ویسے تو ہمیں اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ جو کچھ قصور میں پولیس نے کیا۔ برسوں کی محنت کے بعد ہم نے نالائق افسران کی فورس تیار کی ہے‘ جو ہر وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر انتظار کرتی رہتی ہے کہ کب ٹی وی پر ٹِکر چلے کہ شہباز شریف صاحب نے فلاں بات کا نوٹس لے لیا ہے۔ شہباز شریف نے بھی دھیرے دھیرے سب اداروں اور وزراء کی پاورز اپنے ہاتھ میں لے لی ہیں کہ اب صوبے میں کوئی چھوٹا سا کام بھی ہونا ہے تو اس کے لیے ان کی انگلی کا اشارہ ضروری ہے۔ اب ہوم منسٹر، ہوم سیکرٹری کا کوئی رول نہیں رہا۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او اس وقت تک اپنے علاقے میں پیش آئے کسی واقعہ پر کارروائی نہیں کرے گا جب تک شہباز شریف کے نوٹس لینے کا ٹی وی ٹکر نہیں چلے گا۔ لوگوں کو احساس دلا دیا گیا ہے کہ اگر آپ نے زندہ رہنا ہے یا انصاف لینا ہے تو پھر آپ کو شہباز شریف کے ٹکر کا انتظار کرنا ہو گا۔
حیرانی مجھے اس بات پر ہو رہی ہے کہ پہلی دفعہ لوگوں نے سخت ردعمل دیا اور اپنے لیے انصاف مانگنے‘ وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ اب تک یہ ہوتا آیا ہے کہ لوگ ہر طرح کا ظلم و تشدد برداشت کر لیں گے، ذلت آمیز رویوں کے عادی ہو جائیں گے ‘ بڑے سے بڑا ظلم بھی برداشت کرتے جائیں گے لیکن طاقتور طبقات کے خلاف کھڑے نہیں ہوں گے۔ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی لیڈروں کا ذاتی رونا دھونا سننے بھی جلسوں میں آئیں گے لیکن اپنے لیے کبھی کھڑے نہیں ہوں گے۔ لیکن اس دفعہ قصور میں یہ مِتھ بھی توڑ دی گئی اور پورا شہر سراپا احتجاج بن گیا۔ تو کیا اب ان حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی ہیں؟ اب لوگوں نے ان سیاستدانوں کے ڈیروں پر حملے شروع کر دیئے ہیں۔ تو کیا اسے بھی نواز شریف صاحب کی زبان میں ''عوامی انصاف‘‘ کہا جائے؟ کہ جو جتنے لوگ اکٹھے کر سکتا ہے‘ وہ اپنی مرضی کا انصاف لے سکتا ہے۔ اب ہزاروں لوگ قصور میں اپنی مرضی کا انصاف کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان سے کیا گلہ؟ نواز شریف بھی تو اسی عوامی انصاف کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ اب عوام باہر نکل کر خود انصاف مانگ بھی رہے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔
پولیس کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمران بھی حیران ہوں گے ان دبے اور کچلے ہوئے انسانوں کو کیا ہوا کہ اچانک چنگاری بھڑک اٹھی۔ ہم نے تو انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا تھا کہ وہ بغاوت کا سوچ بھی سکیں۔
یہ دراصل برسوں کا پولیس فورس کا وہ گھنائونا رویہ ہے جس نے لوگوں کو یقین دلا دیا ہے کہ یہ پولیس عوام کے تحفظ کے لیے نہیں بنی۔ یہ ہر وقت حکمرانوں کی گاڑیوں کے آگے پیچھے بھاگنے اور ان کے بچوں کی حفاظت کے لیے بنی ہے۔ ان شاہی خاندان کے بچوں کے ساتھ تیزی سے چلتے سکواڈ میں بیٹھے پولیس اہلکاروں کا کام یہ ہے کہ وہ سڑکیں بلاک کریں اور نفرت سے عام گاڑیوں کو ایک طرف ہونے کا اشارہ کریں کہ شاہی سواری گزر رہی ہے۔
