"RKC" (space) message & send to 7575

عوام سے حکمران تک کا سفر

گائوں کا سفر پھر درپیش تھا۔
اسلام آباد لوٹ آتا ہوں تو بھی کئی دنوں تک گائوں کا بوجھ سر پر سوار رہتا ہے۔ گائوں بھی اب بدل گئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ گندے اور بے ہنگم ہو گئے ہیں۔ کبھی سنتے تھے کہ ضلع‘ تحصیل یا یونین کونسل لیول پر ٹائون پلانر کا عہدہ ہوتا تھا‘ جو شاید گوروں نے پیدا کیا تھا۔ کبھی صفائی انسپکٹرز جائزہ لینے آتے‘ تو ہمارے گائوں میں خوف کی فضا ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اماں ہم سب کو لے کر گھر کے باہر تک صفائی کراتی تھیں‘ تاکہ یہ نہ لگے کہ ہمارے گھر کے آگے گند ہے‘ اور یوں جرمانہ نہ ہو جائے۔
گائوں چھوڑیں اب تو شہروں تک کی پلاننگ ختم ہو چکی ہے۔ جس کا جہاں جی چاہتا ہے مقامی مستری بلا کر‘ اینٹیں لے کر گارے کی مدد سے مکان کھڑا کر لیتا ہے۔ گھروں کے باہر گند ہی گند ہے۔ سوچتا ہوں‘ گائوں کے کچے گھر ہی اچھے تھے۔ سیمنٹ اور سریے نے دیہات کی شکلیں اور ماحول تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ گھر اندر سے صاف ہیں تو گلیاں گندے پانی اور کچرے سے بھر گئی ہیں۔ سڑک پر نکلیں تو اتنے موٹر سائیکل آ گئے ہیں کہ لگتا ہے‘ مفت میں بٹ رہے ہیں۔ لاکھ روپے تک کا موٹر سائیکل خرید لیں گے‘ لیکن تین ہزار روپے کا ہیلمٹ نہیں خریدیں گے اور پھر ایک ایک موٹر سائیکل پر تین تین سوار‘ اوپر سے سپیڈ اور ریس کے مقابلے۔ روزانہ نوجوان سڑکوں پر گرتے ہیں اور وہیں دم توڑ دیتے ہیں۔ گھر اجڑ رہے ہیں۔ پھر گائوں میں ایک اور مسئلہ ہے اور وہ ہے اکڑ۔ سڑک پر ایسے چلیں گے جیسے ان کا باپ بنوا کر گیا تھا۔ گاڑی اوپر سے گزرتی ہے تو گزر جائے لیکن راستہ نہیں دیں گے۔ پھر رات کو دوستوں کی محفل میں اپنی بہادری کے قصے سنائے جاتے ہیں کہ دیکھا... بڑا آیا پردھان... ہارن دیتا رہا... میں نے کہا: دیتا رہ‘ تیرے باپ کی سڑک ہے... میں بھی سائیڈ پر نہیں ہوا۔ گائوں میں اب تک کئی نوجوان سڑک پر گر کر مر چکے ہیں۔
میں اس دفعہ موٹروے سے اتر کر بذریعہ گوجرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کمالیہ، رجانہ، چیچہ وطنی، بورے والا، وہاڑی، ملتان، مظفر گڑھ‘ لیہ تک کا سفر کیا۔ ہر طرف موٹر سائیکلوں کا رش تھا۔ سمجھ نہیں آتی کہ سڑک پر گاڑی کیسے چلائیں؟ موٹر سائیکل سے بچیں تو گدھا گاڑی۔ اس سے بچیں تو سائیکل۔ ان سے بچ جائیں تو سڑک کے درمیان پیدل چلتے ہوئے سے کیسے بچیں؟ ہارن دیں تو گھوری ڈالتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں: تمہارے باپ کی سڑک ہے؟ اگر کسی سے ٹکر ہو جائے تو سب اکٹھے ہو جائیں گے‘ اور قصور کار سوار کا ہی نکلے گا۔ اگلے دن اخبار کا سب ایڈیٹر بھی اپنا غصہ کار سوار پر نکالے گا کہ تیز رفتار کار نے کچل دیا۔ یہی خدشات لے کر میں کار کو کھوتے ریڑھی کی طرح چلاتا ہوں۔ ون وے سڑکیں ان علاقوں میں نہیں ہیں‘ لہٰذا آمنے سامنے پوری سپیڈ سے ٹکریں ہوتی ہیں اور لمحوں میں درجن بھر لوگ مارے جاتے ہیں۔ حیران ہوتا ہوں یہ سوچ کر کہ کسی ضلع کے ٹریفک ایس پی کو کبھی خیال نہیں آیا کہ لوگوں میں ٹریفک کی تمیز کیسے پیدا کرنی ہے۔ لائسنس کا نظام بہتر بنا کر باقاعدہ ڈرائیور پیدا کریں۔ گھر میں سائیکل چلاتے چلاتے ہم بھائی کا موٹر سائیکل چلانا شروع کرتے ہیں۔ گھر میں ٹریکٹر سے ہم گاڑیاں چلانا سیکھ لیتے ہیں اور یوں جو فرق مکینک اور مستری میں ہوتا ہے‘ وہی ٹریکٹر سے سیکھے ڈرائیور اور باقاعدہ ڈرائیونگ سکول سے سیکھے انسان میں ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہر ہفتے یہ خبر چھپتی ہے: بس حادثے میں بیس‘ تیس افراد مارے گئے۔ ہم ایسی خبروں کے عادی ہو جاتے ہیں‘ جب تک ہمارا اپنا کوئی اس کا شکار نہیں ہوتا۔
گوجرہ سے لے کر وہاڑی‘ ملتان اور لیہ تک کہیں ٹریفک پولیس نظر نہیں آئی۔ ہو گی تو لوٹ مار کر رہی ہو گی۔ کہیں ہائی وے پٹرولنگ نہیں ملے گی۔ کہیں ٹراما سینٹر نہیں ہے۔ خدا کے سہارے سب کچھ چل رہا ہے۔ سوچتا ہوں‘ ان حکمرانوں اور بیوروکریسی کا ہم نے اچار ڈالنا ہے؟ ہم نے سفید، نیلے پیلے ہاتھی پال رکھے ہیں۔ ویسے اگر ضلع میں کوئی ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟ شاید اسی طرح لوگوں میں احساس ذمہ داری زیادہ ہو کہ ہم نے اپنا خیال خود رکھنا ہے کیونکہ ہمارا خیال رکھنے والا کوئی نہیں۔ سرکاری سائیں اپنے بچے لاہور میں رکھ کر ان پس ماندہ علاقوں میں افسر شاہی کرتے ہیں۔ ہر ہفتے وہ لاہور ہوتے ہیں۔ ٹی اے ڈی اے کے نام پر مال بناتے ہیں۔ سڑکوں پر یہ سب تماشے ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن وہ بھی یہ سوچ کر نظرانداز کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی خدا نے قسمت ہی ایسے لکھ دی ہے۔ ہاں کسی دن شہباز شریف اس ضلع کا دورہ کر لیں تو پھر انہی ڈی پی او اور ڈی سی کے کرتب دیکھیں۔ لگے گا‘ ان سے بہتر انسان اور ذمہ دار ایکٹو لوگ اس دھرتی پر اب تک پیدا ہی نہیں ہوئے۔ ان کا بس چلے تو آگے لیٹ جائیں کہ خادم اعلیٰ ہمارے اوپر قدم رکھ کر گزر جائیں تاکہ ان کے جوتے خراب نہ ہوں۔ لیکن ان عام لوگوں‘ جنہوں نے شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے‘ کے مسائل ان کے نزدیک ایسے نہیں جن پر وہ اپنی توانائیاں خرچ کریں۔
