مجھے تین دن لگے حوصلہ اکٹھا کرنے میں کہ طارق بھائی کو لاہور فون کروں۔ سوچتا رہا، مناسب لفظ ڈھونڈتا رہا۔ بیوی بار بار کہتی رہی کہ ابھی تک آپ نے فون نہیں کیا‘ وہ لوگ کیا کہیں گے کہ ان پر اتنی بڑی قیامت گزر گئی اور آپ کو ابھی تک فون کرنے کا بھی وقت نہیں ملا۔
میں ہر دفعہ چپ رہا کہ کیا جواب دوں۔ تیسرے دن طارق بھائی کو فون کیا۔ وہ حوصلے میں تھے‘ بولے: کیا کریں‘ اللہ کی رضا کے آگے سر ہی جھکا سکتا ہوں۔ پھر کہنے لگے: جب سے یہ حادثہ ہوا ہے‘ میں خود اپنی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوں۔ کیا میں نے اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرکے غلط کیا؟ اگر میں یہ نہ کرتا تو شاید یہ نہ ہوتا۔ میرے بچوں کے منہ سے کوئی بات نکلتی ہے تو میں پوری کر دیتا ہوں کہ ان کے دل میں کوئی حسرت نہ رہے مگر اب لگتا ہے کہ شاید میں غلط کر رہا تھا۔ وہ بولتے رہے اور میں چپ چاپ انہیں سنتا رہا۔
طارق محمود چوہدری میری بیوی کی فرسٹ کزن کے شوہر ہیں۔ ایک انسان دوست اور درد دل رکھنے والے طارق چوہدری کو پہلا بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب 2010ء میں ان کا بیٹا رازی چوہدری دوستوں کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا، گاڑی اس کا دوست چلا رہا تھا۔ ایک رکشہ کو بچاتے ہوئے گاڑی الٹ گئی اور اس میں وہ سترہ سالہ خوبصورت نوجوان جاں بحق ہوگیا۔
جب رازی کے جنازے کے لیے لاہور گیا تھا تو طارق بھائی کے حوصلے کو داد دی تھی۔ بار بار ایک ہی بات کرتے تھے کہ اللہ ہی کا دیا ہوا تھا‘ اس نے واپس لے لیا۔ میں خدا کی رضا کے آگے سر جھکاتا ہوں۔ جب رازی کو قبر میں اتارا جا رہا تھا تو بھی ایک باپ نے جو حوصلہ دکھایا‘ وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
سات سال گزر گئے تھے۔ شاذی باجی بھی دھیرے دھیرے بیٹے کی موت کے صدمے سے نکل رہی تھیں۔ درمیان میں چھوٹے بیٹے کی شادی کی۔ پوتا پیدا ہوا تو یوں لگا طارق بھائی اور شاذی باجی کو نیا رازی چوہدری مل گیا ہے۔ سب اسے رازی کا متبادل سمجھ کر غم بھولنے کی کوششوں میں لگ گئے مگر شاذی باجی اب بھی راتوں کو نوجوان بیٹے کے دکھ میں نہ سو سکتی تھیں۔ چہرے پر سنجیدگی آ گئی تھی۔ تاہم پوتے نے انہیں بھی دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے میں مدد دی اور وہ سب ایک نارمل زندگی گزارنے لگے۔
اب پچھلے جمعہ کے روز انہیں زندگی کا ایک اور بڑاجھٹکا لگا۔ ان کا چھوٹا بیٹا صائم چوہدری‘ جس کی عمر صرف بیس برس تھی‘ امریکا پڑھنے گیا ہوا تھا۔ امریکا میں اس کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور موقع پر ہی جان چلی گئی۔ گاڑی صائم کی تھی جس میں دو دوست بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی سے نکلے تو کسی دوست نے نئی گاڑی کی چابی مانگی، صائم نے چابی دے دی اور خود بھی سیٹ بیلٹ لگا کر ساتھ بیٹھ گیا کیونکہ رازی کی موت کا سبب اس کا سیٹ بیلٹ نہ لگانا بنا تھا۔ دوست نے گاڑی کو سپیڈ سے دوڑایا، ایک موڑ پر گاڑی بے قابو ہو کر پھسلی اور ایک درخت میں جا لگی۔ دونوں دوست شدید زخمی ہوئے لیکن صائم موقع پر ہی جاں بجق ہوگیا۔
مجھے نہیں پتا کہ طارق بھائی کو کس نے‘ کس طرح وہ خبر سنائی۔ دوسرے بیٹے کی موت کا صدمہ سہنا ان کے لئے قطعاً آسان نہ تھا۔ پھر طارق بھائی نے وہ خبر شاذی باجی اور اپنے بچوں کو کیسے سنائی‘ میں نہیں جانتا اور میں جاننا چاہتا بھی نہیں۔ ایک ماں‘ جو ابھی بڑے بیٹے کے صدمے سے بھی پوری طرح باہر نہ نکلی تھی‘ کا جو حال ہوا ہوگا، اس کا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایک بہن‘ جو اپنے اس بھائی سے بہت پیار کرتی تھی، وہ بھی شدید شاک کا شکار ہوئی۔ ابھی ایک ماہ پہلے ہی شاذی باجی امریکا گئی تھیں۔ صائم ان سب کو گاڑی پر پھراتا رہا۔ کینیڈا تک انہیں ساتھ لے کر گیا۔ سات سال کے اندر اندر ماں اپنا دوسرا بیٹا کھو چکی تھی۔
طارق بھائی بولتے رہے‘ صائم بڑا اچھا بچہ تھا۔ ہر کام آرام اور سلیقے سے کرتا تھا۔ جب سے بڑا بھائی رازی چوہدری کار ایکسیڈنٹ میں فوت ہوا تھا‘ وہ بہت زیادہ احتیاط کرتا تھا۔ اسے علم تھا کہ اس پر اپنے ماں باپ کا بہت دبائو ہے۔ طارق بھائی اور شاذی باجی بھی مسلسل نفسیاتی دبائو کا شکار تھے۔ کہیں کسی اور بیٹے کو کچھ ہو نہ جائے۔ تاہم صائم کو دیکھ کر انہیں تسلی ہوتی تھی کہ وہ ڈرائیونگ میں بہت احتیاط کرتا تھا۔
صائم نے امریکا میں داخلہ لیا تو بہت اچھا رزلٹ آیا جس پر طارق بھائی نے اسے نئی مرسیڈیز خرید کر دی تھی۔ اٹھائیس اگست کو صائم لاہور‘ اپنے گھر آیا اور بہن بھائیوں کے ساتھ بہت وقت گزارا۔ واپس جانے لگا تو طارق بھائی نے اسے بٹھایا اور بولے: میرے ساتھ وعدہ کرو تم امریکا میں اپنی گاڑی کی چابی کسی کو نہیں دو گے۔ تمہیں یاد ہوگا، تمہارے بھائی رازی چوہدری نے بھی اپنی گاڑی اپنے دوست کو دی تھی اور وہ تیز چلا رہا تھا اور اس طرح اس کی اور اس کے دوستوں کی جان چلی گئی تھی۔ تم خود بھی کسی اور کی گاڑی نہیں چلائو گے، وعدہ کرو۔ دوسری بات؛ کسی بینک سے کوئی کریڈٹ کارڈ کا فراڈ، کوئی قسط، کوئی کرایہ، کوئی غلط کام، کچھ بھی ایسا نہیں کرنا۔ تم نے امریکا میں ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بن کر رہنا ہے۔ جو کچھ چاہیے‘ مجھے بتانا۔ ایک باپ بار بار اپنے بیس سالہ بیٹے سے وعدے لیتا رہا اور بیٹا وعدے کرتا رہا۔
طارق بھائی چپ تھے۔ پھر اچانک بولے: اب کیا کروں یار۔ کتنے وعدے لے کر اسے گاڑی لے کر دی تھی کہ وہ کسی کو اپنی گاڑی کی چابی نہیں دے گا۔ وہ خود اچھا ڈرائیور تھا اور آرام سے گاڑی چلاتا تھا۔ شاید دوست نے ضد کی ہو گی کہ نئی گاڑی ہے‘ ذرا مجھے ڈرائیو کرنے دو۔ دوست کا اصرار باپ سے کیے وعدے پر حاوی ہو گیا۔ اور وہی ہوا جو اس کے بڑے بھائی رازی کے ساتھ ہوا تھا۔
طارق چوہدری بولے: تو کیا میں نے سب غلط کیا تھا؟ میں نے بچوں کی سب باتیں مانیں‘ تاکہ انہیں زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ رہے۔ وہ خاموش ہو گئے اور اپنے آپ سے مقدمہ لڑتے رہے۔ مجھے لگا کہ وہ اپنے آپ سے ہار گئے ہیں۔ وہ خود کو ملزم سمجھ رہے تھے۔
میں نے انہیں گلے لگایا اور ماتھا چوم کر کہا: سارے ماں باپ ایسے ہی ہوتے ہیں، جو بچوں کے لیے پوری دنیا ان پر نچھاور کر دینا چاہتے ہیں۔ آپ نے بچوں کے لیے وہی کیا جو ایک باپ کو اپنے بچوں کے لئے کرنا چاہیے تھا۔ بچوں کے لئے اگر اتنا نہ کرتے تو بھی آپ آج دکھی ہوتے۔
شاید طارق بھائی کو دکھ تھا کہ صائم نے ان سے وعدہ خلافی کی تھی مگر وہ اس کا اظہار نہیں کر رہے تھے۔ ایک دکھی باپ اپنے بیٹے کی وعدہ خلافی پر شکایت کرنے کے بھی قابل نہیں رہا تھا۔
نیویارک سے لاہور‘ بیٹے کی میت کا تکلیف دہ انتظار۔ آٹھ دن بعد میت گھر پہنچی۔ رات کے چار بجے‘ لاہور ایئر پورٹ سے بیٹے کی میت لی۔ گھر لائے اور پوری رات تابوت میں رکھی نوجوان بیٹے کی لاش پر، اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے رہے اور تابوت آنسوئوں سے گیلا ہوتا رہا۔
جنازہ ہوگیا تھا۔ وہ حوصلے میں تھے۔ قبر تیار تھی۔ بیٹے کو خود‘ اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ قبر پر مٹی پڑنی شروع ہوگئی تھی۔ وہ مٹی سے قبر کو بھرتا دیکھتے رہے۔ ہمیں لگا جو انسان اب تک بڑے حوصلے سے کھڑا تھا، وہ بیٹے کی میت پر مٹی پڑتے دیکھ کر ٹوٹ رہا ہے، تڑپ رہا ہے۔ بکھر رہا ہے۔ خود سے الجھ رہا ہے۔ خود کو نوچ رہا ہے۔ آنسوئوں کا سمندر بہہ نکلا تھا۔
قبر پر مٹی کب کی ڈالی جا چکی تھی۔ وقت رک گیا تھا ۔ قبرستان میں طویل خاموشی کے درمیان گھرے‘ اداس باپ سے اپنے بیٹے کی قبر سے ہٹا نہیں جا رہا تھا۔ یوں لگا جیسے ہمیں کہہ رہے ہوں کہ تم لوگ جائو۔ میں یہیں رہوں گا۔
اس لمحے مجھے لگا کہ میں نے بھی اب تک اپنے ماں‘ باپ، بہن بھائیوں کو قبروں کے حوالے کیا ہے لیکن میرا سارے دکھ ملا کر بھی اس باپ کے دکھ سے کم تھے، اس باپ کے دکھ سے جو اپنے دو جوان بیٹوں کو اتنی جلدی مٹی کے حوالے کرچکا تھا۔
دکھی باپ کو اب ایک اور دریا کا سامنا تھا۔