اسی لیے تو زینب کے باپ نے کہا ہے کہ وہ تو کیڑے مکوڑے ہیں، اصل انسان تو رائیونڈ میں رہتے ہیں۔ پانچ دن تک یہ خاندان پولیس کے پاس جاتا رہا ہے کہ ہماری بچی ڈھونڈدیں لیکن کسی کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی۔ پانچ دنوں بعد لاش ہی ملی۔ ان پولیس افسران کو یقین دلا دیا گیا ہے وہ کسی کو جواب دہ نہیں‘خصوصاً عوام کو تو کسی صورت نہیں جس کے ٹیکس کے پیسوں سے وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ انہیں محنت کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ وہ بندے مار دیں، وہ انسانوں کو قتل کردیں، وہ کسی پر تشدد کریں ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ اگر کسی کو ایک آدھ دن کے لیے معطل کر دیا گیا تو بھی بہت جلد اسے ترقی اور پوسٹنگ ملے گی۔
قصور میں جب بچوں کی جنسی تشدد پر مبنی ویڈیوز سامنے آئی تھیں تو اس وقت پولیس اور سیاستدانوں نے مل کر اس واقعے کو دبا دیا تھا۔ الٹا والدین پر الزامات لگائے گئے تھے۔ پولیس بھی انکاری ہوگئی تھی کہ اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔ رانا ثناء اللہ فرماتے تھے کہ آپس کے جائیداد کے جھگڑوں کی وجہ سے والدین الزامات لگا رہے ہیں۔ پولیس نے سوچا اگر ہم نے مان لیا کہ ایسے واقعات ہوئے تھے تو پھر ہماری عزت نہیں رہے گی لہٰذا انہوں نے اس میں اتنی ہی دلچسپی لی کہ سب ملزمان بری ہوکر گھر پہنچ گئے۔ اس لیے اِس دفعہ جب زینب کا واقعہ ہوا تو لوگوں کو پھر احساس ہوا کہ وہی پرانا کھیل قصور پولیس اور پنجاب کے حکمران دہرائیں گے اور سارا الزام والدین پر ہی دھر دیا جائے گا۔ اور وہی ہونے جا رہا تھا‘ جب اپنے حمایت یافتہ ٹی وی چینلز اور کرائے کے لبرلز کی مدد سے یہ بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ تو سارا والدین کا قصور تھا کہ وہ عمرہ کرنے کیوں گئے اور انہوں نے بچی کو باہر کیوں جانے دیا؟ اب سارا قصور والدین کا ہو گیا ہے۔
لوگوں کو پتا چل گیا ہے کہ اب پولیس ان کی محافظ نہیں رہی۔ سیاستدانوں کو اپنی عزت سے زیادہ‘ سیاسی ساکھ کی فکر ہے۔پنجاب میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس نے دھیرے دھیرے اپنے اختیارات اور پاورز پر کمپرومائز کر لیا ہے۔ ڈی ایم جی اور پولیس نے سوچ لیا ہے کہ چاہے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘ وہ ادا کریں گے، انہیں عہدہ چاہیے بس۔ شہباز شریف صاحب نے پنجاب میں ایک اور ماڈل پیش کیا ہے کہ پولیس اور ڈی ایم جی کو گھر کی باندی کیسے بنانا ہے۔ انہوں نے گریڈ سترہ کے افسر کو گریڈ انیس کی پوسٹ دے کر خرید لیا۔ جونیئر ترین افسران ڈپٹی کمشنر لگا دیئے گئے۔ کبھی میچور اور سمجھدار افسران کو کافی سروس کے بعد ڈپٹی کمشنر لگایا جاتا تھا لیکن اب کسی بھی ضلع میں چلے جائیں تو علم ہو گا کہ کیسے کیسے جونیئر افسران نے پوزیشن سنبھال لی ہیں۔ ہر ضلع پہلے سے زیادہ بدترین شکل میں ہے۔ لوئر مڈل کلاس سے آئے یہ نوجوان اب اپنی بھوک مٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلی فرمائش یہ ہوتی ہے کہ میرے ٹبّر کے لیے سرکاری گاڑیاں اکٹھی کی جائیں۔ لیہ میں پچھلے سال تک جو ڈپٹی کمشنر تھا وہ سیلاب متاثرین کے فنڈز تک کھا گیا۔ اسے تبادلہ کر کے اینٹی کرپشن میں بھیج دیا گیا کہ مزید مال بنائو۔ اب لیہ میں جو ڈپٹی کمشنر لگا ہوا ہے اسے بچوں کے سرکاری سکول کے فنڈز میں سے نئی گاڑی چاہیے تھی۔ میں اس سٹوری پر کام کر رہا تھا کہ اُس تک خبر پہنچ گئی اور وہ ڈر گیا اور آئیڈیا ڈراپ ہوگیا۔ یہ ہے ہماری بیورو کریسی کی معراج۔ یہ اپنے اضلاع میں عوام اور علاقہ کی بھلائی کے لئے نہیں جاتے بلکہ اپنے خاندان کی بھلائی ان کا پہلا اور آخری خواب ہوتا ہے۔ کون کس ضلع سے کتنی لوٹ مار کر کے لاہور واپس جا سکتا ہے، اب ضلعی افسران میں یہ مقابلہ ہو رہا ہے۔
اب اس بیورو کریسی اور سیاستدانوں نے ایکا کر لیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے کام کرتے ہیں۔ جو فنڈز اسلام آباد یا لاہور سے ایم این اے یا ایم پی اے لے کر آتا ہے‘ اس کام کا ٹھیکہ ان کے فرنٹ کنٹریکٹر کو ہی ملتا ہے۔ ایک جعلی قسم کا کام کیا جاتا ہے کہ کتنے ٹھیکیداروں نے بولی میں شرکت کی۔ کامیاب ٹھیکیدار وہی ہوتا ہے جس کا نام سیاستدان دے چکا ہوتا ہے۔ ہم سب نے بھی اب اس نظریے کے ساتھ کمپرومائز کر لیا ہے کہ سیاستدانوں نے کرپشن کرنی ہی ہوتی ہے اور بیوروکریسی نے اس کرپشن میں ان کا ساتھ دے کر اپنا حصہ وصول کرنا ہوتا ہے۔
اسی طرح کا حال پولیس افسران کا ہے۔ ایک پولیس افسر کی عزت کرتا تھا، ایک آدھ دفعہ اس کی تعریف بھی کر دی۔ اگلی دفعہ ملے تو بولے آپ میری تعریف نہ کیا کریں کیونکہ آپ کی تعریف سے پنجاب کے حکمران ناراض ہوتے ہیں اور پوسٹنگ نہیں ملتی۔ میں نے کہا: درست فرمایا، میں ایسے بندے کی تعریف کر رہا تھا جسے پوسٹنگ عزیز ہے، اپنے کردار کی تعریف نہیں۔
ویسے اس واقعے کے بعد بھی شہباز شریف کی پنجاب میں حکومت کا جواز بنتا ہے کہ جب زینب کے باپ نے انصاف کے لیے شہباز شریف یا ان کی ایڈمنسٹریشن کی بجائے آرمی چیف اور چیف جسٹس سے اپیل کی ہے؟ یہ اپیل شہباز شریف کے اقتدار کے دس سال بعد کی گئی ہے۔ پنجاب کے حکمرانوں اور بیوروکریسی کے لیے اور شرم کی کیا بات کیا ہو سکتی ہے کہ دس سال اقتدار کے بعد بھی ایک باپ کو اپنی بیٹی کے انصاف کے لیے آرمی چیف اور چیف جسٹس پر اعتماد ہے، دس سال سے وزیراعلیٰ رہنے والے پر نہیں۔ اس کے بعد بھی لوگ اقتدار سے چمٹے رہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے... چمٹے رہو بھائی۔ جب تک بپھرے لوگ وہی کام نہ شروع کر دیں جو خونیں انقلاب کے دنوں میں ہوا کرتا ہے، جسے آج کل نواز شریف کی زبان میں عوامی انصاف کہا جاتا ہے!