ٹی وی اور ہم اینکرز بھی ان ایشوز سے دور ہیں۔ بھارتی چینلز پر عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے مفت اشتہارات چلائے جاتے ہیں کہ سڑک پر کیسے ڈرائیو کرنا ہے یا پھر کیسے صفائی رکھنی ہے۔ گند کہاں پھینکنا ہے اور کہاں نہیں۔ ہیلمٹ کے بغیر موٹر بائیک نہیں چلانی۔ ہمارے ہاں چینل کبھی اس طرح کے اشتہار نہیں چلائیں گے۔ یقین کریں‘ کروڑوں کی گاڑیوں میں بیٹھنے والے بھی بیلٹ نہیں لگاتے۔ بعض گاڑیاں بیلٹ نہ لگانے پر شور کرتی ہیں تو یہ لوگ ایک ہک بیلٹ والے سوراخ میں ٹھونک دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے صدمہ ہوتا ہے۔ بڑے بڑے شہروں سے گزریں تو وہاں بھی گندگی آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ تھوڑی سی بارش ہو جائے تو لگتا ہے دنیا بھر کا گند یہاں اکٹھا ہو گیا ہے۔ گائوں کے بعد اب شہروں کو بھی ان کی حالت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے کہنے پر شہباز شریف نے کڑوا گھونٹ بھر کر بلدیاتی اداروں کے انتخابات تو کرائے‘ لیکن مجال ہے کوئی اختیارات اور فنڈز دیے گئے ہوں یا انہیں بلا کر سمجھایا گیا ہو کہ تم لوگوں نے اپنے اپنے شہروں، گائوں اور دیہات کو کیسے چلانا ہے۔
مان لیتے ہیں‘ دنیا کے ہر ملک اور شہر میں بارشیں برستی ہیں اور مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن کیا ہر جگہ ایسے ہی کئی دنوں تک پانی سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا رہتا ہے؟ کراچی میں جو کچھ ہوا‘ وہ دیکھ لیں۔ میں لاہور جاتا رہتا ہوں۔ آپ ذرا لکشمی چوک کی حالت دیکھ لیں۔ پتا چل جائے گا کہ کس بھائو یہ سفید ہاتھی ہمارے اوپر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اپنی اولادیں، جائیدادیں، اپنے کک بیکس اور مال سب کچھ باہر شفٹ کر رہے ہیں اور ہمیں یہاں گندگی، سڑکوں پر ناچتی موت کے حوالے کر رکھا ہے۔ آپ سڑکوں پر مریں، جیئیں‘ آپ جانیں۔ حکمرانوں کا کام آپ سے ٹیکس لینا ہے۔ عوام نے یہ ٹیکس دینے ہیں‘ اور ان کے ٹیکسوں سے نہ عوام کو پولیس پٹرولنگ ملے گی، نہ ہائی وے پر تحفظ ملے گا، نہ کوئی ڈرائیورنگ لائسنس چیک کرے گا۔ کچھ بھی نہیں ملے گا۔ روزانہ سڑکوں پر لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی سے زیادہ لوگ سڑکوں پر مارے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران اور بیوروکریٹ‘ جن کا کام تھا کہ وہ ہماری زندگیوں میں آسانی پیدا کرتے‘ اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کر رہے؛ تاہم خود حکمران اتنے سمجھدار ہیں کہ جب ان کے بچے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ہمارے پیسوں سے ہی ہر ایک برخوردار کے ساتھ درجنوں پولیس کی گاڑیوں کا سرکاری پروٹوکول ہوتا ہے اور روٹ لگا کر گھنٹوں عوام کو ان سے دور رکھا جاتا ہے۔ یہ وہ ذلت ہے‘ جو ٹیکس دیتے عوام کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے‘ اور وہ عیاشی جو ہمارے ٹیکسوں پر پلتے ہمارے حکمرانوں اور ان کی اولادوں کے مقدر میں لکھی گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں