کیا یہ ممکن ہے کہ اکیس کروڑ آبادی کے ملک میں صرف پانچ افراد ہی ایسے پائے جاتے ہوں جو اس ملک سے محبت کے امتحان پر پورے اترتے ہیں‘ اور باقی کی حب الوطنی مشکوک ہو‘ لہٰذا انہیں ان خطرات سے آگاہ نہیں کیا جا سکتا جو یہ پانچ بڑے لوگ جانتے ہیں۔
اگر اس ملک کو سنگین خطرات ہیں‘ جن کی طرف چوہدری نثار علی خان بار بار اشارہ کر رہے ہیں تو پھر ہمیں یہ حق کیوں نہیں ہے کہ ہم جانیں‘ وہ کون سے خطرات ہیں جو ملک کو تباہ کرنے والے ہیں؟ کیا وہ پانچ افراد ہی اس ملک کو ان خطرات سے نکال سکتے ہیں اور بیس کروڑ عوام اس قابل نہیں ہیں؟ ویسے اگر تمام خطرات کو عوام سے خفیہ ہی رکھا جانا چاہیے تو پھر امریکہ میں جو حالیہ طوفان آئے‘ ان کی پیشگی اطلاع بھی نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ لوگوں کو خطرناک علاقوں سے نکالنے کی ترکیب نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ خطرے کی پیشگی اطلاع انسان کو حالات کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرتی ہے‘ اس لیے ایسی اطلاعات خفیہ رکھنا انسان دشمنی ہوتی ہے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ لاکھوں افراد کو فلوریڈا سے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر نکال لیا جائے گا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تباہی کے باوجود اس طوفان میں مرنے والوں کی تعداد ایک درجن بھی نہیں۔ تصور کریں‘ اس نوعیت کا طوفان پاکستان میں آتا تو کتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتا۔ طوفان چھوڑیں‘ پاکستان میں ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ سب کو علم ہے کہ آتے ہیں‘ پھر بھی ہر سال بڑی تعداد میں لوگ مارے جاتے ہیں۔ اکثر تو رات کو گھروں میں سوئے ہوئے لوگوں کو سیلاب اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر مریض کو خطرناک بیماری ہو تو مریض سے وہ بیماری چھپائی جاتی ہے۔ مغربی دنیا میں اس کے برعکس صورتحال ہے۔ وہاں مریض کو ڈاکٹر لواحقین کی موجودگی میں بٹھا کر خود بتاتا ہے کہ اسے کیا مرض ہے اور اس کا علاج کیسے ہو گا۔ یورپ میں چیزوں پر پردہ کیوں نہیں ڈالا جاتا‘ جو ہمارے ہاں ایک رواج بن چکا ہے؟ اہم وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں‘ ہر انسان کے اندر زندہ رہنے کی جو جبلّت ہے‘ وہ مرض سے لڑنے میں مریض کی مدد کرتی ہے۔ اسی طرح مصیبت کے وقت بھی وہی جبلت انسان میں برے سے برے حالات سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ اگر مریض کو پتہ نہیں ہو گا تو زیادہ چانس یہ ہے وہ شاید اس بیماری سے لڑ نہ پائے‘ کیونکہ اندر وہ جذبہ نہیں ہو گا۔
اگر چوہدری نثار سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو سنگین خطرات ہیں تو پھر انہیں قوم کو پارلیمنٹ میں جا کر بتانا چاہیے کہ وہ خطرات کیا ہیں اور ان سے کیسے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے۔ ان سنگین حالات کے ذمہ دار کون ہیں اور کون سے اقدامات کرکے پاکستان ان کے تباہ کن نتائج سے بچ سکتا ہے۔ مجھے اس لیے بھی پوچھنے کا حق ہے کہ میں اس ملک میں رہتا ہوں، میرے بچے‘ میرا خاندان اور سب سے بڑھ کر بیس کروڑ لوگ اس ملک میں رہتے ہیں‘ جن کے بچوں کے پاس امریکن یا برطانوی شہریت نہیں ہے‘ جیسے چوہدری نثار‘ رحمن ملک یا نواز شریف کے بچوں کے پاس ہے یا فارن آفس کے اکثر بابوئوں کے پاس ہے۔ ہمارا جینا مرنا اس ملک میں ہے تو ہمیں علم ہونا چاہیے کہ وہ کون سی تباہی پاکستان میں آنے والی ہے‘ جس کی طرف چوہدری نثار بار بار اشارے کر رہے ہیں اور پھر بضد بھی ہیں وہ قوم کو نہیں بتائیں گے کیونکہ یہ ایک قومی راز ہے۔ یہ کیسا قومی راز ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ملک تباہ و برباد ہونے والا ہے اور ساتھ ہی ہمیں بتانے کو تیار بھی نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان خطرات کا تدارک کیا پانچ لوگ ہی کر سکتے ہیں؟
اس ملک میں رواج بن گیا ہے کہ چند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی محب وطن ہیں۔ اکہتر کی جنگ میں جب وہاں ہتھیار ڈالے جا رہے تھے‘ ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ ہماری افواج بھارت کو شکست دے رہی ہیں۔ ہم اس ملک میں کیسے خوفناک کھیل کھیل رہے ہیں اور خطرات اب ہمارے گھروں تک پہنچ گئے ہیں۔
