حکمران جماعت کے عہدے داروں اور وزیراعظم کے بچوں کے تکبر سے لبریز لب و لہجے اور مسلسل دھمکیوں کو سنتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ قدرت بھی انسانوں سے کیا کیا مذاق کرتی ہے۔ جب وزیراعظم کی صاحبزادی یہ فرما رہی تھیں کہ'' نواز شریف چوتھی اور پانچویں دفعہ بھی وزیراعظم بنیں گے‘‘ تو حضرت علیؓ کا قول یاد آیا کہ'' میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘‘۔ کتنے لوگ دعویٰ کر کے گزر گئے، ان کی قبروں کے نشانات تک نہ رہے۔ خدا کی ذات کے سوا ہر شے فانی اور ختم ہونے والی ہے۔ کتنے ناگریز لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں ۔
ہٹلر بھی یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ کبھی اقتدار سے باہر نہیں جائے گا، پورے یورپ پر حکمرانی کرئے گا اور اپنے مخالفیں کو تہس نہس کر دے گا۔ اس کے ہاتھ جو لگا اس کا سرقلم ہوا یا گیس چیمبر میں مارا گیا۔ لاکھوں افراد اس نے اپنے نظریات کے نام پر مار ڈالے۔ہٹلر سے پہلے بھی انسان اقتدار کے لیے لہو بہاتا آیا تھا اس کے بعد بھی بہاتا رہا۔ ہٹلر کا خواب تقریباً پورا ہونے والا تھا‘ جب روش کو شکست ہونے والی تھی لیکن سٹالن گراڈ کے محاذ پر روسی فوجیوں نے جرمنوں کا غرور خاک میں ملا دیا ۔ اگر اس دن سٹالن گراڈ میں روس شکست کھا جاتا تودنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ قدرت نے دنیا میں ایک توازن قائم رکھنا ہوتا ہے۔جب کوئی فانی انسان خدائی دعوے کرنے لگے تو پھر قدرت اس فانی انسان کو اٹھا کر زمیں پر پٹخ دیتی ہے۔ حکمرانی کرنے کا نشہ بھی کتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان اپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔ حالانکہ دیکھتاہے کہ ایک حکمران کی زندگی کانٹوں پر گزرتی ہے لیکن اپنے جیسے انسانوں کو اپنے حکم کا تابع بنانے کے لیے انسان ہر خطرہ مول لے لیتا ہے۔
حکمران جماعت کے لیڈروں اور خصوصاً حسین نواز کی مسلسل دھمکیاں سن کر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ جب آپ خوف کا شکار ہوں تو اونچی آواز میں بولنا شروع کردیتے ہیں ،بعض لوگ اونچی آواز میں سوچنا شروع کردیتے ہیں جسے ہم بڑبراہٹ کا نام دیتے ہیں یا پھر آپ آواز اونچی کر کے دوسروں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس وقت آپ خود ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپ اپنا ڈر دور کرنے کے لیے دوسروں کو ڈرانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں ۔
جسٹس کھوسہ نے ''گاڈ فادر‘‘ کا حوالہ ضرور دیا تھا لیکن ان سب کی دھمکیاں سن کر مجھے یقین ہوچلا ہے گاڈفادر سے پورا سبق نہیں سیکھا گیا ۔ گاڈفادر ویٹوکارلیون کا تو ساری عمر یہ انداز رہا کہ مشکل سے مشکل انسان سے بھی منطق کے ساتھ بات کی جاسکتی ہے۔ اگر کسی کو ختم کرنا ہی مقصود ہو تو بھی دھمکی نہیں دینی۔ گاڈفادر کا خیال تھا دھمکی کمزور انسان دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ دھمکی دے کر اپنے ارادے ظاہر کردیتے ہیں اور آپ کا دشمن چوکنا ہوجاتا ہے، جب کہ مافیا میںسب سے زیادہ اہمیت تو سرپرائز کی ہوتی ہے۔ برسوں گزر جائیں، آپ کا دشمن بھی بھول جائے کہ اس نے کبھی آپ پر وار کیا تھا لیکن آپ نہ بھولیں۔گاڈ فادر کو دھمکیاں دینے و الے لوگ کھوکھلے لگتے تھے اس لیے عمر بھر اس نے کسی کو دھمکی نہ دی۔ جو کرنا تھا کرگزرا چاہے برسوں انتظار کرنا پڑا۔
فلم گاڈ فادرکا ایک مشہور جملہ ہے۔
Revenge is the dish, best served cold لیکن یہاں تو روزانہ کی بیناد پر دھمکیاں اور حشر نشر کرنے کے دعوے ہورہے ہیں۔
تو کیا اب ہاوس آف شریف بھی اس نفسیاتی خوف کا شکار ہوچکا ہے۔ اس خاندان کے افراد کے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا ہے کہ اقتدار ان کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے اور اگر یہ پھسل گیا تو پھر پتہ نہیں کیا کیا عذاب بھگتنے پڑیں گے۔ کیا ہوگا اگر نواز شریف ڈس کوالیفائی ہوگئے؟ ان کی جگہ کون لے گا؟ مریم نواز تو خود تحقیقات بھگت رہی ہیں۔ کیا وہ وزیراعظم بن سکیں گی اور اگر بن بھی گئیں تو کیا سوالات نہیں اٹھیں گے؟ پارٹی میں سے کس کو وزیراعظم بنایا جائے گا ۔ وفاداروں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر ایک کو بنایا گیا تو دوسرا ناراض ہوجائے گا ۔ چوہدری نثار کو اگر وزیراعظم بناتے ہیں تو ان سے آدھی کابینہ کی بول چال ہی نہیں ہوگی۔ چوہدری نثار کی کابینہ میں خواجہ آصف یا احسن اقبال بیٹھنے کو تیار ہوں گے؟ اگر احسن اقبال یا کوئی اور وزیراعظم بن گیا تو چوہدری نثار اس کے نیچے وزیر بننا پسند کریں گے؟میاں شہباز شریف کے بچوں کو بھی فکر ہوگی کہ وزیراعظم کون ہوگا ۔ آپ لاکھ لاہور پر حکومت کرتے رہیں لیکن حاکم تو وہی کہلائے گا جو اسلام آباد کی مسند پر براجمان ہوگا۔ افغانستان کی مثال لے لیں جہاں بے شک طالبان کے پاس پورا ملک ہو لیکن سربراہ تو وہی کہلاتا ہے جس کا کابل میں خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ فیض احمد فیض کا ایک جملہ نصرت جاوید نے سنایا تھا۔ جب ان سے ایک دفعہ فیض صاحب نے پوچھا آپ کہاں صحافت کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ لاہور تو فیض صاحب بولے برخوردار وہ تو ٹھیک ہے لیکن جرنلزم تو دارالحکومت ہی میں ہوتی ہے ۔
ویسے کیا قسمت پائی ہے اس ملک اور اس ملک کے لوگوں نے کہ جب وزیراعظم کی صاحبزادی انکوائری کے لیے پیش ہورہی تھیں تو ہم ایک دوسرے کو حوصلہ دے رہے تھے کہ فکر ناٹ...آج سے ان کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ ان کی لانچنگ کر دی گئی ہے۔ یہ ہے ہمارا معیار اور ہماری اخلاقیات ، پاکستان میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جب تک آپ پر کرپشن کے درجنوں مقدمات نہ ہوں اور آپ نے جیل نہ بھگتی ہو، آپ سیاستدان نہیں کہلا سکتے۔ یہ وہ سخت معیار ہے جو ہمارے ہاں قائم کردیا گیا ہے۔ جو اس معیار پر پورا نہیں اترتا وہ سیاست میں داخل نہیں ہوسکتا ۔ مطلب کرپشن کرو اور ڈٹ کر کرو اور پھر پکڑے جائو، جیل جائو اور پھر وہاں سے نکلو تو سیدھا پارلیمنٹ پہنچ جائو۔ اب آپ سندیافتہ لیڈر بن گئے ہو ۔
جب میں ان سب کی بڑھکیں اور دھمکیاں سنتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ جنرل مشرف کا پورا دور گزر گیا کہیں کوئی مزاحمت نہ ہوئی ۔ جب مریم نواز جنرل مشرف کو طعنے دے رہی تھیں کہ وہ احتساب سے بھاگ گئے ، اس وقت امیرمقام جنہیں جنرل مشرف نے رمزفیلڈ سے ملنے والے دو پستولوں میں سے ایک تحفے میں دے دیا تھا ،وہیں موجود تھے۔ ویسے جنرل مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی نواز شریف حکومت کا تھا ۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ چاہے تو اجازت دے چاہے تو نہ دے اور پھر اجازت دے ہی دی گئی۔ ہمیں آج تک طعنے سننے پڑتے ہیں کہ جنرل مشرف کا احتساب نہ ہونے دیا گیا ۔
جب سے وزیراعظم نواز شریف، وزراء اور پارلیمنٹ کی بے بسی دیکھی ہے، میں اپنے گائوں کے خدابخش قصائی کو خط لکھ رہا ہوںکہ وہ ہماری مدد کر کے جنرل مشرف کا ٹرائل کرادے کیونکہ ہمارا وزیراعظم ، اس کے بچے اور درباری فریاد کناں ہیں کہ وزیراعظم کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ ہوسکتا ہے میرے گائوں کا خدابخش قصائی ہی اپنی ''ایگزیکٹو پاورز‘‘ استعمال کر کے جنرل مشرف ، جنرل محمود اور دیگر جرنیلوں کا احتساب کرادے۔ دیکھتا ہوں خدابخش قصائی مجھے کیا جواب دیتا ہے۔ جواب ملا تو آپ کے ساتھ بھی شیئر کروں گا ۔ دعا کریں خدابخش قصائی ، اس پر تیار ہوجائے تاکہ بے چارے میاں صاحب کے کمزور کندھوں پر سے یہ بوجھ اتر کر خدابخش قصائی کے توانا کندھوں پر شفٹ ہوجائے۔ براہ کرم دعا کریں کہ خدا بخش قصائی مان جائے۔۔ !