو آپ کی رپورٹنگ میں وہ دم نہیں رہا جو پہلے تھا۔ کہا تو نہیں لیکن جیسے کہہ رہے ہوں مشرف کے ہاتھوں بک گئے یا ڈر گئے تھے۔ میں ہنس پڑا اور بولا میاں صاحب !بقول ہمارے استاد نصرت جاوید کے ہم دو ٹکے کے صحافیوں کی کیا اوقات ہے۔ جتنی اوقات ہے رپورٹنگ کرتے رہتے ہیں ۔ اگر جنرل مشرف سے لڑائی اتنی آسان تھی تو آپ بھی اٹک جیل بیٹھے رہتے ،ڈیل کرکے جدہ نہ نکل جاتے۔آپ بہادری دکھاتے تو سیاستدان، میڈیا، عدالتوں اور سول سوسائٹی کو بھی حوصلہ ملتا اور جنرل مشرف اتنا طویل عرصہ حکمران نہ رہتا۔ خود آپ خاندان سمیت پتلی گلی سے نکل کر ہمیں بزدلی کے طعنے کیسے دے سکتے ہیں! اس کے بعد جب تک میں لندن سے رپورٹنگ کرتا رہا ، نواز شریف کے قریبی نورتنوں، درباریوں اور طبلچیوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل نہ کرسکا ۔
(یہ کالم میاں نواز شریف کے ہمارے پیارے لیہ شہر میں ایک جلسے میں لگائی گئی اس بڑھک سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے کہ جب شیر آتے ہیں تو گیدڑ بھاگ جاتے ہیں)