ہمارے حکمران اس وقت باتیں سیکرٹ رکھتے ہیں‘ جب انہوں نے اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنا ہو‘ اور بدلے میں اپنے بچوں کے لیے امریکی ویزے، شہریت اور وظائف لینے ہوں۔ میں تو اس دن کانپ گیا تھا جب دو ہزار تیرہ میں سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ میں انکشاف ہوا تھا کہ جنرل مشرف نے امریکہ کو افغانستان تک راہداری اور کنٹینرز کا راستہ مفت دیا ہوا تھا۔ جب پاکستان نے سلالہ پر سپلائی روکی تو سینٹرل ایشیا کے ایک ملک کو امریکہ نے فی کنٹینر سترہ سو ڈالرز ادا کرکے افغانستان سپلائی پہنچائی تھی۔ اندازہ کریں‘ ہم پندرہ برس سے امریکہ کو مفت راستہ دیے بیٹھے ہیں‘ اور ایک ٹکہ تک نہیں ملا۔ اربوں ڈالرز کما سکتے تھے‘ لیکن جنرل مشرف سے لے کر پی پی پی، اور نواز شریف تک نے امریکی خوشنودی کے لیے ایک روپیہ تک نہ لیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے فارن آفس کے بابوئوں نے امریکیوں سے راہداری کے استعمال کا معاوضہ نہیں مانگا تھا‘ لہٰذا انہوں نے نہیں دیا‘ ورنہ امریکہ نے آٹھ ماہ سینٹرل ایشیا کے ملک کو معاوضہ ادا کیا۔ جب اس بارے میں استفسار کیا گیا تو فارن آفس کے بابوئوں نے فرمایا: امریکہ سے نہیں مانگے کیونکہ امریکہ ہمارا دوست ہے اور یہ گُڈ وِل تھی۔ ہماری سڑکیں تباہ ہو گئیں اور ہم گُڈ وِل بچاتے رہے۔ ہر سال کولیشن سپورٹ فنڈ لینے کے لیے امریکہ سے منتیں کرتے ہیں‘ جبکہ ہم خود اربوں ڈالرز انہیں معاف کیے بیٹھے رہے‘ اس لیے کہ جنرل مشرف کا بیٹا امریکہ رہتا ہے یا فارن آفس کے بابوئوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ سیٹل ہونا ہوتا ہے۔ یہ بھی قومی راز تھا جو برسوں خفیہ رکھا گیا کہ ہمارے فوجی اور سویلین حکمران امریکہ کو مفت راہداری دے رہے ہیں اور جواب میں اپنا اقتدار اور بچوں کی امریکہ میں رہائش لے رہے ہیں۔ یقین کریں جتنے بھی اس طرح کے قومی راز رکھے جاتے ہیں‘ ان کے پیچھے ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ یہ خود ان رازوں کے بدلے فائدے لیتے ہیں اور عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔
اس سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بیان دیا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے تو چوہدری نثار نے خواجہ آصف کو ملک دشمن قرار دے دیا۔ احسن اقبال نے مزید فرمایا کہ جو سی پیک پر تنقید کرتے ہیں‘ وہ بیرونی اشارے پر یہ کام کرتے ہیں۔ مطلب‘ وہ بھی بیرونی ایجنٹ ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ جو بھی رحمن ملک، چوہدری نثار اور احسن اقبال کی طرح وزیر داخلہ لگتا ہے‘ اسے اپنے سوا سب ملک دشمن لگتے ہیں‘ چاہے وہ اس ملک کا وزیر خارجہ ہی کیوں نہ ہو؟ رحمن ملک آئی بی کے سیکرٹ فنڈ سے پچاس کروڑ روپے نکلوا کر غائب کر دے تو ملک خطرے میں نہیں پڑتا۔ رحمن ملک کرائسز مینجمنٹ سیل کے سیکرٹ فنڈ سے کروڑں روپے نکلوا لے تو بھی ملک محفوظ ہے۔ احسن اقبال ایک سال صرف گیارہ ہزار روپے ٹیکس دے تو بھی سی پیک کو خطرہ نہیں، لیکن ہم اس ملک کی محبت میں کوئی بات کہہ دیں تو ہم سب خواجہ آصف سمیت بیرونی ایجنٹ ٹھہرتے ہیں۔
یہ ہے راج نیتی کے وہ قیمتی گُر جو رحمن ملک، چوہدری نثار اور احسن اقبال کو وزیر داخلہ بنتے ہی یاد آ جاتے ہیں کہ وہی پاکستان کے اکیلے ٹھیکیدار اور محبِ وطن ہیں‘ چاہے ان کے اپنے بچے برطانوی اور امریکی شہری ہی کیوں نہ ہوں۔
ہم بیس کروڑ عوام اور ہمارے بچوں‘ جن کا جینا مرنا اس ملک میں ہے، پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا‘ لہٰذا چوہدری نثار نہیں بتائیں گے کہ وہ کون سی تباہی ہے جس کا صرف ''پانچ محب وطن‘‘ پاکستانیوں کو علم ہے اور جو پاکستان کی طرف چل پڑی ہے۔
انگریزی فلم The magnificent seven یاد آ گئی‘ جس میں سات ہیروز ایک گائوں کو بدمعاشوں سے بچاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں ہمارے یہ The Magnificent five ہمیں کیسے تباہی سے بچاتے ہیں۔ اگرچہ چوہدری نثار کے جانے کے بعد اب یہ بے چارے چار رہ گئے ہیں۔ اتنی بڑی دنیا ہماری دشمن اور یہ ہمارے چار ہیروز آ رہے ہیں‘ پاکستان کو بچانے... ایک دفعہ پھر... عوام کی پرزور فرمائش پر... دیکھنا نہ بھولیے گا... بہت جلد آپ کے قریبی سینما گھروں میں۔