آج لاہور میں ہونے والے الیکشن کا نتیجہ ہمارے سب دانشور اور سیاسی پنڈت پہلے ہی دے چکے کہ کلثوم نواز جیت چکی ہیں۔
یہ وہی کلثوم نواز ہیں جن کے بارے میں کبھی شریف خاندان کے بارے میں مثبت رائے رکھنی والی کالم نگار طبیہ ضیا چیمہ نے‘ ابھی لکھا ہے کہ کلثوم نواز جلا وطنی کے دنوں میں روضہ رسولؐ پر بیٹھ کر کہتی تھیں‘ پاکستان کی سیاست بہت گندی ہے اور وہ نہ صرف سیاست سے آئندہ دور رہیں گی‘ بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس گند میں نہیں پڑنے دیں گی۔ اقتدار کی لالچ بھی کیا بلا ہے کہ اب نہ صرف بیماری کے باوجود خود الیکشن لڑ رہی ہیں‘ بلکہ جن بچوں کو سیاست میں نہ آنے کی قسمیں دیتی تھیں‘ وہ ان کی بیماری کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔
کلثوم نواز کے جیتنے کی توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ یہ نواز شریف کے گھر کی سیٹ ہے۔ کیا یہ ایک وجہ کافی ہے کہ وہ تیس برس سے حلقے سے الیکشن جیتتے آئے ہیں؟ یا ہو سکتا ہے‘ انہوں نے حلقے میں بہت کام کیا ہو‘ اور اسے پیرس اور لندن بنا دیا ہو‘ لہٰذا وہاں کے لوگوں کو اپنا نمائندہ بدل کر اپنی قسمت بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
لاہور کی تبدیلی پر سن لیں۔ چند ماہ پہلے ایک دن غلطی سے ٹرن لے کر کچہری چوک سے داتا دربار کی طرف مڑ گیا تھا‘ اور راستہ بھول گیا۔ یقین کریں ویسی گندگی اور بدترین ٹریفک میں نے شاید ہی کہیں دیکھی ہو۔ اندرون لاہور اور پرانی انار کلی کے علاقے پہلی دفعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یوں لگا‘ جیسے قیامت آ گئی ہو۔ ہر طرف ہنگامہ، شور، دھکم پیل تھی۔ موٹر سائیکلیں، سائیکلیں، گدھا گاڑیاں‘ اور پتہ نہیں کیا کیا نظارے دیکھنے کو ملے۔ میں کوئی دو تین گھنٹے وہاں پھنسا رہا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نظام کیسے چل رہا ہے۔
تو کیا اس ملک میں جس جس نے اپنے حلقے اپنے قابو میں کر لیے ہیں‘ اب انہیں ہرانا آسان نہیں رہا؟ ویسے طریقہء واردات ملاحظہ فرمائیں کہ حلقے اور عوام پر قابو کیسے پانا ہے۔ پہلے آپ پورے سسٹم کو اغوا کر لو۔ پولیس میں آپ جائیں تو بھی جب تک علاقے کا سردار، نواب‘ وزیریا ایم این اے فون نہیں کرے گا‘ تھانیدار بات نہیں سنے گا۔ تھانیدار عوام کی نہیں بلکہ آپ کی بات سنے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی مرضی کا تھانیدار لگوایا جائے۔ یوں ڈی پی او سے ڈی سی او تک سب اپنے لوگ لگوائے جاتے ہیں‘ جو اُن کی مرضی سے ٹرانسفر پوسٹنگ کرتے ہیں‘ اور سارا عملہ ایم این اے یا ایم پی اے کے کنٹرول میں رہتا ہے۔ ان سب افسران اور ملازمیں کو کہہ دیا جاتا ہے کہ سکول، کالج میں استاد کا ٹرانسفر ہو، تھانے میں کسی کی بدلی ہو، کسی کو چھوڑنا یا پکڑنا ہو‘ یہ سب ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ کہیں نوکری نکلے گی‘ وہ ایم این اے اور ایم پی اے کی اجازت بغیر نہیں ملے گی۔ ایک جمِ غفیر سیاستدانوں کے گھروں کے باہر اکٹھا ہو جاتا ہے۔ جس خوش نصیب کو نوکری مل جاتی ہے اسے لگتا ہے‘ وہ جنت کا ٹکٹ لے گیا۔ یوں دھیرے دھیرے ان سب لوگوں کو یہ احساس دلوایا جاتا ہے کہ ان کے بغیر وہ سانس بھی نہیں لے سکتے۔ وہ سب ان سیاستدانوں کے رحم و کرم کے عادی ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر جگہ ان کی ضرورت پڑتی ہے پھر یہ بات عام ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے کیا بیر ؟۔ بیوروکریسی بھی دھیرے دھیرے اسی چکر میں پڑ جاتی ہے۔ بھاڑ میں جائے عوام اور ریاست کا مفاد‘ ہم تو وہی کریں گے جو ہمیں اوپر سے کہا جائے گا۔ آج تک پتہ نہیں چلا کہ یہ ''اوپر‘‘ کس بلا کا نام ہے۔ جس سے پوچھیں یہ غلط کام کیوں کیا‘ تو افسر جواب دے گا کہ اوپر سے حکم تھا۔ یوں جب آپ ان ڈیروں پر جاتے ہیں تو پرچیاں لینا آپ کی زندگی کا مشن ہوتا ہے۔ بچہ پڑھ جائے تو اسے لے کر اپنے ایم این اے یا ایم پی اے کے پاس جائیں گے، گھنٹوں انتظار ہو گا اور پھر منتیں ترلے۔ صاحب کو بتایا جائے گا کتنی مشکلوں سے بچے کو پڑھایا‘ لیکن نوکری نہیں مل رہی۔ جس نے نوکری دینی ہے‘ وہ صاف کہہ دیتا ہے کہ اگر ایم این اے کہے گا تو ملے گی۔ وہ پڑھا لکھا لڑکا چپ چاپ اپنے باپ کو منتیں کرتا دیکھتا رہتا ہے۔ شاید حیران بھی ہوتا ہو کہ اتنا لکھ پڑھ کر بھی میرے باپ نے منتیں ہی کرنا تھیں تو تعلیم کا کیا فائدہ ؟
