نواز شریف خاندان اب جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے بعد نیب کے افسران کے سامنے پیش ہورہا ہے۔ جو افسران کبھی ان کے در پر نوکریاں اور پوسٹنگ لینے کے لیے قطار بنا کر کھڑے ہوتے تھے، آج وہ اسی خاندان سے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے اتنا مال کیسے بنا لیا؟۔وقت بھی اپنی چال کیسے بدلتا ہے۔ کیسے تخت سے تختہ ہوتا ہے...اسی لیے کہا گیا کہ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں اگر وہ سمجھنا چاہیں۔
دس برس گزر گئے۔ پتہ ہی نہیں چلا۔ یوں لگتا ہے بس آنکھ جھپکی تھی۔ دس سال پہلے نواز شریف لندن میں بیٹھ کر انقلاب لانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ آکسفورڈ اسٹریٹ میں واقع ان کے دفتر میں ایک دربار لگتا تھا ،جس میں ایک لمبا واعظ کیا جاتا تھا اور جمہوریت کے فوائد عیاں کیے جاتے ۔ پورا مجمع خاموشی اور احترام سے جدید انقلابی کی باتیں سنتا...کوئی پاکستان سے پہنچتا تو میاں صاحب پاکستان کے حالات سنتے اور پھر تان اسی بات پر ٹوٹتی کہ جب تک ملک میں وہ نہیں ہوں گے پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ اپنے ان پرانے ساتھیوں کووہ برا بھلا کہتے جو جنرل مشرف کے ساتھ مل گئے تھے۔کئی دفعہ ان کے منہ سے سنا‘جا کر پاکستان میں بتا دو کہ نواز شریف نے لوٹوں کی دکان بند کردی۔ اب نواز شریف پاکستان میں انقلاب کے لیے کام کرے گا '' میاں دے نعرے وجن گے‘‘ جیسا ماحول پیدا ہوجاتا دنیا بھر کی تاریخ اور تاریخی واقعات سنائے جاتے۔
ایک مرتبہ نواز شریف بتانے لگے، جب وہ کراچی جیل میں قید تھے تو ٹی وی پر بھارت کے پانچ سابق وزیراعظم ایک ٹی وی شو میں موجود تھے، جو آزادی کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر مذاکرے میں شریک تھے۔ ان پانچوں سے پوچھا گیا آزادی کے بعد اب تک ہندوستان کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟ ان پانچوں نے ایک ہی جواب دیا ،جمہوریت۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کوئی وزیراعظم یہ نہیں کہہ سکتاکیونکہ پاکستان میں جمہوریت کو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا ۔ اگر انہیں موقع ملا تو وہ نئی شروعات کریں گے‘ فوجی حکمرانوں کی باقیات کو ختم کریں گے۔
ہمارے جیسوں کو بیوقوف بنانے کے لیے چارٹر آف ڈیموکریسی تیار کیا گیا۔ ایک پورا ڈرامہ سٹیج ہوا۔ ڈرامے میں رنگ بھرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی طرف سے اصرار کیا گیا کہ نواز شریف معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے رحمن ملک کے گھر تشریف لائیں ۔ رحمن ملک خوش تھے کہ جس نواز شریف نے انہیں ڈیڑھ سال اڈیالہ جیل میں قید رکھا اور تشدد کرایا ،آج ان کے گھر چل کر آرہے تھے۔شریفوں کو بھی پتہ تھا کہ یہ وہی رحمن ملک تھا جس نے ان کے والد میاں شریف کو ایف آئی اے سے گرفتار کرایا تھا۔ وہی رحمن ملک جس نے ایف ائی اے کی رپورٹ تیار کی تھی جس میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ کیسے شریف خاندان نے پاکستان سے لوٹ مار کر کے لندن کی قاضی فیملی اور امریکہ کی شیخ سعید فیملی کے جعلی بینک اکاونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تھی۔ وہ رحمن ملک جس نے پہلی دفعہ لندن کے فلیٹس کی کہانی کو بے نقاب کیا تھا ۔ آج اسی رحمن ملک کے گھر نواز شریف اور شہباز شریف پہنچے تھے کیونکہ اس میں انہیں اپنا سیاسی فائدہ نظرآرہا تھا۔ سیاست اور کاروبار سے جڑے مفادات بھی کتنے ظالم ہوتے ہیں! نواز شریف اور شہباز شریف رحمن ملک کے گھر گئے تاکہ پاکستان کے لوگوں کو بتایا جائے کہ ہم بدل گئے ہیں۔ سب کو پتہ تھا پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے پارٹی کے لوگ ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے ہیں۔ جس رحمن ملک کے گھر چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے گئے ، وہ چند برس بعد بحیثیت وزیرداخلہ پریس کانفرنس میں بتا رہے تھے کہ نواز شریف کے خلاف انہوں نے
انٹرپول کی مدد مانگ لی ہے تاکہ لندن میں ان کی ناجائز جائیدادکا تخمینہ لگایا جاسکے۔ وہی انقلابی نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر جنرل پاشا اور جنرل کیانی کی ہدایت پر میمو گیٹ پر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف جنرل کیانی سے رات گئے خفیہ ملاقاتیں کرتے تھے۔ جنرل مشرف کے قریبی ساتھی عظیم طارق، ماروی میمن، دانیال عزیز، سکندر بوسن، امیر مقام ، زاہد حامد ، نواز شریف کے ساتھی بن گئے۔سارا انقلاب ہوا ہوگیا ۔ اقتدار مل گیا تو شروع میں کچھ دن نعرے لگائے ‘ہر پندرہ دن بعد کابینہ کے وزراء کی کارگردگی کا جائزہ لیا جائے گا ۔ ایک کمیشن بنایا گیا جس کا سربراہ ایک نیک نام بیوروکریٹ رئوف چوہدری کو لگایا گیا کہ وہ اچھے لوگ چن کر بڑے عہدوں کے لیے سفارش کریںلیکن پھر نہ رئوف چوہدری رہے نہ کمیشن رہا اورنہ کابینہ کے اجلاس ۔ نواز شریف نے لندن کے تیس اور پوری دنیا کے ایک سو سے زائد دورے کئے ۔ ڈیڑھ ارب روپے ان کے دوروں پر لگ گئے ، صرف لاہور میں شریف خاندان کی سکیورٹی پر دس ارب روپے خرچ ہوگئے۔ مری میں گورنر ہاوس، جہاں جا کر شریف خاندان ٹھہرتا ہے ، کی پچاس کروڑ روپے سے آرائش کی گئی۔پارلیمنٹ ایک ایک سال نہ گئے، کابینہ کے اجلاس نہ ہوئے، اسحاق ڈار ہی وزیراعظم بن گئے۔ ایکسپورٹس ،جو پیپلز پارٹی چوبیس ارب ڈالرز تک چھوڑ گئی تھی ،بیس ارب ڈالرز تک آگئیں۔ آزادی کے بعد دو ہزار تیرہ تک کل بیرونی قرضہ چالیس ارب ڈالر تھا، نواز شریف نے چار سال میں ہی 35 ارب ڈالر قرض لے لیا۔دینا کے مہنگے ترین قرضے لینے کا رواج ڈالا۔ پاکستانی بینکوں سے دھڑا دھڑا مہنگے قرضے لے کر ان کے مالکوں کو ارب پتی بنا دیاگیا ۔ ہائیڈل پاور ماضی کی کہانی بن گیا، تیل پر آئی پی پی ایز لگا کر اربوں روپے سرکلر ڈیٹ کے نام پر ادا ہونے لگے، رہی سہی کسر قطر سے مہنگی گیس لے کر پوری کردی ،کچھ باقی تھا تو ایک پرائیویٹ کمپنی کو فلوٹنگ ٹرمینل کا ٹھیکہ تیس ملین ڈالر کی بجائے ایک سو تیس ملین میں دے کر دس ارب روپے اس میںسے کمائے گئے اور معاہدے میں ایک اور کلاز شامل کی گئی کہ اگر ٹرمینل استعمال نہ ہوا تو روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر پاکستانی حکومت اس کمپنی کو ادا کرے گی۔ اس کمپنی نے تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری کے بدلے ایک سو ارب روپے سالانہ کا چھکا پندرہ سال تک مارا ... ایک طرف اربوں ڈالر کا قرضہ پاکستان آتا گیا اور دوسری طرف ایل این جی ٹرمینل کے نام پر ایک پرائیوٹ کمپنی کو روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر کا سرمایہ جاتا رہا اور پندرہ برس جاتا رہے گا ۔
اور آج برطرف ہونے کے بعد پھر انقلاب یاد آگیا ہے۔فرماتے ہیں ،پاکستان ترقی کی راہ پر دوڑ رہا تھا ۔ نواز شریف پھر نظریاتی بن گئے ہیں۔ انہیں دیر سے پتہ چلا کہ وہ تو مازوے تنگ ، لینن اور چی گویرا لیول کے انقلابی ہیں۔ ان کا ٹیلنٹ وزیراعظم ہاوس میں ضائع ہورہا تھا ۔ ان کی صلاحیتیں پوری طرح استعمال نہیں ہوئی تھیں ۔ تین دفعہ وزیراعظم رہنے کے بعد وہ انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ ہر دفعہ انہیں یہ گلہ رہتا ہے کہ انہیںمدت پوری نہیں کرنے دی جاتی۔بچوں نے دنیا بھر میں جائیدادیں بنا لیں۔ خود نواز شریف ارب پتی بن گئے۔پورے خاندان کی جائیدادیں پانچ براعظموں میں پھیلی ہیں۔ اس کے باوجود فرماتے ہیں انہیں پورا موقع نہیں ملا ورنہ پاکستان کی قسمت بدل دیتے۔
نواز شریف نے اب ماوزے تنگ ، لینن اور چی گویرا جیسا انقلابی بن کر انقلاب لانا ہے۔کیا قسمت ہے پاکستان کی کہ اسے پہلا چی گویرا جیسا انقلابی لیڈر ملا بھی تو ارب پتی اور اس کے بچے کھرب پتی ۔۔!