قومی اسمبلی میں منگل کے روز جب شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنانے کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے تھے تو یاد آیا کہ پچھلے پندرہ برس میں میر ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز، محمد میاں سومرو، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور اب نواز شریف کے بعد ساتواں وزیر اعظم اسمبلی سے منتخب ہو رہا ہے۔ اسے جمہوریت کی کامیابی بھی کہا جا سکتا ہے کہ پندرہ برس کے دوران ایک اور نیا وزیر اعظم منتخب ہو رہا تھا۔ ہر دفعہ وہی جوش و جذبہ‘ جو خاقان عباسی کے وقت نظرآرہا تھا۔ وہی دعوے، وہی وعدے اور وہی اعلانات۔ ان پندرہ برسوں میں سات مستقل یا نگران وزیر اعظم آتے جاتے دیکھے۔ سیاست اور گورننس میں بہتری آنے کی بجائے معیار گرتا ہی چلا گیا۔ کہاں سے چلے تھے اور کہاں جا پہنچے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی واحد وزیر اعظم تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کو وقت دیا لیکن ان پر لگنے والے الزامات نے ان کی بہت ساری خوبیوں کو گہنا دیا۔ ہر وزیر اعظم کے گرد ایم این ایز کا گھیرا رہتا تھا۔ ہر ایک کو وزیر اعظم سے کام تھا اور ہر وزیر اعظم نے چند حواری رکھے ہوئے تھے جن کا کام یہ تھا کہ وہ ایم این ایز کو قریب نہ آنے دیں۔ اگر کوئی وزیر اعظم کھلا ڈلاّ نکل بھی آتا تو اس کے حواری اسے سمجھاتے کہ سر جی کیا کر رہے ہیں، انہیں ذرا دور رکھا کریں۔ ذرا رعب پڑتا ہے۔ ایم این ایز کو بھی کبھی اپنی زیادہ فکر نہ رہی۔ انہیں فکر ہوتی تھی تو اپنے چند کاموں کی۔ وزیر اعظم کے گرد ایک ہالا بنا دیا جاتا ہے۔ ایسا امیج بنا دیا جاتا ہے کہ لگتا ہے وزیر اعظم کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی مافوق الفطرت چیز ہیں‘ جس سے نہ کوئی بات ویسے اور نہ ہی پارلیمانی کمیٹی میں کھڑا ہو کر پوچھ سکتا ہے۔ ایم این اے اسدالرحمن نے نواز شریف صاحب سے ایک سوال کیا تو اسے گستاخی تصور کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک سال تک پاناما سکینڈل چلتا رہا۔ کسی ایم این اے کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ پوچھ سکے کہ اس لیول کی کرپشن وزیر اعظم اور ان کے خاندان نے کیسے کر لی تھی۔ اب آپ کو پتہ چلا ہو گا کہ نواز شریف سے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اسدالرحمن کو سوال کرنے پر کیوں عبرت کا نشان بنایا گیا تھا۔ اس لئے کہ کسی اور کو جرأت نہ ہو۔ اور واقعی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔ ایک چوہدری نثار علی خان نے کچھ جرات کی اور کچھ آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔ ایسے لوگ کم ہی حکمرانوں کو ہضم ہوتے ہیں۔
ویسے جس طرح ایک نئے وزیر اعظم کا انتخاب کیا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں جس جمہوریت کی ہم بات کرتے ہیں، اسے آنے میں کافی عرصہ لگے گا یا ہو سکتا ہے کہ ابھی ایسے ہی کام چلتا رہے جیسے صدیوں تک بادشاہوں کا سلسلہ چلا۔ آپ اس سے اندازہ کر لیں کہ نواز شریف ایک دن نااہل ہوئے اور دوسرے دن پارلیمانی پارٹی کی بجائے انہوں نے نئے وزیر اعظم کا اعلان کر دیا۔ سب نے تالیاں بجائیں۔ اب رائے ونڈ کی بجائے مری دربار لگ گیا ہے جہاں سابق وزرا جا رہے ہیں، دربار سے فیض پانے۔
میرا پچھلے پندرہ سالوں کی پارلیمنٹ رپورٹنگ کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی کوشش ہر سیاسی پارٹی اور ہر وزیر اعظم کرتا آیا ہے۔ طاقتور پارلیمنٹ کسی پارٹی یا وزیر اعظم کو سوٹ نہیں کرتی۔ جنرل مشرف نے اگرچہ پارلیمنٹ بنا لی تھی لیکن اس نے اس پارلیمنٹ کو اپنے فوجی بوٹ کے نیچے دبا کر رکھا۔ پوری کرپٹ سیاسی کلاس اٹھا کر کابینہ میں شامل کر دی۔ نیب کے ذریعے کرپشن کو قانونی اور جائز قرار دلا کر حکمرانی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن کے خلاف کچھ لوگوں میں اگر ردعمل باقی تھا تو وہ بھی نہ رہا۔ نیب نے جسے پکڑا اس نے مشرف کے دربار میں جا کر حلف لے لیا تو سب کرپشن ختم... یوں مشرف دور سے کرپشن جائز قرار پائی۔
مشرف دور کے بعد آنے والے وزیر اعظم بھی پارلیمنٹ کو وہ درجہ نہ دلا سکے جس کی یہ پارلیمنٹ حق دار تھی۔ جب اٹھارویں ترمیم میں یہ شق شامل کر دی گئی کہ پارٹی لیڈر جب چاہے اپنے کسی بدتمیز یا باغی ایم این اے کو نااہل کرانے کے لیے ایک خط الیکشن کمشن کو لکھ کر جان چھڑا سکتا تھا تو پھر کس ایم این اے میں جرأت تھی۔ پارلیمنٹ کی برتری تو اس دن ختم کر دی گئی جب پارلیمانی لیڈر کو یہ اختیار دیا گیا وہ ایم این اے کو فورا گھر بھجوا دے۔ یہ وہ جمہوریت تھی جس کا ماتم ہمارے لبرل کر رہے ہیں کہ سب کی زبان قانونی طور پر بند کرا دی گئی؟
اس بات پر نواز شریف اور زرداری کے درمیان اتفاق تھا کہ کوئی بھی ہمارے فیصلوں یا کاموں پر انگلی اٹھائے گا تو ہم اسے ایسی سزا دلوائیں گے کہ وہ دوبارہ سیاست میں نہیں گھس سکے گا۔ میں اس دن ہائوس میں موجود تھا جب خوفزدہ ایم این ایز نے اپنے ہاتھوں پر خود ہتھکڑی لگا لی تھی۔ مجھے یاد ہے کشمالہ طارق اور جاوید ہاشمی نے اس کلاز کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ جب وہ احتجاج کر رہے تھے تو باقی ایم این ایز اپنے ہاتھ اوپر کرکے ہنس رہے تھے کہ وہ کون بیوقوف ہیں جو انہیں زنجیروں سے آزادی کا درس دے رہے ہیں۔ بعض سیاسی لیڈر بڑے لیول پر وارداتیں ڈالتے ہیں اور چھوٹے لیول پر ایم این ایز کو ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں۔ لوٹتے دونوں ہماری جیبوں سے ہیں۔ لیڈر اور ان کے جانثاروں میں یہ فرق ہے، لیڈر پورا اونٹ ذبح کرتا ہے جبکہ جان نثاروں کو وہ پائو گوشت کھلا کر پانچ سال اپنی پیچھے دوڑاتے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا کہ نواز شریف کو ہٹانے کا مطلب پارلیمنٹ پر حملہ ہے‘ درست نہیں۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہمیشہ پارلیمنٹ کے اندر سے ہی ہوتا رہا ہے اور کرنے والے ان سیاسی جماعتوں کے لیڈرز ہوتے ہیں اور کسی میں جرات نہیں ہوتی وہ آواز بلند کر سکے۔ جب نئے وزیر اعظم کے حلقے سے آئے سینکڑوں لوگ پارلیمنٹ کی گیلری میں اپوزیشن ارکان اسمبلی کو گالیاں دے رہے تھے اور سپیکر ایاز صادق انہیں روکنے کی اداکاری کر رہے تھے تو واضح تھا پارلیمنٹ کی بے توقیری وہ خود کرا رہے تھے۔
اکثریت کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ بادشاہ سلامت اوپر کیا کررہے ہیں۔ انہیں اس سے غرض ہے انہیں اس لوٹ مار میں کیا مل رہا ہے۔ اور ان میں سے اکثریت کی قیمت بہت کم ہوتی ہے... اتنی کم کہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔
ویسے جو دانشور ماتم میں مصروف ہیں ان سے پوچھنا ہے جب وزیراعظم کا احتساب پارلیمنٹ نہیں کرے گی تو پھر سپریم کورٹ ہی کرے گی۔ اگر کوئی حکمران پورا ملک لوٹ لے اور اس کا احتساب سپریم کورٹ یا کوئی اور ادارہ نہ کر سکے تو پھر بہتر ہو گا کہ جیسے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر سے پابندی ہٹائی گئی، خیبر پختون خوا کو نام دیا گیا، صوبوں کو اتنی آزادی دی گئی کہ وہ تقریباً آزاد ہیں تو اسی طرح کسی دن سپریم کورٹ کو بھی پارلیمنٹ سے آئین میں ترمیم کرا کے ختم کر دیا جائے۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری... گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ مرزے یار پھرن۔
ویسے جس دن سپریم کورٹ ختم کرنے کی شق پیش ہو رہی ہو اسی دن میری فرمائش پر پاکستان میں برطانیہ، ناروے، جاپان کی طرز پر ایک بادشاہ کی سیٹ بھی پیدا کی جائے۔ ہم اس خطے کے لوگ جمہوریت نہیں بادشاہوں، بتوں، شخصیتوں کے غلام ہیں۔ بادشاہوں کے آگے سر جھکانے، فرشی سلام کرنے اور درباری بننے کے ہمارے صدیوں پرانے ٹھرک کو جمہوریت ختم نہیں کر سکتی۔ یہ پارلیمنٹ ہمیں اور تو کچھ نہیں دے پائی، ایک آئینی بادشاہ ہی دے جائے۔ پہلی آئینی تقرری نواز شریف کی جائے تاکہ وہ مری کی بجائے اسلام آباد دربار لگا سکیں۔ ہمارا صدیوں پرانا ٹھرک پورا کرنے کے لیے ہمارے بادشاہ ہمیں لوٹا دو...پلیز!