یوں جب کوئی پورے سسٹم کو ہائی جیک کر لے تو پھر کیسے نہیں جیتے گا۔ اگر پولیس افسر‘ شارق کمال صدیقی جیسا کوئی سر پھرا ہو کہ وہ ایم این اے کے ڈیرے پر دعوت میں نہیں جائے گا‘ جہاں اس نے کچھ دن پہلے چھاپہ مارا تھا‘ تو پھر وزیر اعظم نواز شریف اس کو معطل کرکے صوبہ بدری کے احکامات جاری کر دیں گے کیونکہ ایم این اے کی یہ ضد ہے کہ اگر اس افسر کو سزا نہ ملی تو وہ استعفا دے دے گا۔
پھر اپنی نوکری بچانے کے لیے آئی جی بھی شارق کمال صدیقی کو فون کرکے کہے گا: بیٹا بہتر ہے جا کر کھانا کھا آئو‘ ورنہ تین گھنٹوں میں ضلع چھوڑ دو۔ وہ افسر ضلع چھوڑ دے گا کیونکہ اسے اپنی عزتِ نفس زیادہ عزیز ہے۔ پنجاب میں کسی پولیس افسر یا پولیس ایسوسی ایشن کو جرات نہ ہوئی کہ احتجاج کرتے کہ کیوں صوبہ بدر کیا گیا؟ میڈیا بھی خاموش رہا، کوئی عوامی احتجاج بھی سامنے نہ آیا... کیونکہ ہم سب عادی ہو چکے ہیں۔ ہم یہ جان چکے ہیں کہ ان اَن داتائوں کے بغیر ہم زندگی نہیں گزار سکتے۔ ہمارے نزدیک آفتاب چیمہ، محمد علی نیکوکارا یا شارق کمال صدیقی جیسے پولیس افسران کا غلط کاموں سے انکار کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ بلکہ ممکن ہے ہمیں یہ سب افسران بیوقوف لگتے ہوں‘ جو چلتے ہوئے نظام میں اچانک کھڑے ہو کر بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ وزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ تک سب کو یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر باغیوں کا سر نہ کچلا گیا تو کہیں پورا نظام ہی ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ لہٰذا دوسرے افسران کے لیے عبرتناک مثالیں بنانے کے لیے محمد علی نیکوکارا کو نوکری سے برطرف تو آفتاب چیمہ کو آئی جی اسلام آباد کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے اور شارق کمال صدیقی کو تین گھنٹے کے اندر اندر صوبہ بدر کر دیا جاتا ہے۔ یوں اس نظام کے اندر سے ہونے والی بغاوت ناکام بنا کر باقی کو اشارہ کر دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی حرکت کی تو یہی حشر ہو گا۔ اس کے بعد بڑے عرصے تک بیوروکریسی کنٹرول میں آ جاتی ہے۔ ڈی پی او کا کام اگر علاقے کے سیاستدان کے مخالفین یا جنہوں نے ووٹ نہیں ڈالا تھا‘ کی چھترول کرانا اور ان کے خلاف پرچے درج کرانا ہوتا ہے تو ڈپٹی کمشنر کا کام انہی ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ترقیاتی کاموں میں ان کی مرضی کے ٹھیکیداروں کو ٹھیکے دینا ہوتا ہے‘ جعلی قسم کے ٹینڈر پراسس کرنا ہوتا ہے۔ ایک کروڑ کے کام میں بیس تیس لاکھ ایم این اے لے گا‘ تو بیوروکریسی بھی اپنا حصہ وصول کرے گی۔ آخر میں چند لاکھ روپے سے کچی پکی سڑک بنے گی جو اگلی بارش پر ٹوٹ جائے گی اور پھر نئے سرے سے فنڈز کے لیے کوششیں۔ یا پھر ڈپٹی کمشنر اس سیاستدان کے لیے علاقے میں سرکاری زمینیں ڈھونڈے گا‘ جو وہ اپنے فرنٹ مین کے نام پر الاٹ کرائیں گے یا پھر لاہور کے بڑے صاحب کے بیٹے کے لیے کوئی اچھی لوکیشن کی زمین ڈھونڈنا ہو گی۔
یہ ہے سیاست، سیاستدان اور عوام‘ اصلی نسلی جمہوریت کا اصلی حسن۔ اس نظام کے ہوتے ہوئے میرے ضلع لیہ میں سرکاری ایم این اے یا ایم پی اے سے کوئی نہیں جیت سکتا‘ اور آپ توقع رکھتے ہیں حکمرانوں کے گڑھ اور حاکم خاندان کے مقابلے میں میرے یا آپ جیسی ایک عام ڈاکٹر یاسمین راشد جیت جائے گی؟