ملک بھر میں چوہدری نثار علی خان کے حکم پر سوشل میڈیا کے خلاف ایف آئی اے نے چھاپوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ سوشل میڈیا کے کئی نوجوانوں کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا ہے۔چوہدری صاحب کو اچانک یاد آگیا کہ پاکستانی فوج کی ساکھ خطرے میں ہے اور انہوں نے اسے بچانا ہے۔ چوہدری نثارایک سمجھ دار اور ذہین انسان ہیں۔ ان سے بہتر شائدہی کوئی پاکستانی سیاست کو جانتا ہو۔ وہ سیاست اور سیاستدانوں کو نہ صرف اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ میڈیا اور عوام کے ساتھ کیسے انہوں نے کھیل کب اور کیسے کھیلنا ہے۔ ان سے بہتر اپوزیشن لیڈر شاید ہی میں نے دیکھا ہو۔ وہ اپنی ذہانت کا بھرپور استعمال کرنا جانتے ہیں ۔ وہ جنرل مشرف کی پارلیمنٹ اور بعد میں پیپلز پارٹی دور میں پارٹی کی طرف سے اپوزیشن لیڈر رہے اور دونوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کی حیثیت سے بھی انہوں نے بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کیا ۔
تاہم اب اچانک انہیں یہ خیال آگیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی چھ لاکھ فوج کا سوشل میڈیا پر دفاع کرنا ہے۔ سمجھ دار سیاستدان کی طرح انہوں نے پہلے توہین رسالت کی بات کی تاکہ کوئی اعتراض نہ کرسکے اور پھر عدلیہ کے کندھوں کا سہارا لیا کہ سوشل میڈیا پر عدلیہ کی بھی توہین ہورہی ہے اور اب انہوں نے فوج کا نام استعمال کر کے کارروائیاں شروع کی ہیں ۔ سیدھی بات ہے کہ توہین رسالت پر کارروائی ہونی چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چند بیمار ذہن یہ کام کررہے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی بجائے پورے سوشل میڈیا کو کیوں رگڑا جارہا ہے؟ اس طر ح سوشل میڈیا پر اگر فوج یا عدلیہ کے خلاف بات کرنا جرم ہے تو پھر چوہدری نثار علی خان کیوں بھول گئے کہ وہ خود ، خواجہ آصف اور ان کی پارٹی کے کئی ایم این ایز قومی اسمبلی کے اندر اور باہر عدلیہ
اور فوج کے خلاف تقریریں کرتے رہے ہیں۔ جب جنرل پاشا آئی ایس آئی چیف تھے تو چوہدری نثار علی خان ان کا نام لے کر ان پر خوب تنقید کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے جنرل پاشا سیاست میں مداخلت کررہے ہیں ۔ انہیں جنرل پاشا کی عمران خان سے ملاقاتوں پر اعتراض تھا لیکن خود وہ رات کے اندھیرے میں شہباز شریف کے ساتھ جنرل کیانی کو درجنوں بار ملنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی چوہدری نثار علی خان کی سمجھ داری کی دلیل ہے جس کام پر وہ دوسروں پر تنقید کرتے تھے وہی کام خود کررہے تھے لیکن کسی کو پتہ نہیں چلنے دے رہے تھے۔ ہوسکتا ہے یہ بھی جنرل کیانی اور جنرل پاشا کا اپنا پلان کیاہوا کھیل ہو ۔ ایک جنرل ،شہباز شریف اور چوہدری نثار کو اپنے قابو میں کیے ہوئے تھا تو دوسرے جنرل کی ڈیوٹی عمران خان پر لگائی گئی تھی۔ خیر چوہدری نثار اور شہباز شریف اس کھیل کے پرانے کھلاڑی تھے لہٰذا وہ جنرل کیانی کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کی تجربہ کار ٹیم کو موقع دیا جائے،عمران خان بچگانہ باتیں اور حرکتیں کرتا ہے۔ وہ خود بھی مرے گا اور آپ کو بھی مروائے گا۔ عمران خان جنرل پاشا کو قائل نہ کرسکا کہ وہ تجربہ کار شریفوں سے بہتر ثابت ہوگا۔ قرعہ نواز شریف کے نام نکلا۔ مجھے یاد ہے کئی دفعہ میرے سامنے میرے دوست کالم نگار ہارون الرشید نے عمران خان کو سمجھایا کہ جنرل کیانی اچھا ہے یا برا لیکن وہ اس ملک کا آرمی چیف ہے اور اگلے الیکشن اس کی نگرانی میں ہونے ہیں ۔ وہ جنرل کیانی کے بارے ہر جگہ بیٹھ کر برائیاں نہ کیا کرے۔ اچھے سیاستدان کی طرح اپنی زبان اور خیالات کو اپنے تک رکھے تو بہتر ہوگا۔ یہ نصیحت سننے اور سمجھنے کی بجائے عمران خان الٹا ہارون الرشید کو جنرل کیانی سے دوستی کے طعنے دیتا ۔ یقینا جنرل کیانی تک یہ باتیں پہنچتی ہوں گی ۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ عمران خان نے دھرنوں کے دنوں میںوہی غلطی دہرائی جب اسے جنرل راحیل نے جی ایچ کیو بلایا اور شرائط ماننے کی پیشکش کی۔ وقت لے کر ساتھیوں سے مشورہ کرنے کی بجائے خان صاحب وہیں بیٹھے بیٹھے اڑھائی منٹ میں جواب دے کر لوٹ آئے۔ جنرل راحیل نے بھی سوچا ہوگا نواز
