میرے دوست ہارون الرشید کے جمعہ کے روز شائع ہونے والے کالم نے پرانے زخم اور دکھ ہرے کر دیے ہیں‘ جس میں انہوں نے میرے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف کی مختصر مگر پُراثر کہانی لکھی۔ ہارون الرشید قلم کو پہلے خون میں ڈبوتے ہیں اور پھر کاغذ پر بکھیر دیتے ہیں کہ پڑھنے والا کئی دن اس تحریر کے سحر سے باہر نہیں نکل سکتا۔
ان کے کالم نے نو سال پہلے کی وہ رات یاد دلا دی جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنے کچھ ماہ ہوئے تھے اور مجھے ان کا فون آیا تھا۔ خامیاں اپنی جگہ‘ لیکن گیلانی صاحب کی ایک بات بہت اچھی تھی۔ وہ اپنے موبائل فون سے خود بات کرتے۔ خود موبائل سے ڈائل کرتے تھے۔ اپنے سٹاف کو کہہ کر فون نہیں کراتے تھے کہ وزیر اعظم بات کرنا چاہتے ہیں‘ ہولڈ کریں۔ شاید ان کا کچھ لوگوں کو عزت دینے کا اپنا انداز تھا۔
خیر رات گئے موبائل پر ان کا نام پڑھ کر حیران ہوا۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگے: آپ سے ایک کام ہے۔ ہمیشہ مجھ سے سرائیکی میں بات کرتے۔ میں حیران تھا کہ ایک وزیر اعظم کو بقول نصرت جاوید ''دو ٹکے کے صحافی‘‘ سے کیا کام ہو سکتا ہے۔ خصوصاً اس وقت جب ابھی چند روز پہلے ہی ان کے خلاف خبر فائل کی تھی کہ ملتان میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہروں میں تشدد ہو رہا ہے‘ لیکن وہ ایک اہم شخصیت کے گھر کھانا کھانے چلے گئے‘ ملتان نہیں گئے۔ وہ بولے: آپ کے ایک دوست ہیں‘ ڈاکٹر ظفر الطاف۔ میں نے کہا: جی بالکل ہیں۔ بولے: ان سے کام ہے‘ میں نے تو پورا زور لگا کر دیکھ لیا ہے‘ کسی کی نہیں مانتے۔ ڈپٹی چیئرمین سلمان فاروقی نے بھی انہیں منانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ہماری حکومت میں کام کرنے کو تیار نہیں۔ ظفر الطاف کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر وہ کسی کی بات کا مان رکھتے ہیں یا کسی کی بات سنتے ہیں تو وہ آپ ہیں۔ آپ کو انکار نہیں کرتے۔ آپ انہیں راضی کریں وہ ہماری حکومت میں کام کریں ۔ وہ قابل بندے ہیں۔ ہم ان کے کام سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔
میں چپ چاپ سنتا رہا اور حیران ہوتا رہا ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا حالانکہ ہم روزانہ دوپہر کو کھانے پر ملتے تھے۔ خیر گیلانی صاحب رکے تو میں نے انہیں کہا: سر میرا خیال ہے آپ انہیں رہنے دیں۔ وہ مختلف مزاج کے انسان ہیں۔ وہ آپ کی موجودہ پیپلز پارٹی کے مزاج کے نہیں رہے۔ یا آپ ان کے مزاج کے نہیں رہے یا وہ بدل گئے ہیں۔ بہرحال اگر انہوں نے آپ اور سلمان فاروقی کی بات نہیں مانی تو بھلا میں کس کھیت کی مولی ہوں۔ گیلانی صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور مجھے قائل کرتے رہے کہ مجھے انہیں راضی کرنا چاہیے۔ میں نے کہا: وہ کسی کی نہیں سنیں گے‘ دوستوں کے لیے وہ جیل چلے جائیں گے لیکن کسی کے حکم پر وہ چائے کی پیالی تک کسی بڑے بندے کو نہیں پلائیں گے۔ سیاستدان مداخلت کے قائل ہوتے ہیں کہ سرکاری افسر غلام بن کر رہے وہ ایسے افسر نہیں ہیں۔ انہوں نے ساری عمر لڑ کر نوکری کی ہے اور وہ بخوشی نوکری سے فارغ ہوتے رہے ہیں۔ چند ماہ بعد آپ نے ان سے تنگ آ جانا ہے۔ گیلانی صاحب نے مجھے کہا: آپ انہیں میری طرف سے گارنٹی دیں کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ان کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔
اگلی دوپہر میں حسب معمول ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملنے گیا۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ شرارتاً بولے: سنا ہے آپ کے ملتانی دوست نے آپ کو فون کیا تھا۔ میں حیران ہو کر بولا: آپ کو کیسے پتہ چلا؟ ہنس پڑے اور کہا: جب آپ وزیر اعظم اور سلمان فاروقی کو انکار کر دیں گے تو پورے شہر میں ایک ہی بندہ بچ جاتا ہے جسے میرے پاس منانے کے لیے بھیجا جا سکتا ہے اور وہ تم ہو۔
میں مسکرا پڑا اور کہا: پہلے تو یہ بات بتائیں آپ نے مجھ سے ذکر نہیں کیا اس آفر کا ورنہ آپ سب باتیں کرتے ہیں۔ بولے: کیونکہ میں آس افر کو قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں تھا۔ تم سے وہ مشورہ کرتا ہوں جس پر سنجیدہ ہوتا ہوں اس لیے اس پر بات نہیں کی۔
میں نے کہا: پھر میری سفارش پر مان جائیں۔ بولے: نہیں تم مجھے قائل کرو۔ میں بولا: سر چھوڑیں پہلے یہ بتائیں آپ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ کام کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ ڈاکٹر صاحب سنجیدہ ہوکر بولے: تمہیں تو پتہ ہے کہ میں ہمیشہ سے فسادی کا درجہ رکھتا ہوں۔ سب حکومتوں سے لڑتا ہوں۔ کسی میں صبر‘ برداشت نہیں ہوتی۔ جب میں بحث کرتا ہوں اور غریبوں‘ کسانوں کے لیے طاقتوروں سے لڑتا ہوں تو وہ مجھے اگلے روز برطرف کرکے میرے اوپر مقدمے بنا دیتے ہیں۔ اب اس عمر میں میرے اندر نئے مقدمات بنوا کر جیل جانے کا کوئی شوق نہیں رہا۔ ہاں اگر بینظیر بھٹو وزیر اعظم ہوتیں تو میں کام کرتا۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولے: بینظیر بھٹو میں ایک اچھی چیز تھی وہ کتاب پڑھتی تھی۔ وہ کابینہ کے ہر اجلاس میں مجھ سے بحث کرتی اور میں بھی خوب ڈٹ کر لڑتا۔ اس کے سب وفاقی وزیر اور سیکرٹریز گواہ ہیں۔ لیکن بینظیر بھٹو نے کبھی مجھے برطرف کرکے میرے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم نہیں دیا‘ جیسے نواز شریف اور جنرل مشرف نے کیا تھا۔ کتاب انسان میں برداشت اور صبر پیدا کرتی ہے اور دوسرے کا موقف سننے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ بینظیر بھٹو میں یہ کوالٹی تھی۔ وہ واحد دور تھا جس میں‘ میں نے تین سال سیکرٹری زراعت کام کیا اور برطرف نہیں ہوا اور یوں زراعت کی گروتھ دس فیصد سے بھی اوپر لے گئے۔ باقی تو چند ماہ بعد مجھے برطرف کرتے اور ساتھ میں اجلاس میں بولنے پر گستاخی پر سبق سکھانے کے لیے احتساب سیل یا نیب کے مقدمے بھی بنواتے۔
