"RKC" (space) message & send to 7575

وزارتِ خارجہ اور نیب

نیب کے ترجمان نوازش علی نے ایک پریس ریلیز اور تصویر میڈیا کو فراہم کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اپنے دو‘ تین افسروں سمیت نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال اور نیب افسران سے ملاقات کر رہی ہیں۔ پریس ریلیز میں کہاگیا ہے کہ دونوں نے ''باہمی امور‘‘ پر بات چیت کی۔ کوئی تفصیل نہیں دی گئی کہ باہمی امور کیا تھے۔ 
کبھی سمجھا جاتا تھا کہ سی ایس ایس کے بعد جو نوجوان فارن آفس سروس چُوز کرتے ہیں وہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں، جو ڈی ایم جی اور پولیس گروپ کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوتے، نہ ہی انہیں مال پانی سے غرض ہوتی ہے۔ سب سے بڑا چارم اس میں بیرونِ ملک پوسٹنگ اور دوروں کا ہوتا تھا۔ دھیرے دھیرے یہ سب بدلنا شروع ہوا۔ میرے خیال میں اب فارن آفس کو جوائن کرنے والوں کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ خود کو اور بچوں کو بیرونِ ملک شہریت لے کر دینی ہے۔ یقینا سب افسران ایسے نہیں ہوں گے لیکن اکثریت یہی کر رہی ہے۔ جب بھی بیرونِ ملک پوسٹنگ ملے تو واپسی پر اپنے بچوں کو باہر سیٹل کرا کے آئو۔
جہاں دیگر محکموں میں زوال آیا وہیں فارن آفس بھی اس سے بچا نہ رہ سکا۔ فارن پالیسی کی ناکامیاں اب کھل کر سامنے آ رہی ہیں کیونکہ افسران کی توجہ بیرونِ ملک شہریت، بچوں کو سیٹل کرانے تک محدود ہو گئی ہیں۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ خوشامد اور سفارش کے ذریعے کون بڑے عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔ بابوز فارن پالیسی کا کام چھوڑ کر وزارتِ خارجہ کے کمرشل کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ایک این جی او کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس این جی او کو فارن آفس کی کچھ خواتین چلاتی ہیں۔ اس سارے کام میں فارن آفس کا دفتر اور دیگر وسائل استعمال ہوتے ہیں۔ اس این جی او کے تحت بیرونِ ملک تمام سفارت کاروں کی بیویوں کو یہ کام سونپا جاتا ہے کہ وہ اس کے لیے پیسے اکٹھے کریں اور پاکستان بھیجیں۔ یوں بیرونِ ملک سے اچھے خاصے پیسے اس این جی او کو ملتے ہیں۔ ان افسران کی بیگمات نے ایک اور کمال کیا کہ حکومت کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی کشکول اٹھایا اور اسلام آباد میں واقع تمام غیر ملکی سفارت خانوں سے چندہ مانگنا شروع کر دیا۔ بھارتی سفارت خانے نے بھی اس این جی او کو ایک لاکھ روپے کا چندہ دیا۔ ایک دن میں تیس لاکھ روپے اکٹھے کیے گئے۔ اس این جی او کو اس وقت کے فارن سیکرٹری اعزاز چودھری کی بیگم چلا رہی تھیں جبکہ طارق فاطمی کی بیگم‘ جو ایم این اے بھی ہیں، پیٹرن انچیف تھیں۔ اس این جی او کو ایک پرائیوٹ ادارے نے بھی تین لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ اس سارے عطیے میں سے تین لاکھ روپے طارق فاطمی کی بیگم زہرہ صاحبہ کی این جی او کو دے دیا گیا۔ یوں سیکرٹری خارجہ کی بیگم اپنی این جی او کے لیے بھی چندہ اکٹھا کر رہی تھیں اور اکٹھا کرکے طارق فاطمی کی بیگم کی این جی او کو بھی حصہ دیا جا رہا تھا۔ جیسے کہا جاتا ہے دنیا میں کوئی فری لنچ بھی نہیں ہوتا اس طرح ایک پرائیوٹ سکول کے مالک نے جو تین لاکھ روپے عطیہ دیا تھا اس کی قیمت وصول کرنے کا وقت آ گیا۔ سکول کے مالک کو پتا چلا کہ فارن آفس کی اس این جی او کو برسوں پہلے وزیراعظم کے حکم پر سی ڈی اے نے اربوں روپے کا دس کنال کا ایچ ایٹ سیکٹر میں ایک پلاٹ فلاحی سرگرمیوں کے نام پر الاٹ کیا تھا، جو خالی پڑا ہے۔ اول تو قانون کے تحت کسی این اجی او کو پلاٹ الاٹ نہیں ہو سکتا تھا۔ چلیں ہوگیا، دوم، پھر یہ کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا؛ تاہم تین لاکھ عطیہ لینے کے بعد اس کمرشل پلاٹ کو ان بیگمات نے مل کر اس پرائیوٹ سکو ل کے مالک کو دے دیا اور متعلقہ ادارے نے بھی فارن آفس کے دبائو میں تمام رولز کوریلیکس کر دیا۔ اس ڈیل کی شرائط بڑی مزے کی تھیں کہ اربوں کے اس پلاٹ‘ جس کی کوئی قیمت نہیں لی گئی، پر سکول بنایا جائے گا جس میں فارن آفس کے بچے پڑھیں گے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار طالب علم ہوں گے اور ان کی فیس تقریباً بیس سے تیس ہزار روپے فی کس ہو گی۔ فارن آفس کے بچوں کو فیس میں رعایت دی جائے گی اور باقی بچوں سے پوری فیس چارج کی جائے گی۔ این جی او کی بیگمات کو سکول میں نوکری ملے گی جبکہ سالانہ ڈیڑھ فیصد منافع بھی این جی او کو دیا جائے گا۔ یوں سکول کے اس مالک کی نسلیں سدھر جائیں گی کہ ہر ماہ کروڑوں روپے فیس کما کر وہ سال میں ڈیڑھ فیصد یا چند لاکھ روپے این جی او کو دے گا۔ 
