"RKC" (space) message & send to 7575

نواز شریف جو آپشن نہ لے سکے

مریم نواز صاحبہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد نواز شریف کے پاس اب بھی کئی آپشن موجود ہیں۔ 
حیران ہوتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کے پاس کون سے آپشنز ابھی باقی ہیں‘ جنہیں شریف خاندان نے استعمال نہیں کیا؟ کون سا حربہ باقی ہے؟ کون سا تیر ابھی کمان میں ہے‘ جسے چلا کر سب راتوں رات دوبارہ وزیر اعظم ہائوس میں جا بیٹھیں گے‘ اور پھر سے بیرون ملک دورے شروع ہو جائیں گے؟ سامری جادوگر اس بار اپنی ٹوپی سے کون سا کبوتر نکال کر‘ اس کرتب سے ہمیں حیران کرے گا؟ 
سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ تو کیا نواز شریف قسمت کے اتنے دھنی ہیں کہ ٹائمنگ ٹھیک ہو یا نہ ہو‘ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟ میرا خیال ہے ایسا نہیںہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھ لیں کہ انہیں جنرل مشرف کو چار جولائی انیس سو ننانوے کے روز کارگل جنگ شروع کرنے پر برطرف کرکے امریکہ جانا چاہیے تھا۔ وہ جنرل مشرف کو برطرف کرنے کا بہترین موقع تھا‘ لیکن انہوں نے وقت ضائع کیا‘ اور چار ماہ بعد جنرل مشرف کو بارہ اکتوبر کو برطرف کیا‘ اور انہیںبرطرف کرتے کرتے خود برطرف ہو گئے کیونکہ اس دوران جنرل مشرف کارگل جنگ کے دبائو سے نکل آئے تھے۔ انہوں نے آرام سے تختہ الٹ دیا۔
نواز شریف صاحب نے پاناما کے معاملے پر بھی وہی کچھ کیا‘ اور اب انہیں اپنے آپشن کا خیال آ رہا ہے‘ جب وہ اپنے سارے آپشنز ختم کر چکے ہیں۔ وہ بہت دیر کر چکے ہیں۔ نواز شریف کو یہ بات کوئی نہیں سمجھا سکتا کہ جب آسمان خلاف ہو تو پھر تمام ترکیبیں آپ کے خلاف پڑ جاتی ہیں۔ جو چالیں آپ اپنے تئیں بڑی چالاکی سے چلتے ہیں‘ وہ سب آپ پر الٹا پڑتی ہیں۔ نواز شریف کے پاس اُس وقت آپشن بہت تھے جب پاناما سکینڈل بریک ہوا۔ انہیں شاید اندازہ نہیں ہوا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ خواجہ آصف کی طرح وہ بھی سمجھ رہے تھے کہ عوام کو پاناما سے کوئی دلچسپی نہیں‘ اور وقت کے ساتھ ساتھ سب لوگ بھول جائیں گے۔
ان کے پاس آپشن تھا کہ وہ خود سپریم کورٹ کو خط نہ لکھتے کہ آپ کمیشن بنا کر تحقیقات کرا لیں۔ جب سپریم کورٹ نے اس خط کے بعد سماعت شروع کی تو نواز شریف اور ان کے حواری الزام لگانے لگے کہ ان کے خلاف کچھ ادارے سازش کر رہے ہیں۔ جن اداروں کو خود کہا کہ وہ تحقیقات کریں‘ انہی پر الزام لگا دیا کہ وہ سازش کر رہے ہیں۔ جب یہ بات چوہدری نثار علی خان کہتے ہیں تو وہ انہیں برے لگتے ہیں۔ اس کے بعد آپشن موجود تھا کہ انہوں نے جس عدالت کو خط لکھا کہ تحقیقات کرے‘ اسے کہتے کہ وہ ان کا ٹرائل نہیں کر سکتی کیونکہ فلاں قانون کے تحت انہیں استثنا حاصل ہے۔ چلیں‘ یہاں تک بھی بات ٹھیک تھی‘ آپ نے سامنا کیا۔ پھر آپ نے اپنے مزید آپشنز استعمال کیے اور قوم سے خطاب کیا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں بھی بولے۔ پھر آپ نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب داخل کرایا۔ تینوں بیانات میں دی گئی انفارمیشن ایک دوسرے سے نہیں ملتی تھی۔ اس پر سپریم کورٹ کو کہنا پڑا‘ یہ پتہ نہیں چل رہا کہ نواز شریف کب سچ اور کب جھوٹ بول رہے تھے۔ آپ کے پاس آپشن تھا کہ اپنی معلومات کو یکجا کرکے تینوں جگہوں پر ایسے بات کرتے کہ اس میں سے خامیاں نہ نکلتیں اور آپ برطرف نہ ہوتے۔ آپ نے مرضی سے تینوں جگہوں پر جھوٹ بولے‘ جو سپریم کورٹ نے پکڑے۔ آپ کے پاس ایک اور آپشن تھا کہ آپ قطری شہزادے کی الف لیلوی داستان سے بھرپور خط عدالت میں پیش نہ کرتے‘ جو آپ کے خلاف استعمال ہوا۔
سب سے بڑا آپشن یہ تھا کہ جب پاناما سکینڈل آیا تو آپ ایک ہائی مورال گرائونڈ لیتے اور قوم کو کہتے کہ اگرچہ آپ خود کو کلین سمجھتے ہیں‘ لیکن کیا کریں ایک بہت بڑا الزام لگ گیا ہے‘ اور یہ وزیر اعظم کے عہدے کی شان کے خلاف ہے۔ آپ استعفا دے کر نئے الیکشن کراتے تو یقینا یہ نعرہ بلند کر سکتے تھے کہ اس ملک میں کلرک تک کرسی نہیں چھوڑتا‘ لیکن آپ نے وزارت عظمیٰ چھوڑ دی۔ ایسا کرتے تو نہ کسی عدالت میں آپ کا ٹرائل ہونا تھا‘ نہ جے آئی ٹی بننا تھی‘ نہ آپ برطرف ہوتے اور نہ ہی نیب سے آج بچوں سمیت آپ کے وارنٹ گرفتاری نکل رہے ہوتے۔