اب میں کسی کے ساتھ کام نہیں کروں گا۔ پہلے کے مقدمات بھگت لوں وہ بھی بڑی بات ہوگی۔ پھر وہی سیاستدان، ان کی فرمائشیں ، ان کے نخرے، ان کو سلام نہیں کیا ، دفتر حاضری نہیں دی، نوکریاں نہیں دیں، گھر پر تحفہ نہیں بھجوایا، محکمے کی سرکای گاڑیاں بچوں کو کیوں نہیں بھجوائیں۔ یہ کام مجھ سے نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر صاحب بولتے رہے اور میں سوچتا رہا اب ان حالات میں میں کیسے انہیں راضی کر پائوں گا کہ وہ گیلانی کی درخواست مان لیں۔
مجھے ذہین لوگ اچھے لگتے ہیں کیونکہ ان کو قائل کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ عموماً لوگ ذہین لوگوں سے بچتے ہیں کہ ان سے بحث نہیں ہو سکتی‘ یا وہ لاجواب کر دیتے ہیں یا لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ضدی ہوتے ہیں یا عقل کل ہوتے ہیں۔ خود کو ذہین اور دوسروں کو کم عقل سمجھتے ہیں۔ میری رائے اس کے برعکس ہے۔ میرا زندگی میں واسطہ دو تین ذہین لوگوں سے پڑا ہے‘ جن میں ڈاکٹر ظفر الطاف، بابر اعوان اور میجر عامر شامل ہیں۔ ان کے ساتھ بحث مباحثوں میں ہمیشہ مزہ پایا۔ میجر عامر بھی دلیلیں دینے کی بے پناہ خوبیاں رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان بھی مشکل انسان ہیں لیکن ذہین بہت ہیں۔ ذہین انسان کو منوانے کا ایک ہی حل ہے کہ اسے منت ترلے یا جذبابیت یا رشتوں کی قسمیں یا دوستی کے واسطے دینے کی بجائے اسے دلیل دیں۔ اسے جواز سے قائل کریں۔ ذہین انسان کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ دلیل سے شکست کھاتا ہے منت ترلے سے نہیں۔ میرے جیسے کم عقل کو گھنٹوں سمجھاتے رہیں اس پر کوئی دلیل اثر نہیں کرے گی لیکن اسے کچھ جذباتی واسطے دیں وہ فورا مان جائے گا ۔
ڈاکٹر ظفرالطاف کھانے کی میز پر انتظار کررہے تھے میں انہیں قائل کروں اور میں مسلسل سوچ رہا تھا کہ کہاں سے شروع کیا جائے کیونکہ میرا واسطہ کسی عام بیوروکریٹ سے نہیں تھا۔ ایک ایسا بیوروکریٹ جو کتاب کا رسیا تھا اور ایک ذہین انسان جو تقریباً چالیس سال نوکری اور درجنوں مقدمات بھگتنے کے بعد اس نیتجے پر پہنچا تھا کہ وہ اب ریٹائرمنٹ کے بعد مزید سیاسی وزیراعظم یا دوسرے لفظوں میں سرکاری نوکری نہیں کرے گا۔
مجھے یوں لگا میرا اپنا آپ دائو پر لگا ہوا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف مسکراتے ہوئے چیلنج کے انداز میں میرے بولنے کا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ آج لفظوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ شاید آج یہ مشن ناکام ہو گا۔
میں نے گلا صاف کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے کہا: آب چائے منگوائیں۔ مجھے پتہ تھا چائے ڈاکٹر الطاف کی کمزوری تھی۔ وہ ہر آدھے گھنٹے بعد چائے کا بڑا مگ پیتے تھے۔ میرا خیال تھا چائے پیتے ہوئے وہ ریلیکس ہوں گے تو میرے جواز اور دلائل ان پر کچھ اثر کریں گے۔ اپنی پسند کی چیز ہمیشہ بندے کو ریلیکس کرتی ہے اور اس وقت اس سے کوئی بات منوانا آسان ہو جاتا ہے۔
آخرکار کچھ سوچ کر میں نے بولنا شروع کیا۔ ڈاکٹر صاحب چپ چاپ چائے کے گھونٹ لیتے مجھے دیکھتے رہے۔ میرا امتحان شروع ہو چکا تھا۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مجھے واقعی بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا تھا۔ (جاری)