جب میں نے یہ سکینڈل بریک کیا تو اس پر سینیٹ کی کمیٹی برائے کابینہ کے چیئرمین طلحہ محمود نے نوٹس لیا اور کارروائی شروع کر دی۔ سینیٹرز پر دبائو پڑنا شروع ہو گیا۔ ایک طرف فارن آفس کا دبائو تو دوسری طرف سکول مالک کا، جس کے سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔جب انکوائری شروع ہوئی تو دل دہلا دینے والے انکشافات ہوئے کہ کیسے اربوں روپے کا کمرشل پلاٹ وہ شخص محض تین لاکھ روپے این اجی او کو عطیہ دے کر لے اڑا تھا۔
دو سال تک انکوائری ہوتی رہی اور کمیٹی ممبران کامل علی آغا، کلثوم پروین اور دیگر سینیٹرز لڑتے رہے۔ آخرکار تمام تر دبائو کے باوجود کمیٹی ممبران نے فیصلہ دیا کہ یہ اربوں روپے کا پلاٹ غیر قانونی طور پرالاٹ کیا گیا تھا جو بعد ازاں فارن آفس کے افسران کی بیگمات کی این جی او نے سکول مالک کو مفت میں دے دیا تھا۔ وزیراعظم پاکستان‘ جو اس وقت نواز شریف تھے، کو کمیٹی نے سفارش بھیجی کہ اس پلاٹ کو کینسل کیا جائے اور ذمہ دارانِ فارن آفس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کارروائی خاک ہوتی‘ اس سکینڈل کے مرکزی کردار کو امریکہ میں سفیر لگا دیا گیا۔ ایک سال ہونے کو ہے، ابھی تک وزیراعظم نے اس پلاٹ کو کینسل نہیں کیا۔ وزیراعظم ہائوس میں طارق فاطمی اور اعزاز چودھری نے ایکشن رکوا لیا ہے کیونکہ ان دونوں کی بیگمات اس ڈیل میں شامل تھیں۔
اب اچانک جسٹس جاوید اقبال کے ساتھ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی ملاقات کی تصویر چھپی ہے۔ صرف اتنا کہا گیا ہے کہ باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوئی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا گیا کہ اس ملاقات کا کیا ایجنڈا تھا۔ کیا نیب‘ فارن آفس سکینڈلز کی تحقیقات کر رہا ہے؟ یا پھرکسی طرف سے حکمرانوں کے سکینڈلز کی تحقیقات میں بیرون ملک سے لی جانے والی مدد میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع کے تمام تر اعتراضات کے باوجود اب تک چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خلاف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؛ حالانکہ شروع میں میرے اور عامر متین جیسے صحافیوں کا خیال تھا کہ شاید وزیراعظم اور اپوزیشن خورشید شاہ کی مرضی سے لگے نیب چیئرمین کچھ اتنا کام نہیں کر سکیں گے۔ وہ بھی قمر زمان چودھری کی طرح حکمرانوں کے مقدمات ہی سیٹل کریں گے اور کرپٹ کو کور دیں گے، لیکن اب تک جسٹس جاوید اقبال صاحب نے ہمارے تمام اندازے غلط ثابت کیے ہیں اور ہمیں بالکل کوئی غم نہیں کہ ہم غلط ثابت ہوئے اور جسٹس جاوید اقبال اچھے اقدامات کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر فارن آفس کے مقدمات کا جائزہ لیا جا رہا ہے تو پھر کیونکر اربوں روپے کی اس ڈیل کو نظرانداز کیا جارہا ہے جس میں ایک پارٹی اربوں روپوں کا پلاٹ صرف تین لاکھ روپے عطیہ دے کر لے اڑی؟
ایک ٹی وی شو میں جب متعلقہ شخص کا مؤقف لیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ میرٹ پر ہوا تھا۔ میں نے پوچھا تھا کہ کون سے اخبار میں اشتہار دیا گیا تھا کہ فارن آفس کے پاس دس کنال کا کمرشل پلاٹ ہے جسے وہ لیز کرنا چاہتے ہیں اور پارٹیاں شریک ہوں اور جو اچھی بولی دے گی، پلاٹ اسے ملے گا؟ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ یہ پلاٹ پلیٹ میں رکھ کر ان کی تحریر کردہ شرائط پر پیش کر دیا گیا تھا۔ اس پلاٹ کی قیمت بقول سینیٹ کمیٹی ممبران‘ اربوں روپے میں ہے لیکن یہ مفت میں دیا گیا تھا، یہ کمرشل پلاٹ اگر بولی پر بیچا جاتا تو یقینا پانچ سے چھ ارب روپے میں فروخت ہوتا۔
اگر نیب نے اس فائل پر تحقیقات شروع کر دیں اور سب سے بڑھ کر سینیٹ کمیٹی کے ہونیوالے درجنوں اجلاسوں کی کارروائی کا ریکارڈ اور منٹس منگوا کر پڑھ لیے تو پتا چلے گا کہ پاکستان کی اشرافیہ جب لوٹنے پر آتی ہے تو کیا کیا کرتی ہے۔
ویسے وزارت ِخارجہ کے بابوئوں کو بھی تو داد دیں، سفارت کاری کرنے نکلے تھے، راستے میں ہی این جی او کی دکان کھول کر کاروبار کرنے بیٹھ گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں