دس اگست کو میر زبیر محمود کے ساتھ اسلام آباد کلب میں الوداعی کھانا کھاتے ہوئے ہم دونوں کو علم نہ تھا کہ اب ہماری کب ملاقات ہوگی۔ میری بیس برس میں میر زبیر سے یہ چوتھی ملاقات تھی۔ وہ اگلے ایک دو روز میں برسوں کی پولیس سروس کے بعد ریٹائرڈ ہو رہے تھے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ میں چپ تھا۔ ایک اور اچھا افسر ہم نے ضائع کر دیا تھا۔ ایک اعلیٰ ذہن اب کہیں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارے گا۔ میں نے غور سے زبیر محمود کو دیکھا تو لگا کہ پچاس سے اوپر کے نہیں‘ لیکن انہوں نے بتایا کہ دو روز میں ساٹھ کے ہو جائیں گے۔ میں یادیں کریدنے لگا کہ میری ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی اور میں کیوں ان کا اتنا بڑا مداح بن گیا تھا۔
بیس برس قبل میں ملتان سے نیا نیا آیا تھا۔ ایک دن سینیٹ میں مشتاق احمد کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ ایک خوبصورت نوجوان افسر اندر داخل ہوا۔ اس نے بتایا کہ وہ ایس پی ہے اور بلوچستان سے میر جبار کے صاحبزادے‘ جو سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین رہے اور ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔
چار سال بعد میں کراچی گیا‘ جہاں ایک ٹی وی چینل کی تربیت لے رہا تھا۔ پتہ چلا کہ دہشت گرد اکرم لاہوری کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انکشاف ہوا کہ یہ کارنامہ میر زبیر اور ان کی ٹیم کا تھا۔ وہ اس وقت کراچی میں تعینات تھے۔ میں نے سوچا‘ یہ تو وہی نام ہے جو چار سال قبل سنا تھا۔ مجھے کہا گیا اس پر سٹوری لکھو۔ میں نے انہیں فون کیا۔ یہ میری ان سے دوسری ملاقات تھی۔ پھر ان سے تیسری ملاقات تیرہ برس بعد میامی امریکہ میں پچھلے سال مشتاق بھائی کے گھر ہوئی۔ چوتھی ملاقات اب ان کی ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے ہو رہی تھی۔
میں نے میر زبیر کو دیکھ کر سوچا کہ مجھے ان کی کس چیز نے متاثر کیا ؟ صحافی بھلا کب کسی سے متاثر ہوتے ہیں۔
دو ہزار ایک کی بات ہے۔ میں ایک انگریزی اخبار میں رپورٹر تھا۔ ایک دن خبر آئی کہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو کراچی سے اغوا کر لیا گیا ہے۔ کراچی کے پولیس افسر میر زبیر محمود اس کیس پر کام کر رہے تھے۔ میں نے فون پر ان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ تفتیش ہو رہی ہے۔ مجھے میرے ایڈیٹر شاہین صہبائی نے کہا کہ روزانہ اس کیس کی خبر چاہیے‘ کیونکہ امریکی میڈیا بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ میں نے روزانہ خبریں دینا شروع کر دیں۔ عالمی میڈیا بھی ہماری وہ خبریں اٹھانا شروع ہو گیا۔ ایک دن میں نے خبر دی کہ کراچی پولیس ڈینیئل پرل کے اغواکاروں کے قریب پہنچ گئی ہے۔ مجھے شاہین صہبائی کا فون آیا۔ بولے: امریکہ کا ایک نیوز چینل کہہ رہا ہے کہ اگر کراچی پولیس اس ریڈ کی فلم بنائے اور وہ مل جائے تو وہ اس کے بدلے میں دس ہزار ڈالر دینے کو تیار ہے۔ تم میر زبیر سے بات کرو‘ اگر وہ تیار ہو جائیں۔ میں نے میر زبیر کو فون کیا۔ وہ ہنس کر بولے: لالہ اگر ویڈیو بنانے کا موقع ملا تو بنا کر تمہیں دے دوں گا لیکن پیسے نہیں چاہئیں۔ میں نے شاہین صہبائی کو بتایا کہ وہ پیسے لینے کو تیار نہیں۔ وہ بولے: اگر کم ہیں تو بڑھائے جا سکتے ہیں۔ میں نے کہا: شاید ہم نے غلط اندازہ لگایا ہے۔ ہوا یہ کہ ریڈ سے پہلے ہی ڈیینئل کی لاش مل گئی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب میرے دل میں اس پولیس افسر کی عزت پیدا ہوئی۔ میر زبیر جیسے پولیس افسران‘ ہر دور میں زیر عتاب ہی رہتے ہیں‘ اور ان کے بغیر کام بھی نہیں چلتا۔ پنجاب میں منظور وٹو کا دور تھا۔ نواز شریف سے لڑائی بڑھ گئی تھی۔ پتہ چلا سیکرٹری اسمبلی اغوا ہو گئے ہیں۔ میر صاحب اس وقت لاہور میں تعینات تھے۔ طارق کھوسہ ان کے باس تھے۔ حکم ہوا کہ ہر قیمت پر ڈھونڈا جائے۔ پورے وسائل بروئے کار لائے گئے۔ کچھ پتہ نہ چلا۔ پنجاب حکومت نے آئی جی سے لے کر طارق کھوسہ اور میر زبیر تک سب کو ہٹا دیا۔ نئے آئی جی کو پتہ چلا کہ میر زبیر کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ رات کو انہیں آئی جی نے گھر بلایا‘ جہاں چیف سیکرٹری بھی موجود تھا۔ کہا گیا کہ دوبارہ چارج لے کر کیس پر کام کریں۔ میر زبیر بولے ایک شرط پر کروں گا کہ میرے باس طارق کھوسہ کو واپس لایا جائے۔ پوری رات لالچ اور دھمکیاں دی جاتی رہیں لیکن میر زبیر نہ مانے۔