آپ نے وہ آپشن بھی استعمال نہیں کیا کیونکہ آپ پُراعتماد تھے کہ سب سنبھال لیں گے‘ کوئی آسمان نہیں گرے گا‘ جبکہ وہی آسمان آپ کی سوچ پر مسکراتا رہا۔ اس کے بعد ایک اور بڑا آپشن آپ کو ملا۔ جب جے آئی ٹی آئی بنی اور حکم ہوا کہ پیش ہوں تو آپ کہتے کہ وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہو کر پیش ہوں گا تاکہ یہ روایت قائم نہ ہو کہ ملک کا وزیر اعظم اپنے جونیئر افسران کے سامنے پیش ہوا۔ اس سے آپ کی عزت پھر بڑھ جاتی۔
اب آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس بہت آپشن ہیں۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں رہ گیا۔ آپ کو عدالت کا سامنا کرنا ہے کیونکہ آپ کو علم ہے کہ اگر عدالت پیش نہ ہونے کا آپشن لیا تو پھر بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے پہلے قابل ضمانت وارنٹ جاری ہوں گے، پھر ناقابل ضمانت اور پھر آپ کو اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔ دنیا بھر کے اخبارات میں آپ کے نام سے اشتہار چھپیں گے کہ پاکستان کا سابق وزیر اعظم اشتہاری ہے‘ جہاں ملے اس بارے پاکستان میں نیب کو اطلاع دی جائے۔ اس پر بھی پیش نہ ہوئے تو ریڈ وارنٹ جاری ہوں گے۔ دنیا بھر کی پولیس کو کہا جائے گا کہ نواز شریف نام کا بندہ یا اس کے بچے اگر کسی جگہ پائے جائیں تو انہیں گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ پھر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اگر آپ گرفتار ہو کر پیش نہیں ہوتے تو بھی عدالت آپ کو چودہ برس سزا اور آپ کے خاندان کی پاکستان سے لندن تک کی تمام جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ آپ کے بچوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ آپ کو تمام نتائج کا علم ہے۔ اسی لیے آپ پیش ہو رہے ہیں۔ پہلے آپ کو ایک عدالت نے برطرف کیا تو دوسری عدالت نے اب سزا بھی دے دی۔ اس طرح آپ مظلوم بن سکتے ہیں اور دوبارہ لوگوں سے ہمدردیاں لی جا سکتی ہیں۔ اگر آپ عدالت میں پیش ہی نہ ہوں تو پھر یہ ہمدردیاں نہیں ملیں گی‘ اور ساری عمر کے لیے اشتہاری قرار پائیں گے۔ عدالتوں میں پیش ہو کر سزا بھگتنے میں بھی آپ کو سیاسی فائدہ نظرآتا ہے۔ 
آپ جی ٹی روڈ پر جا کر عوام کو ساتھ ملانے اور اپنا مقدمہ رکوانے کی کوشش کا آپشن پہلے ہی استعمال کر چکے ہیں۔ ایک اہم آپشن اور بھی تھا جو اگر آپ استعمال کرتے تو آج اس حالت کو نہ پہنچتے۔ آپ کو اللہ نے تین دفعہ اس ملک کا بادشاہ بنایا۔ شاید ہماری زندگیوں میں آپ کے بعد اور کوئی تین دفعہ اس تخت پر نہ بیٹھ سکے۔ آپ اس ملک کو اپنے گھر کی طرح چلاتے، اس کا خیال رکھتے، اسے اپنی جائیدادیں اور مال بنانے کے لیے استعمال نہ کرتے۔ اپنے بچوں کو اربوں کی جائیداد بنا کر دینے کی بجائے اس ملک کے بچوں کے لیے کام کرتے جن کے والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر آپ کے نام کے نعرے لگاتے تھے کہ شاید آپ ان کی زندگیاں بدل دیں۔ آپ اپنے بچوں کو ایمانداری سے زندگی گزارنے کی راہ دکھاتے۔ آپ اور آپ کے بچے ہمارے بچوں کے رول ماڈل بنتے تو آپ کا نام تاریخ میں عزت اور احترام سے لیا جاتا۔ پچپن میں پڑھتے تھے: Honesty is the best policy‘ اس وقت اس کی سمجھ نہ آتی تھی۔ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے کے بعد بھی آپ اور آپ کے بچوں کے وارنٹ جاری ہوتے اور عدالتوں میں دھکے کھاتے دیکھ کر اس قول کی اب سمجھ آئی۔
اگر آپ نے بھی یہ قول پڑھا ہوتا اور اس پر عمل کیا ہوتا تو آج آپ کو کسی آپشن کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ جو سب سے اہم آپشن تھا، اسے آپ نے کبھی استعمال ہی نہیں کیا۔ وہ تھا ایمانداری کا آپشن‘ جو تاریخ میں نہ صرف آپ کو عزت دلواتا، لوگوں کے دلوں میں آپ کا احترام جگاتا اور آپ کو ایک ایماندار وزیر اعظم کی حیثیت سے یاد رکھا جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں