سپیکر ایاز صادق غصہ کرگئے ہیںکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیوں کہا کہ میں نواز شریف کا وفادار ہوں ۔
ایاز صادق کو میں دو ہزار دو سے جانتا ہوں۔ اُن میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ خود سے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجیں کہ وہ اپنے جج کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ انہیں نواز شریف کا وفادار ٹھہرایا گیا ہے۔
ویسے وقت کیسے پلٹا کھاتا ہے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ نواز شریف کا سب سے زیادہ وفادار یہ لکھ کر عدالت کو بھیجے گا کہ اس جج کے خلاف کارروائی کی جائے جس نے انہیں وفادار کہنے کی جرات کی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کھوسہ صاحب نے یہ الفاط تو بیس اپریل کو اپنے فیصلے میں لکھے تھے ، سپیکر ایاز صادق تک ان کی ججمنٹ ‘ تین ماہ بعد پہنچی ہے یا اس انگریزی میں لکھی گئی ججمنٹ کا متن اب سمجھ میں آیا ہے یا کسی نے ترجمہ کر کے انہیں مطلب سمجھایا کہ وفادار کون ہوتا ہے اور کسے وفادار کہتے ہیں ؟ ایاز صادق کو یہ احساس کب ہوا کہ وہ نواز شریف کے وفادار نہیںاور اگرانہیں وفادار کہا جائے گا تو اسے گالی سمجھا جائے گا۔ لہٰذاجس جج نے انہیں گالی دی ہے انہیں برطرف کر کے سزا دی جائے؟ میں پندرہ سال سے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کررہا ہوں۔ میں نے اب تک جو سپیکر دیکھے ہیں، انہوں نے اپنی پارٹی حکومت اور وزیراعظم کی خوشنودی پر ہی ہائوس چلایا ا ور اس کا وقار کم کیا‘ ایاز صادق بھی انہی میں شامل ہیں ۔ عامر متین کہہ رہے تھے کہ پاکستانی تاریخ میں شاید جنرل مشرف دور کے امیر حسین سے بدتر سپیکر کوئی نہیں آئے گا لیکن ایاز صادق کی پچھلے چار سال کارگردگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امیر حسین کافی بہتر تھے۔ ہائوس کا جتنا معیار اور عزت واحترام ان چار برسوں میں نیچے گیا ہے وہ کبھی نہیں گیا ۔ جس پارلیمنٹ میں نواز شریف ایک سال تک نہ گئے ، جہاں کوئی وزیر بیٹھنے کو تیار نہ ہو، سپیکر کئی خط وزیراعظم کو لکھ چکا ہو کہ آپ اپنے وزرا کو وقفہ سوالات میں بیٹھنے کا پابند کریں اس کے باوجود کوئی بھی سپیکر کو سنجیدہ نہ لے تو باقی کیا بچتا ہے؟ چلیں وزیراعظم اور وزیر تو بہت اوپر کی چیزیں ہیں، جس ہائوس کے سربراہ ایاز صادق ہیں وہاں تو چوراسی ایم این ایز بھی بیٹھنے کو تیا رنہیں، جب بھی اجلاس ہوتا ہے تھوڑی دیر بعد کورم ٹوٹ جاتا ہے۔
اس ہائوس میں کیا کچھ ہوا جس کو ایاز صادق نہ سنبھال سکے۔ ایک اجلاس وہ اوپر کرسی پر بیٹھ کر چلا رہے ہوتے ہیں اور دوسرا ''اجلاس ‘‘نیچے ہال میں ایم این ایز نے لگایا ہوتا ہے۔ کتنی لڑائی مارکٹائی ان کے دور میں ہوئی ۔ ایم این ایز نے ایک دوسرے کو ہاوس کے اندر اور باہر مارا ۔ ایاز صادق ہر اہم بات پر پہلے حکومتی بینچوں پر چوہدری نثار، اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق کی طرف دیکھتے کہ اب کیا کرنا ہے۔ باقی چھوڑیں وہ شیخ رشید کو مائیک دینے سے ڈرتے کہ پتہ نہیں شیخ رشید کیا کہہ دیں۔
جہاں تک نواز شریف کے ساتھ وفاداری کا سوال ہے‘ جس پر اعتراض ہوا تھا تو سپیکر صاحب کی یاداشت تازہ کرنے کے لیے کہنے میں حرج نہیں کہ سب سے زیادہ تنقید ان پر اس وقت ہوئی جب اپوزیشن اور حکومت نے نواز شریف اور عمران خان کے خلاف سپیکر کو ریفرنس بھیجے تھے۔ ایاز صادق نے عمران خان کے خلاف ریفرنس فوراً الیکشن کمیشن کوبھیج دیا ‘ جب کہ نواز شریف کے خلاف ریفرنس کو مسترد کر دیا۔ اور وفادار کسے کہتے ہیں؟ جب قومی اسمبلی میں شورشرابہ ہوا کہ جناب آپ جانبداری سے کام لے رہے ہیں تو فرمایا یہ میری صوابدید ہے۔