پیپلز پارٹی کے دور میں طارق کھوسہ ڈی جی ایف آئی اے لگے تو میر زبیر محمود ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے خانانی اینڈ کالیا سکینڈل پر کام شروع کیا۔ ایک سو پانچ ارب روپے کی منی لانڈرنگ پکڑی گئی تھی۔ ملزمان کی بدقسمتی کہ کیس کی تحقیقات ایف آئی اے میں اس وقت ہو رہی تھی جب طارق کھوسہ اور میر زبیر محمود جیسے لوگ وہاں تھے۔ جب کیس تیار ہو گیا تو پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی کے بڑوں نے ڈیل کر لی ہے۔ انکشاف ہوا کہ ایک ارب روپے نقد ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں شفٹ ہوئے۔ جو کام ان ایماندار افسران سے لینا تھا وہ لے لیا گیا تھا۔ اب نوٹ کھرے کرنے کا وقت تھا۔ دونوں افسران کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ برسوں بعد میر زبیر کی آواز میں مایوسی تھی۔ وہ بولے: ہمیں استعمال کیا گیا۔ خانانی اینڈ کالیا کیس میں ایف آئی اے کی محنت کو بیچ کر پیسے کھرے کر لیے گئے۔ لیکن قدرت بھی اپنا حساب برابر کرتی ہے۔ جن ملزمان سے پیپلز پارٹی کے چند بڑوں نے ایک ارب روپے میں ڈیل کی تھی وہی امریکہ میں پکڑے گئے اور آ ج کل سزا بھگت رہے ہیں۔
وہ بلوچستان میں آئی جی بھی رہے۔ کوئٹہ میں ایک بم بلاسٹ میں وہ اُس وقت بال بال بچے جب پولیس کے جوانوں کے جنازے میں ایک خود کش حملہ ہوا۔ ان کے پیچھے کھڑے نوجوان افسر جاں بحق ہو گئے ۔ ان کے دل میں آج تک اس بات کا دکھ ہے۔
ایسے افسران بھلا کب سیاسی حکومتوں کو اچھے لگتے ہیں۔ ایسا شاندار افسر سروس کے آخری برسوں میں کھڈے لائن لگا رہا۔ دو سال قبل میامی میں ملے تھے تو کراچی لوٹ رہے تھے۔ شاید سوچا جا رہا تھا کہ انہیں آئی جی کراچی لگایا جائے۔ میں نے ان کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا لہٰذا چپ رہا‘ ورنہ زرداری صاحب اور پی پی پی کو بھلا میر زبیر محمود جیسا افسر کیسے برداشت ہو سکتا تھا۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ جن شرائط پر انہیں پیشکش کی گئی‘ وہ قابل قبول نہ تھی۔ انہیں کھڈے لائن لگا دیا گیا‘ جہاں وہ دو برس بعد ریٹائر ہو گئے‘ اور اب میرے سامنے بیٹھے مسکرا رہے تھے۔
میں نے پوچھا: اب کیا کریں گے۔ بولے: امریکہ جائوں گا۔ شاید میامی میں رہوں۔
میں نے کہا: مجھے آپ جیسے اور طارق کھوسہ جیسے افسران کو دیکھ کر نہ جانے کیوں کیون کاسٹنر کی شاہکار فلم The Untouchable کے پولیس افسران یاد آ جاتے ہیں‘ جنہوں نے زندگیاں دائو پر لگا کر ال کپون جیسے مافیا پر ہاتھ ڈالا تھا۔ وہ بولے: میں نے یہ فلم نہیں دیکھی۔ میں نے کہا: اب دیکھیے گا‘ آپ کو اس فلم میں اپنا آپ نظر آئے گا۔
حیران ہوتا ہوں کہ ہم نے کیوں ایسے افسران کو یونہی جانے دیا۔ اس سے پہلے طارق کھوسہ ریٹائرڈ ہوئے۔ ایسے ریٹائرڈ افسران کا ایک تھنک ٹینک کیوں نہ بنایا گیا جو پولیس کو جدید انداز میں کھڑا کرتا‘ اور دہشت گردی کا مقابلہ کرتا۔ نیکٹا ان افسران کے حوالے کیا جاتا۔ انہیں کبھی وطن سے باہر نہ جانے دیا جاتا کہ آپ یہیں رہیں۔ طارق کھوسہ جیسے افسران کو چیئرمین نیب اور میر زبیر محمود جیسوں کو ڈپٹی چیئرمین نیب کیوں نہیں لگایا جاتا؟
ہم نے کتنے اچھے اچھے افسران کھو دیے کیونکہ جمہوریت کی بچت اسی میں تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو شاید پاکستان کی کرپٹ جمہوریت کے لیے خطرہ تھے۔ میرا دل چاہا کہ میری میر زبیر کے ساتھ ایک تصویر ہونی چاہیے۔ میں نے میر زبیر کے بیٹے کو اپنا فون دے کر تصویر کھینچے کا کہا: کیمرے کی کلک کے ساتھ ہی میر زبیر نے مسکرا کر ہاتھ ملایا اور بیٹے اور بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر کیفے سے نکل گئے۔ میں چپ کھڑا‘ اداس نظروں سے انہیں جاتے دیکھتا رہا۔ ایک اور سورج ڈوب گیا تھا۔