جولائی 2013ء کی بات ہے‘ نواز شریف صاحب نے وزیراعظم بنتے ہی سب سے پہلے چین کے دورے کا پروگرام بنایا۔ سب حیران کہ سعودی عرب کو چھوڑ کر وہ چین کیوں جا رہے ہیں۔ چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔روایتی طور پر پاکستان کا وزیراعظم حلف کے بعد سعودی عرب کا دورہ کرتا ہے‘ جہاں وہ عمرہ ادا کرنے کے علاوہ شاہی خاندان کی مدد کا بھی خواہاں ہوتا ہے۔ اور تو اور شوکت عزیز صاحب بھی حلف اٹھانے کے بعد سعودی عرب گئے تھے اور بڑھک ماری تھی کہ میں خود اپنی جیب سے سب اخراجات ادا کروں گا۔ ساتھیوں اور دوستوں کو لے کر گئے تھے تاکہ سب عمرہ کریں۔پاکستان کو شوکت عزیز کی شکل میں ہیرا مل گیا تھا۔ شوکت عزیز کی فیاضی اور اصول پسندی پر کالم لکھے گئے اور سیاستدانوں کو شرم دلانے کی کوشش کی گئی کہ دیکھیں کیسا درد دل رکھنے والا وزیراعظم ملا ہے‘ جو آپ لوگوں کی طرح قوم کے پیسوں سے عمرہ نہیں کرتا۔ کچھ عرصے بعد قومی اسمبلی میں دستاویزات پیش ہوئیں جن میں لکھا تھا کہ شوکت عزیز اور ساتھیوں کے عمرے کی ادائیگی عوام کے کروڑں روپے سے کی گئی تھی۔ آج تک شوکت عزیز نے شرمندگی کا اظہار کیا نہ معافی مانگی اور نہ ہی اس انکشاف کے بعد چیک بنا کر حکومت پاکستان کو بھیج دیا کہ یہ لیں پیسے۔ ایسے ہی جب چودھری شجاعت حسین وزیراعظم بنے تو وہ بھی اپنے دوستوں اور وفاداروں کا وفد لے کر سعودی عرب عمرے پہ گئے۔ انہوں نے بھی جیب سے اخراجات کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے جیب سے ادائیگی کی بھی‘ لیکن پھر بھی کچھ ایسے اخراجات تھے جن کا بل حکومت پاکستان نے ادا کیا۔ جمالی ہوں یا پھر یوسف رضاگیلانی‘ سب وزیراعظم بننے کے بعد عمرہ کرنے سعودی عرب پہنچے۔ ویسے صدر زرداری اکیلے سربراہ ریاست تھے جو صدر بننے کے بعد سعودی عرب عمرے پر گئے تو اپنے ساتھ بڑا وفد لے کر گئے اور اخراجات جیب سے ادا کئے۔ باقی سب کے اخراجات عوام کی جیب سے ادا ہوتے ہیں۔
اس لیے جب نواز شریف نے سعودی عرب جانے کی بجائے چین جانے کا فیصلہ کیا تو سب حیران تھے کہ کچھ غلط ہوگیا ہے؟ کیا سعودیوں سے ناراضی ہوگئی ہے یا پھر اس دفعہ نواز شریف کا رخ نئے دوستوں چین اور ترکی کی طرف ہوگا؟اب احساس ہوتا ہے کہ یہ پالیسی پانچ سال پہلے ہی بن چکی تھی کہ شریف خاندان اب سعودیوں کی بجائے چین اور ترکوں پر بھروسہ اور ان کے ساتھ کاروبار کرے گا چنانچہ بڑے پیمانے پر چینی اور ترکی کی کمپنیوں کو پاکستان میں ٹھیکے ملنے لگے اور بعد میں انکشاف ہوا کہ ملتان میٹرو سکینڈل کی طرز پر پتا نہیں کتنی کمپنیاں کھولی گئی ہیں۔
