نواز شریف صاحب کو داد تو دینا پڑے گی کہ انہوں نے ان طبقات کو ایکسپوز کر دیا ہے‘ جو کبھی ان کے خلاف تھے اور ان کی کلاس کے خلاف لڑتے تھے۔ آج وہ نواز شریف خاندان کی مالی کرپشن کا دفاع کرنے کے لیے لڑتے ہیں۔
ایک دور تھا جب میرے جیسے نام نہاد انقلابی پشتون، بلوچ، سندھی قوم پرستوں کی باتوں سے متاثر ہوتے تھے۔ انہیں اپنی آئیڈیل ورلڈ کا نمائندہ سمجھتے تھے۔ قومی اسمبلی میں جب محمود خان اچکزئی کھڑے ہوتے تھے‘ تو چار سُو خاموشی چھا جاتی تھی۔ پارلیمنٹ سے پریس گیلری تک مکمل خاموشی۔ اب جب وہ بولنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں‘ تو پارلیمنٹ اور پریس گیلری‘ دونوں خالی ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے جب سے نواز شریف سے دوستی فرمائی ہے‘ اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔
بلوچ سیاستدان محمد مالک کی بلوچستان میں حکومت بنی تو یہی کہا گیا کہ یہ سب سے بڑا انقلاب ہے‘ اور اس کا سہرا نواز شریف کے سر باندھا گیا۔ اس سہرے میں سے ایسی کرپشن نکلی کہ سب توبہ توبہ کر اٹھے۔ وہ بلوچ قوم پرست‘ جو اپنی قوم کی حالت سدھارنے نکلے تھے‘ خود اپنی حالت سدھار کر دوبئی نکل گئے۔ بلوچ قوم کسی اور مسیحا کے انتظار میں ہے۔ سندھ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مجھے یاد ہے میجر عامر کے گھر سندھی قوم پرست مجھ سے الجھ پڑے تھے کہ نواز شریف سے بڑا لیڈر پیدا نہیں ہوا‘ اور اب ان کے ساتھ الحاق کرکے وہ سندھ میں انقلاب لائیں گے۔ میں یہ کہنے کی جرات کر بیٹھا: یہ الحاق دراصل آپ نواز شریف کے ساتھ اس لیے کر رہے ہیں کہ سرائیکی علاقوں میں کوئی نیا صوبہ نہ بنے اور سندھ میں پنجابی آباد کاروں کے ووٹ شاید آپ کی جھولی میں آن گریں۔ آپ نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ کو لگتا ہے اگر پنجاب میں نیا صوبہ بنا تو سندھ میں بھی آواز اٹھے گی۔ لہٰذا نواز شریف آپ کو سوٹ کرتا ہے جو بارہ کروڑ آبادی کے صوبے کو نئے صوبوں میں تقسیم نہ ہونے دے۔ ویسے آپ سب سندھی‘ سرائیکی بھائی بھائی کی گردان کرتے ہیں‘ لیکن بیٹھتے نواز شریف پارٹی کی گود میں ہیں‘ جو جنوبی پنجاب میں استحصال کی ذمہ دار ہے۔ میں نے کہا تھا: نواز شریف کو الیکشن جیتنے دیں‘ یہ آپ کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ وہی ہوا الیکشن کے بعد انہی صاحب کو سندھ میں نواز شریف کے خلاف تقریر کرتے سنا۔ ممتاز بھٹو کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
قوم پرست یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ آپ اپنا دامن اس وقت تک بچا سکتے ہیں جب تک اقتدار سے دور رہیں۔ ایک دفعہ اقتدار کا چسکا لگ جائے تو پھر اصلیت باہر آ جاتی ہے۔ قوم پرستوں کی اس وقت تک ساکھ بچی ہوئی تھی جب تک وہ اقتدار سے دور تھے۔ جونہی نواز شریف نے انہیں پاور دی، وزارتیں دیں‘ وہ بھی کروڑں روپوں کی گاڑیوں پر سوار ہوئے‘ تو انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اب تک جھک ماری تھی۔ انہی قوم پرستوں کے دور میں بلوچستان میںسیکرٹری خزانہ کے گھر سے اربوں روپے کیش برآمد ہوا اور کئی کہانیاں باہر نکلیں کہ کون کون سے قوم پرست فرشتے مال بنانے کے اس کھیل میں شریک تھے۔ یہی کچھ اے این پی کے قوم پرستوں کے ساتھ ہوا۔ ان کی حکومت میں خیبر پختون خوا میں سکینڈلز سامنے آئے۔ بندہ حیران ہوتا ہے کہ جو پشتون قوم کی حالت بدلنے نکلنے تھے‘ انہوں نے دوبئی میں ڈالروں میں پیسے لیے۔ پشتون کو ایک دفعہ پھر بیچ دیا گیا تھا۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ نواز شریف کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کی پڑھی لکھی اور لبرل کلاس کو کرپشن کے دفاع پر لگانا ہے۔ مجھے تو اب ان بے چارے پاکستانی لبرلز پر باقاعدہ ترس آنا شروع ہو گیا ہے۔ جس نواز شریف کی لوٹ مار کے خلاف یہ لبرل بنے تھے‘ اب اسی کے ترجمان بن چکے ہیں۔ نواز شریف صاحب کو ایک گُر اچھی طرح آتا ہے۔ یہ کہ لوگوں کو کرپٹ کیسے کرنا ہے۔ سب لوگوں کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پیسے پر نہیں بکتے تو انہیں تھوڑی سی اہمیت دے کر خرید لو۔ انہیں چائے پر بلا کر تعریفیں کریں، آسمان پر چڑھا دیں، محفل میں ان کا نام لے لے کر ذکر کریں‘ وہ پھولے نہیں سمائیں گے۔ یہی صحافی، اینکر اور کالم نگار پھر آپ کو دنیا جہاں کے مشورے دیں گے۔ خود بے شک میری طرح ان سے اپنا گھر نہ چلتا ہو‘ لیکن آپ کو حکومت چلانے کے دس سنہری اصول ضرور بتائیں گے۔ چاہے وہ پچھلے چار سال نواز شریف کے خلاف کالم لکھتے رہے ہوں۔ ٹی وی پر بولتے رہے ہوں‘ لیکن اگر بلاوا آ جائے کہ جناب آپ ہمیں گائیڈ کریں تو وہ سب دانشوری اور آدرش بھول کر‘ دربار میں پہنچ کر‘ آپ کو اور آپ کے خاندان کو مشوروں کی پوٹلی دے آئیں گے۔
یہ کرائے کے لبرلز، اور اینکرز اور کالم نگار کبھی ان لوگوں کو منہ پر کہنے کی جرات نہیں کریں گے کہ آپ کو یہ سب لوٹ مار کرتے شرم نہیں آئی۔ آپ کے حوالے ملک کیا گیا، امانت سونپی گئی‘ لوگوں نے آپ پر اعتبار کیا‘ اور الٹا آپ ان کا مال لوٹ کر پانچ براعظموں میں لے گئے۔ شرم محسوس کرنے کے بجائے الٹا آپ ہم سے پوچھتے ہیں کہ بچت کا طریقہ بتائو‘ اور توقع رکھتے ہیں کہ ہم آپ کے حق میں ٹی وی پر بولیں گے، آپ کی کرپشن کو جمہوریت کی بقا کے ساتھ جوڑیں گے؟
کیا کبھی کسی کرائے پر دستیاب لبرل یا رائٹ ونگ کے کالم نگاروں اور دانشوروں نے نواز شریف یا ان کی صاحبزادی‘ جو انہیں مشوروں کیلئے بلاتے ہیں، کے منہ پر کہنے کی جرات کی کہ انہوں نے قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے؟
ویسے پاناما سے ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ پاکستان میں تعلیم اور شعور آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ آپ لندن رہتے رہے ہوں، آپ دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے پڑھتے رہے ہوں، یا مدرسے کے تعلیم یافتہ ہوں، دنیا جہاں کا علم ہو لیکن پھر بھی کرنا آپ نے ٹی وی پر نواز شریف کی کرپشن کا دفاع ہی ہے۔ ویسے ان سب کا بیک گرائونڈ دیکھیں تو حیرانی ہو گی۔ زیادہ تر غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز کے نمائندے ہیں‘ بیرونی فنڈنگ سے گھر چلا رہے ہیں یا پھر ان کے ادارے بڑے بڑے اشتہارات لے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس معاشرے میں تبدیلی کے لیے کام کرنا تھا۔ وہ تبدیلی تو گئی بھینس کی طرح پانی میں۔ آج کل یہ سب ہمیں کرپشن کے فضائل پر لیکچر دے رہے ہوتے ہیں۔ عوام میں شعور جاگنے لگا‘ تو ان سب کو پریشانی لاحق ہوگئی اور پوری قوم کو سمجھایا جا رہا ہے کہ جمہوریت میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ درستی میں صدیاں لگتی ہیں۔ ویسے جتنی محنت یہ سب کرائے پر دستیاب لبرلز قوم کو سمجھانے پر کر رہے ہیں‘ اگر اتنی محنت یہ نواز شریف کو سمجھانے پر کرتے کہ جناب! رحم کریں‘ آپ نے بہت مال بنا لیا‘ اس ملک کے اداروں کو تباہ کیا‘ سب کو کرپٹ کیا، کوئی ادارہ نہیں رہنے دیا جو اپنا کام کر سکتا ہو‘ ہر جگہ ایسے ایسے لوگ بٹھا دیے‘ جو ریاست کو اپنے گھٹنوں پر جھکا چکے ہیں‘ تو شاید حالات آج کی نسبت بہتر ہوتے۔ آپ ان بھاڑے کے ٹٹوئوں سے ان اداروں کی ناکامی پر بات نہیں سنیں گے‘ جنہیں نواز شریف نے تباہ کیا۔ تان اس پر ٹوٹے گی کہ نواز شریف جمہوریت کو مضبوط کر رہے تھے‘ اب کمزور ہو گئی ہے۔ وہ پارلیمنٹ‘ جہاں نواز شریف صاحب نہیں جاتے تھے‘ یا جہاں کابینہ اجلاس نہیں ہوتے تھے۔ وہ جو اتنا عرصہ پاکستان نہیں رہے‘ جتنا بیرون ملک گزارا۔
یہ قوم جب بھی غلامی سے نکلنے کی کوشش کرنے لگتی ہے تو بھاڑے کے ٹٹو اور کرائے کے لبرلز انہیں ڈرانے لگ جاتے ہیں۔ ای او بی آئی سکینڈل میں جس طرح کرائے کے لبرلز کو فیس کے نام پر لمبا مال کھلایا گیا‘ اس کی تفصیلات آپ کے ساتھ کسی دن شیئر کروں گا‘ تو بہت سے لبرلز ایکسپوز ہوں گے۔ ان سب کی رائے کتنی میں بکتی ہے اور نواز شریف صاحب نے قوم پرستوں سے لے کر میڈیا، کرائے کے لبرلز، کرائے پر دستیاب وکیلوں، دانشوروں، سرکاری افسران کو کیسے کیسے بے نقاب کیا ہے۔ وہ (نواز شریف) اس پر ہنستے تو ہوں گے کہ کل تک جو اپنے انگریزی ویکلی میں تبرے پڑھتے تھے‘ اب کیسے مکھی کی طرح شہد پر گرے ہیں۔ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیئرمین پوسٹ کے لیے الٹے منہ گرے ہیں۔ کیسے کیسے لوگوں کو نواز شریف نے دھول چٹائی ہے۔ نام نہاد معززین بے نقاب ہوئے ہیں۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات، چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے اور اپنا اپنا احساس کمتری دور کرنے کے لیے!
نواز شریف خود ایکسپوز ہوئے سو ہوئے‘ لیکن جاتے جاتے کرائے پر دستیاب لبرلز اور دانشوروں کو بھی سرعام ایکسپوز کر گئے ہیں۔
نواز شریف کو داد دینا پڑتی ہے، باس!