ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں پشتونوں کے سرخیل محمود خان اچکزئی تقریر کرتے ہوئے ایک سیکرٹ ایجنسی کے بریگیڈیئر پر یہ الزام لگا رہے تھے کہ اس نے تن تنہا پوری بلوچستان حکومت گرا دی۔ وہ چیف جسٹس اور آرمی چیف سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ اس کا نوٹس لیں۔
پہلے خبر باہر نکلی کہ یہ ہاتھ کی صفائی استاد زرداری نے دکھائی ہے۔ انہوں نے اپنے پرانے خدمت گزار کے ذریعے بلوچستان میں سب ایم پی ایز کو نوٹوں کی زبان میں سمجھایا کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے ان کی اپنی حکومت ہو تاکہ وہ مرضی کے سینیٹر منتخب کر سکیں۔ شاید ان ممبران کو یہ بھی سمجھایا گیا ہو کہ اس طرح تم لوگ اپنے ووٹ کی قیمت خود بھی وصول کر سکو گے ورنہ پارٹی فنڈ کے نام پر آپ کا ووٹ چار پانچ کروڑ روپے میں بیچ کر سینیٹ کا ٹکٹ کسی ٹھیکیدار کو ملے گا۔ قوم پرستی کا تڑکا بھی لگایا گیا ہوگا کہ اسلام آباد میں بیٹھے پنجاب کے حکمران کیسے کوئٹہ کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہاں سے کون سینیٹر بنے گا اور کون نہیں، ایسا موقع بار بار تھوڑی ملتا ہے؟ اور پھر سب ایم پی ایز ایک ساتھ ہی سجدے میں گر پڑے ہوں گے اور حکومت بدل گئی۔
زرداری صاحب نے اس کا کریڈٹ بھی لے لیا کہ بلوچستان کی حکومت گرانے میں ان کا ہاتھ تھا۔ ویسے ایک بات بتائوں جب پہلی دفعہ میں نے یہ انکشاف پڑھا کہ بلوچستان کی حکومت گرانے میں زرداری صاحب کا ہاتھ ہے تو یقین کریں میں اس پر ہنس پڑا تھا۔ مجھے واقعی یقین نہیں آیا کہ بھلا کیسے ایک بندہ‘ جس کی پارٹی کے ایم پی ایز بھی زیادہ تعداد میں ہائوس میں نہ ہوں‘ ایک صوبائی حکومت کو الٹ پلٹ کر رکھ سکتا ہے۔ اور وہ بھی جب وزیراعلیٰ سردار زہری جیسا بندہ ہو اور وفاقی حکومت بھی ان کی بیک پر کھڑی ہو؟ لیکن اب لگتا ہے کہ ہم جسے ہنسی مذاق سمجھ بیٹھے تھے وہ واقعی ایک تلخ حقیقت تھی۔ زرداری صاحب کا دائو چل گیا، انہیں سمجھ آ گئی کہ سب کی قیمت ہوتی ہے، اچھا خریدار وہی ہے جو اچھی قیمت لگا کر خرید لے۔
ابھی اس حیرانی سے باہر نہیں نکلے تھے اب اچکزئی صاحب فرما رہے ہیں کہ نہیں! یہ سب کام ایک سیکرٹ ایجنسی کے بریگیڈیئر نے کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ زرداری صاحب کے پرانے خدمت گار اور افسر کا یہ جوائنٹ وینچر ہو۔مان لیتے ہیں زرداری صاحب نے ہاتھ کی صفائی دکھائی یا ایک بریگیڈیئر نے پوری حکومت گرا دی اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں بیٹھی دیکھتی رہیں۔ کیا ان دس برسوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سربراہ اپنے قدموں پر بھی نہ کھڑے ہو سکے کہ وہ ایک بریگیڈیئر کے ہاتھ نہ گرتے؟ اور ان کے ایم پی ایز کردار کی کچھ جھلک دکھاتے؟ تو کیا یہ سارا الزام زرداری صاحب اور ایک بریگیڈیئر پر دھر دینا چاہیے کہ ان دونوں نے حکومت الٹ دی یا کچھ الزام ان ایم پی ایز پر بھی دھرنا چاہیے جنہوں نے مال پانی پکڑ کر کسی اور کو وزیراعلیٰ بنا دیا؟
آپ نے یہ بات نوٹ کی کہ اچکزئی صاحب نے کسی بھی جگہ پر اُن ایم پی ایز کو الزام نہیں دیا جنہوں نے اپنی حکومت گرائی۔ آپ کو یوں لگے گا کہ سارا قصور زرداری صاحب اور مذکورہ فوجی افسر کا ہی تھا۔ اچھی خاصی حکومت چل رہی تھی کہ اچانک دو افراد نے‘ جن کا دور دور تک بلوچستان سے کوئی تعلق نہ تھا‘ راتوں رات پانسہ پلٹ دیا۔یہ الزام کس کو دیا جانا چاہیے؟ دو ملزم تو ہم نے ڈھونڈ لیے ہیں جو اس کے ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں: ایک زرداری صاحب اور دوسرا وہ فوجی افسر۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں اکیلے ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟
نواز لیگ اور ان کے حمایتی کس منہ سے یہ طعنہ دے سکتے ہیں کہ ان کی حکومت خفیہ ایجنسی کے کسی افسر نے گرائی جبکہ اس جماعت کے بڑے گرو خود فوجی افسران سے خفیہ ملاقاتوں کے لیے مشہور ہیں؟ کیا نواز شریف اور شہباز شریف نے کوئی ایسا نیا سبق پڑھایا تھا جسے پڑھ کر بلوچستان اسمبلی کے لوگ وفاداریاں نہ بدلتے اور نہ ہی مبینہ طور پر کسی فوجی افسر سے ملاقاتیں کرتے؟ کیا یہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان نہیں تھے جو جنرل کیانی سے چھ سال تک خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے تاکہ پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کے لئے راہ ہموار ہو سکے؟ جنرل پاشا کے لائے میمو گیٹ پر نواز شریف صاحب کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے اور کمشن بنوا لیا تھا۔
جب یہ خبر باہر نکلی تو خود چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں جنرل کیانی سے ایک درجن ملاقاتوں کی تصدیق کی تھی۔ پھر یہ بھی نہ بھول جائیے گا کہ پاکستان واپسی سے قبل لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف خود چل کر رحمن ملک کے گھر گئے تھے جہاں انہوں نے بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت یہ طے پایا تھا کہ دونوں لیڈرز سرونگ فوجی جرنیلوں سے ملاقاتیں نہیں کریں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف سازش کریں گے۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بینظیر بھٹو لندن سے دبئی چلی گئیں جہاں انہوں نے جنرل مشرف سے خفیہ ملاقات کی اور این ار آو کو آخری شکل دی جبکہ وطن واپسی کے بعد حکومت بنتے ہی پہلا کام جو شہباز شریف اور چوہدری نثار نے کیا ‘وہ رات کے اندھیرے میں جنرل کیانی سے ملاقات تھی۔ اب ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ ابھی معاہدے کی اس شق کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ دونوں نے نہ صرف فوجی افسران سے ملاقاتیں کیں بلکہ اپنے اپنے اقتدار کے لیے جرنیلوں کو ساتھ ملانے کی کوششیں بھی کیں۔ جب نواز شریف سے ایک پریس کانفرس میں پوچھا گیا کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار آج کل جنرل کیانی سے ملاقاتیں کررہے ہیں تو وہ حسبِ عادت بھولے بن گئے اور بولے: مجھے تو علم نہیں۔ اندازہ کریں!کیا یہ ممکن ہے کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار فوجی جنرل سے ایک درجن خفیہ ملاقاتیں کر لیں اور نواز شریف کو علم نہ ہو؟ یہ دراصل طریقۂ واردات ہے۔ ایک طبقے کی نمائندگی نواز شریف کرتے ہیں۔ فوج اور ایجنسیوں پر تنقید‘ خود کو وہ جمہوریت کا لیڈر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف چھوٹے بھائی کو ٹپس دیتے ہیں کہ کل رات جنرل کیانی سے ملاقات میں کون سے اہم پوائنٹس آپ نے اٹھانے ہیں۔
محمود اچکزئی کو بھی شہباز شریف اور چوہدری نثار کی جرنیلوں سے پیپلز پارٹی دور میں کی گئی درجنوں خفیہ ملاقاتوں پر کوئی اعتراض نہیں‘ جس کے نتیجے میں میمو گیٹ لایا گیا، گیلانی برطرف ہوئے اور پھر پیپلز پارٹی کی جگہ نواز لیگ کی حکومت کا بندوبست کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ اس پورے کھیل میں جنرل کیانی کو بھی لالچ دیا گیا کہ انہیں کوئی نہ کوئی بڑا رول مل جائے گا۔ اس لیے جنرل کیانی آخری دنوں میں نواز شریف کی گاڑی تک ڈرائیو کرتے دکھائی دیئے تھے۔ لیکن یہ بھائی اتنے سمجھدار ہیں کہ نہ صرف کیانی صاحب کو کچھ نہیں دیا بلکہ ان کے تجویز کردہ جنرل کو آرمی چیف بھی نہیں بنایا۔
اچکزئی اس لیے شہباز شریف کی فوجیوں سے خفیہ ملاقاتوں اور ان کے نتیجے میں ملنے والی حکومت پر تنقید نہیں کرتے کہ آج کل وہ بھی رائیونڈ دربار کے ایک درباری بن چکے ہیں۔ آج انہیں فیض بھی اسی پنجابی اور پنجاب سے ملا ہے۔ اندازہ کریں بلوچستان میں حکومت کون بنائے گا، کون وزیر، کون مشیر اور کون وزیراعلیٰ ہو گا، کون کتنے عرصے کے لیے بنے گا اور کس کا بھائی گورنر ہوگا، اس کا فیصلہ رائیونڈ کے دربار میں کراتے رہے ہیں اور اب بھی یہ فیصلے وہیں ہو رہے ہیں۔ یہ پختون اور بلوچ خود آپس میں بیٹھ کر یہ فیصلہ نہیں کرسکتے۔ انہیں نواز شریف کی شکل میں ایک عدد پنجابی کی ضرورت ہے۔
یہ کھیل آج کا نہیں ہے بہت پرانا ہے۔ یہ صرف لیول کا فرق ہے۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار کی پہنچ ایک آرمی چیف تک ہوتی ہے لہٰذا وہ وہاں خفیہ ملاقاتیں کرکے حکومت حاصل کرنے کی ڈیل کرتے ہیں۔ میرے پیارے بلوچستان کے بلوچ اور پختون ایم پی ایز کی اپروچ ایک بریگیڈیئر لیول تک ہے۔ جو کام شہباز شریف اور چوہدری نثار اسلام آباد میں کرتے ہیں وہی کام یہ بلوچ اور پشتون کوئٹہ میں کرتے ہیں۔ دونوں کا مفاد حکومت اور پیسہ ہے۔ کوئی زیادہ‘ کوئی کم۔ کوئی بڑے فوجی افسر سے ڈیل کرتا ہے تو کوئی اس کے ماتحت سے۔ بینظیر بھٹو کا لیول بڑا تھا انہوں نے جنرل مشرف سے این آر او پر ڈیل کی۔ شہباز شریف نے جنرل کیانی سے اور بلوچستان کے ایم پی ایز نے ایک بریگیڈیئر سے۔ فرق صرف فوجی رینک اور سیاسی لیول کا ہے۔ ورنہ برائے فروخت کا تمغہ سینے پر سب سجائے پھرتے ہیں۔ بس مصر کے بازار میں ریٹ ذرا تگڑا لگنا چاہیے!