شریف ہی بھلا مانس ہے جو بات تو مان لیتا ہے۔ خان صاحب تو ایک بات بھی ماننے کوتیار نہیں ہیں۔اسی لیے نواز شریف نے ان کاموں کے لیے چوہدری نثار کو رکھا ہوا ہے جو سب سمجھتے ہیں کہ کب جرنیلوں کو تقریروں سے دبانا ہے اور کب ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چوہدری نثار اس وقت فوج کے زخموں پر مرہم رکھ رہے ہیں ۔ عوام روایتی طور پر پاکستانی فوج کو ہمیشہ سیاستدانوں سے بہتر سمجھتے آئے ہیں۔ اگرچہ جنرل مشرف کے آخری سال میں فوج کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی لیکن ان دس برسوں میں فوج نے دوبارہ اپنی ساکھ بحال کر لی تھی۔ اچانک ڈان لیکس میں جو کچھ ہوا اس سے لوگوں کو احساس ہوا کچھ اچھا نہیں ہوا۔ ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی تھی۔ لوگوں کو لگا انہیں بھی اس کھیل میں استعمال کیا گیا ہے۔ جنرل مشرف تک کامران شاہد کے دنیا ٹی وی پروگرام میں یہ کہتے پائے گئے ڈان لیکس سکینڈل کچھ لو اور کچھ دو پر سیٹل ہوا ہے۔ جنرل مشرف کا کہنا تھا یہ تو سب کو پتہ ہے فوج نے نواز شریف کو کیا دیا تھا لیکن یہ پتہ نہیں کہ فوج نے نواز شریف سے اس کے بدلے میں کیا لیا تھا ۔ ویسے بھی ڈان لیکس میں تو اس دن ہی کمپرومائز ہوگیا تھا جس دن یہ فیصلہ ہوا تھا کہ تحقیقاتی کمشن شریف خاندان کے کسی فرد سے انکوائری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد کیا رہ جاتا تھا کیونکہ سب جانتے تھے اس کے پیچھے کون تھا۔ باقی جن کرداروںکو سزا دی گئی ہے وہ سب مہرے تھے۔ اس لیے لوگوں کو سمجھ نہ آیا کہ ڈیل تو اکتوبر دو ہزار سولہ میں ہی ہوگئی تھی نواز شریف کے خاندان کے افراد کو ،جن پر شک تھا کہ انہوں نے ہی خبر پلانٹ کرائی تھی‘ٹچ نہیں کیا جائے گا ۔ باقی رسمی کارروائی تھی جو پوری کی جارہی تھی۔
ویسے ایک بات سمجھنے کی ہے کہ ڈان لیکس کا ایشو فوج سے زیادہ جنرل راحیل کا تھا ۔ وہ نومبر میں ریٹائرڈہورہے تھے اور اکتوبر میں یہ سٹوری سامنے آئی جسے بنیاد بنا کر یہ سب ہنگامہ کھڑا کیا گیا ۔ اگر نواز شریف اس دبائو میں آکر جنرل راحیل کو ایک سال یا تین سال کی توسیع دے دیتے تو کیا جنرل باجوہ آرمی چیف بنتے؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے انہوں نے خود اپنی تقریر میں مانا کہ ان کے بچوں نے بھی ان کے کچھ فیصلوںپر اعتراضات کیے لیکن ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج کو ڈان لیکس پر حکومت کے ساتھ کمپرومائز کر کے جھٹکا لگا ہے۔ اس میں قصور ان کا ہے جنہوںنے خود لوگوں کو امیدیں دلا دی تھیں۔ اس نئی ڈیل کا جواز فراہم کرنے کی بجائے لوگوںکے پیچھے ایف آئی اے لگانے سے آرمی کا امیج مزید خراب ہوگا۔ چوہدری نثار علی خان اور نواز شریف کی کئی تقریریں ریکارڈ پر ہیں جن میں وہ فوج اور اس کے جرنیلوں کی عزت افزائی کرتے رہے ہیں۔ اس میں بھی ان کا فائدہ ہے کہ فوج کا نام لے کر اپنے مخالفوں کو ایف آئی اے کے حوالے کردو۔
ویسے ایف آئی اے کے چھاپوں سے یاد آیا ۔ سینیٹر انور بیگ بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے چیئرمین تھے۔ ایک دن میں نے انہیں کہا ہماری جان ان موبائل پیغامات سے نہیں چھڑائی جاسکتی جو ہر روز آتے ہیں کہ آپ کا پچیس ہزار روپے کا انعام نکلا ہے۔ کئی دیہاتی لٹ چکے ہیں ۔ وہ بولے میں کیا کروں؟ میں نے کہا آپ ایف آئی اے سے مدد لیں۔ ان کا سابئر ونگ اور پی ٹی اے مل کر کچھ کریں۔ وہ ہنس کر بولے کسی کو بتائو گے تو نہیں؟ میں نے کہا نہیں ...بولے آج صبح ہی ڈی جی ایف آئی اے کا فون آیا تھا کہ بیگ صاحب آپ کچھ انکم سپورٹ پروگرام کے موبائل میسجز کا نہیں کرتے، کسی کو کہہ کر رکوائیں ۔ مجھے خود روزانہ میسجز آتے ہیں۔بیگ صاحب بولے۔ اب بتائو میں کیا کروں۔میں حیرانی سے منہ کھولے انور بیگ کو تکتا ہی رہا ۔اللہ رحم کرے ہماری ایٹم بم سے مسلح چھ لاکھ فوج پرجس کا سوشل میڈیا پر دفاع اب چوہدری نثار علی خان کی ایف آئی اے کے ''توانا کندھوں‘‘ پر آن پڑا ہے۔