جسٹس کھوسہ نے تو سپیکر پر ہاتھ ہولا رکھا ورنہ جو کچھ سپیکر کے بارے میں ہاوس میں اپوزیشن نے کہا وہ اگر پوری قوم سن لے تو سب کے سر شرم سے جھک جائیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا کیسے‘ اس لیے کہ سپیکر پارلیمنٹ کا تقدس یقینی نہ بنا سکے۔ چھ ماہ تک پارلیمنٹ کے اندر بحث ہوتی رہی کہ پاناما سکینڈل پر اگر کمیٹی بنی تو اس کی ٹی او آرز کیا ہوں گی۔ سب کو پتہ تھا کہ یہ سب ڈرامہ تھا۔ حکومت سنجیدہ نہیں تھی۔خواجہ آصف نے فرمایا تھا ،میاں صاحب فکر ناٹ، کچھ دنوں بعد لوگ پانامابھول جائیں گے۔سپیکر ہائوس کا تقدس برقرار نہ رکھ سکے تھے۔ وہ پارٹی بن چکے تھے اس لیے انہوں نے جہاں ٹی او آرز کے معاملے پر کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کیا وہاں انہوں نے نواز شریف کے خلاف ریفرنس بھی مسترد کر کے ثابت کیا کہ ان کی پہلی اور آخری وفاداری نواز شریف کے ساتھ ہے۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ وہ عمران خان اور نواز شریف دونوں کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجتے لیکن انہوں نے اُس وزیراعظم کو بچا لیا جس نے انہیں سپیکر کی کرسی پر بٹھایا تھا، اب وہ فرماتے ہیں کہ انہیں وفادار نہ کہا جائے۔
کچھ دن پہلے لاہور میں سپیکر نے فرمایا تھا کہ نااہلی کے باوجود ان کا وزیراعظم نواز شریف ہے۔ کیا ایاز صادق قوم کو بتائیں گے جس قانون کا وہ خود احترام نہیں کرتے اس قانون کے تحت وہ جسٹس کھوسہ کے خلاف کارروائی کیوںچاہتے ہیں؟ جب ملک کا قانون نواز شریف کو برطرف کرچکا اور قانون کے تحت نیا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی حلف اٹھا چکا تو پھر سپیکر قومی اسمبلی کس قانو ن کے تحت نواز شریف کو وزیراعظم سمجھتے ہیں؟
تو یہ طے کر لیا گیا ہے اس ملک کے وہ قانون ہمیں اچھے ہیں جن کے تحت ہم ایم این اے، وزیر، سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم بن سکتے ہیں، اربوں روپوں کی عیاشیاں کرسکتے ہیں ، دنیا بھر کے مفت سیر سپاٹے کر سکتے ہیں،ہمارے بچے ارب پتی بن سکتے ہیں لیکن وہ قانون جن کے تحت ہمارا احتساب ہوسکتا ہے‘ ہمیں سزا ہوسکتی ہے، وہ برے ہیں اور ایسے ججوں کو برطرف کردیا جائے جو ایسے قوانین کو فالو کریں؟
تقدیرنے بھی ہمیں کیا کیا دکھانا ہے ۔ وہی نواز شریف جو دن رات یہ ورد کرتے تھے کہ جنرل مشرف دور میں سیاسی لوگوں نے ان سے وفاداری نہیں کی تھی، جو بغیر وفاداری کسی کو کوئی عہدہ تک نہیں دیتے تھے‘ وہ آج اپنے سپیکر کو خود سپریم کورٹ بھیج رہے ہیں کہ جائو سب کو بتائو کہ تم نواز شریف کے وفادار نہیں ہو۔کیونکہ اس میں سیاسی فائدہ ہے۔ سیاسی فائدے کے لیے نواز شریف کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ۔ ویسے داد دیں ایاز صادق جیسے وفاداروں کو جو چند دن پہلے لاہور میں فرما رہے تھے کہ نواز شریف آج بھی ان کا وزیراعظم ہے، آج جزبز ہیں انہیں وفادار کیوں کہا گیا؟
نواز شریف کو علم نہیںکہ ان کا بُرا وقت شروع ہے اور وہ جو بھی قدم اٹھائیں گے،ان کے خلاف جائے گا ۔کوئی درباری اور خوشامدی اپنے برطرف بادشاہ سلامت کو سمجھائے کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔ سمجھدار لوگ بُرا وقت آنے پر ایک طرف بیٹھ کر اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ سرائیکی کا محاورہ ہے ''بندے کا برا وقت چل رہا ہو تو اُونٹ پر بھی بیٹھا ہو تو بھی اسے کتا کاٹ لیتا ہے ۔
کمال ہے‘ اب نواز شریف سے ''وفاداری‘‘ بھی ایاز صادق جیسے بندے کے لیے گالی ٹھہری۔ وہ ایاز صادق جو خود شریف خاندان کی وفاداری کی طویل اور تھکا دینے والی سیڑھیاں چڑھ کر سپیکر کی کرسی پر بیٹھے ۔
اس سے برا وقت تنہا، ناراض اور چڑچڑے نواز شریف کے لیے اور کیا ہوگا ... قرب قیامت کی نشانیاں اور کیا ہوں گی؟