خیر‘ بات ہو رہی تھی نواز شریف کے دورۂ چین کی۔ مجھے دنیا گروپ کی طرف سے کہا گیا کہ آپ اسلام آباد سے اپنا ٹکٹ کٹوائیں‘ چین جائیں اور اس اہم دورے کی دنیا ٹی وی کے لیے رپورٹنگ کریں۔ سب اخراجات دنیا گروپ نے ادا کیے۔ ان دنوں نواز شریف کے قریبی زکوٹا جنوں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ قوم کے دل جیتنے ہیں تو آپ کہہ دیں کہ ہم عوام کی جیب سے صحافیوں کے بیرونِ ملک دوروں پر اٹھنے والے اخراجات برداشت نہیں کریں گے‘ سب اپنی اپنی جیب سے اپنے اخراجات ادا کریں۔ یوں پہلی دفعہ صحافیوں کو وزیراعظم نے اپنے جہاز پر لے جانے کے بجائے کہا کہ جس نے جانا ہے‘ وہ خود جائے۔ اور تو اور ملک کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی تک کو کہا گیا کہ وہ وزیراعظم کے جہاز میں‘ ان کے ساتھ سفر نہیں کر سکتے۔ انہیں اسلام آباد سے براہ راست سیٹ نہ ملی تو وہ دبئی سے ہوتے ہوئے چین پہنچے اور چوبیس گھنٹے میں سفر طے کیا حالانکہ وزیراعظم ساتھ لے جاتے تو پانچ گھنٹے بھی نہ لگتے۔ اس وقت نواز شریف اپنے سیکرٹری خارجہ تک کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ چند خاندان کے افراد اور ساتھ میں کچھ وفادار بیورو کریٹس۔ یہ چند لوگ اکیلے سفر کرتے۔ یہ دنیا کا واحد سربراہ حکومت تھا جس نے غیرملکی دورے میں وزارتِ خارجہ کے سینئر افسران کو بھی اپنے ساتھ سفر نہیں کرنے دیا حالانکہ اس موقع پر سفیر یا فارن آفس کے افسران جہاز میں موجود ہوتے ہیں کہ کہیں بریفنگ کی ضرورت نہ پڑ جائے یا پھر اہم معاملات پر بات چیت۔ اس سے ترجیحات کا اندازہ ہو رہا تھا۔
بعد میں نواز شریف صاحب نے بڑے پیمانے پر جہاز کا استعمال کیا اور جس پاکستانی صحافی کا منہ بند کرانا ہوتا یا اسے ساتھ ملانا ہوتا تو اسے بیرون ملک دورے میں سیٹ دے دی جاتی اور پھر وہ صحافی پاکستان واپسی پر ٹی وی چینلز اور کالموں میں وہ دھمال ڈالتا کہ الامان۔
خیر‘ چین پہنچے تو ایک دن نواز شریف کے چہیتے بیورو کریٹ نعرے لگاتے ہوئے ہم صحافیوں کے پاس آئے اور شور مچا دیا کہ مبارک! مبارک! چین نندی پور منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہوگیا ہے۔ ہم سب نے بھی نعرے مارے۔ بعد میں پتا چلا کہ کتنا بڑا چونا لگایا گیا تھا۔ جو منصوبہ بارہ ارب روپے کا تھا وہ پیپلز پارٹی دور میں بلاک رہا‘ جس کی وجہ سے بائیس ارب روپے کا ہوگیا۔ اب صرف چار سالوں میں لاگت ستاون ارب کر دی گئی تھی۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ اتنی قیامت بھی نہیں آئی کہ صرف چار سالوں میں لاگت بارہ ارب سے پہلے بائیس ارب روپے ہوجائے اور اب ستاون ارب روپے۔ یہ ڈیل شہباز شریف کر رہے تھے۔
خیر‘ اس سارے ہنگامے میں کسی کو اندازہ نہ ہوا کہ کیا جگاڑ لگایا گیا ہے۔ وہ تو بعد میں ایک بڑے سرکاری صاحب نے سپریم کورٹ کو خط لکھا‘ جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جناب! میں نندی پور کا پراجیکٹ ڈائریکٹر تھا۔ اس نے سارا حساب کتاب لگا کر بتایا کہ مہنگائی کا الائونس اور دیگر اخراجات جمع کر لیے جائیں تو بھی نندی پور کی پوری لاگت 37 ارب سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ بیس ارب کا جھٹکا ایک ہی ہلے میں لگا دیا گیا۔ اب اللہ ہی جانے کہ وہ بیس ارب روپے کس کی جیب میں گئے۔
ایک شام نواز شریف صاحب کو کروز جہاز کی سیر کے لیے لیجایا گیا۔ اس جہاز میں کچھ صحافی بھی سوار تھے۔ وہیں پہلی دفعہ احد چیمہ کو دیکھا‘ جس کا تعارف نواز شریف صاحب نے خود کرایا۔ باقی تو سب جانتے تھے لیکن اس ہیرے سے میری پہلی ملاقات ہو رہی تھی۔ اس ہیرے کی نواز شریف نے بہت تعریفیں کیں۔ اگلے دن نواز شریف صاحب نے پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے چین کے وزٹ کے حوالے سے باتیں کیں؛ تاہم جس بات پر انہوں نے وقت صرف کیا وہ یہ تھی کہ اب ہمیں بڈھے بیورو کریٹس کی ضرورت نہیں‘ نوجوان اور go getters بیورو کریٹس کی ضرورت ہے‘ جو اصولوں کی آڑ لے کر کوئی پراجیکٹ نہ روکیں بلکہ جو انہیں کہا جائے وہ کر دیا کریں۔ دراصل یہ میسیج تھا پاکستان کی سینئر بیورو کریسی کے لئے کہ اب ہمیں آپ کی ضرورت نہیں رہی۔ ہمیں اب ایسے افسران کی ضرورت ہے جو سر جھکا کر ہر حکم کی تعمیل کریں اور ہمیں قانون سکھانے کی کوشش نہ کریں۔
پنجاب میں توقیر شاہ کو بیورو کریسی کا بابا بنا دیا گیا تو وفاق میں فواد حسن فواد کو۔ میڈیا کو ہینڈل کرنے کا کام ایک اور بابو وانی نے سنبھال لیا۔ گریڈ انیس بیس اکیس کے افسران نے اپنے سینئرز اور گریڈ بائیس پر حکمرانی شروع کی اور یوں اس ''گو گیٹرز‘‘ گروپ کا قیام عمل میں آیا۔ اس ڈی ایم جی کلاس کا ایک ہی اصول تھا کہ جو حکم شہباز شریف اور نواز شریف دیں‘ ہر صورت اسے پورا کرنا ہے، کسی اصول، قاعدہ، ضابطہ کی پروا نہیں کرنی۔ بندے مارنے پڑیں‘ مار دو۔ ملک کو لوٹنا پڑے‘ لوٹ لو۔ کس منصوبے پر کتنا پیسہ لگ رہا ہے، کتنا ضائع ہو رہا ہے، کون لوٹ رہا ہے، جعلی کمپنیاں بنا کر شریف خاندان کے کس کس بندے کو فیورز مل رہی ہیں، اس گو گیٹر گروپ نے پروا نہیں کرنی۔ یوں اس ڈی ایم جی کے گو گیٹر گروپ نے وہ کام سرانجام دیئے جس کا انجام گروپ کے گرو احد چیمہ کی گرفتاری کی شکل میں نکلا ہے۔ یہ گو گیٹرز ڈی ایم جی افسران اتنے بھی بھولے نہ تھے کہ صرف بادشاہوں کے خزانے بھرتے۔ان گو گیٹرز بابوز نے بادشاہوں کو بھی مزے کرائے اور خود بھی کیے۔ یہ تھا کرپٹ سیاسی ایلیٹ اور کرپٹ بیور کریسی کا کرپٹ گٹھ جوڑ‘ جس کا نعرہ تھا: آئیں سب مل جل کر لوٹتے ہیں۔
ان گو گیٹرز بابوز کے کارنامے سن، پڑھ اور دیکھ کر فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوماس کے ناول The Three Musketeer کے وہ تین جنگجو یاد آ گئے جن کا نعرہ تھا:All for one, one for all۔
اور یہ تھا شریف خاندان، ان کے گو گیٹر بابوز اور ان جنگجوئوں کے جادوئی کمالات!