بدھ کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں موجود تھا‘ جہاں دو اہم کیسز کی سماعت ہونا تھی۔ رش زیادہ تھا کیونکہ شاہد مسعود کی پیشی تھی۔ قصور میں زینب کے ریپ اور قتل پر بینک اکائونٹس کی خبر پر سپریم کورٹ نے سووموٹو لے رکھا تھا۔ سماعت شروع ہونے سے پہلے کچھ صحافیوں سے گپ شپ ہو رہی تھی تو انہیں لگ رہا تھا‘ شاید نظام خطرے میں ہے‘ اور سب کو نظام کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ دنیا اخبار کے ہی کورٹ رپورٹر طارق اقبال چوہدری نے ہنستے ہوئے پوچھا: یہ نظام کس چڑیا کا نام ہے اور کہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے تاکہ اسے ڈھونڈ کر مضبوط کیا جائے۔ طارق حیران ہوا کہ ہم نے کیا مذاق بنا رکھا ہے‘ نظام بچائو یا نظام کو سپورٹ کرو۔ وہ بولے: نظام لوگ چلاتے ہیں۔ انسانوں کے ہاتھ میں ہے‘ وہ چاہیں تو نظام کو اچھا چلا لیں یا پھر اسے برباد کر دیں۔ کرسی میز کا نام نظام تھوڑی ہوتا ہے کہ انہیں ہٹا کر دوسری طرف کر دیں تو سب چیزیں درست ہو جائیں گی۔ جب تک نظام کو چلانے والے لوگ درست نہیں ہوں گے‘ نظام کیا کر لے گا؟
بات دراصل شروع ہوئی تھی فرحت اللہ بابر کی تقریر سے‘ جو انہوں نے سینیٹ میں کی اور بڑی داد پائی۔ کوئی دور تھا‘ میں ان تقریروں سے بڑا متاثر ہوتا تھا۔ دو ہزار دو میں جب میں نے پارلیمانی رپورٹنگ شروع کی اور پارلیمنٹ آنا جانا شروع کیا تو میرے لیے یہ ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے کے برابر تھا۔ اس دنیا کو میں روز دیکھتا، سنتا اور کچھ نیا سیکھ کر گھر لوٹتا۔ جنرل مشرف دور میں ماحول ہی کچھ اور تھا۔ سیاسی اور صحافتی مزاحمت کا اپنا ہی نشہ تھا۔ جب قومی اسمبلی میں دلوں کو گرما دینے والی تقریریں سنتے کہ کیسے ملک کو فوجی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے خراب کر دیا ہے تو ہم خود کو انقلابی تصور کرنے لگتے۔ چوہدری نثار علی خان، جاوید ہاشمی، محمود خان اچکزئی، خواجہ آصف، سعد رفیق، اعتزاز احسن اور دیگر شعلہ بیان مقررین کی تقریریں سن سن کر قائل ہو گئے کہ سیاسی انقلاب ہی ایک حل ہے اور یہ کہ پی پی پی اور نواز لیگ ہی اس ملک کے مسائل کا حل ہیں۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو‘ جدہ اور دوبئی بیٹھے تھے اور ریموٹ کنٹرول پر پارٹیاں چلائی جا رہی تھیں۔ نواز شریف کو فکر تھی کہ ان کی جلا وطنی میں پیچھے جاوید ہاشمی کوئی بڑی توپ نہ بن جائیں‘ اس لیے ان کو اوقات میں رکھنے کے لیے چوہدری نثار پر بھی ہاتھ رکھا گیا تھا۔ چوہدری نثار بھی میری طرح بندہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں جس کے ساتھ متھا لگائیں‘ اور یوں جاوید ہاشمی اور ان کے درمیان برسوں تک سرد جنگ جاری رہی۔ آپس کی لڑائی میں نواز شریف کا کام جدہ سے بھی سیدھا چلتا رہا۔ ویسے نواز شریف سیانے ہیں۔ وہ قسطوں میں جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ کسی ایک کو سبق سکھانا ہو تو دوسرے کو آگے کر دیتے ہیں۔ اور داد دیں نواز شریف کے چوائس کی۔ جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار نے ہمیشہ وہی نتائج دیے جو نواز شریف چاہتے تھے۔
اقتدار سے باہر ان لوگوں کی گفتگو سننے کا اپنا مزہ ہے۔ بعض اوقات تو دل چاہتا تھا کہ مارشل لاء اس ملک پر قائم رہے تاکہ ہمارا ان سیاستدانوں سے جڑا رومانس بھی قائم رہے۔ ان کے قد کاٹھ ایسے رہیں۔ ہم جیسے اب ان سے متاثر ہوتے ہیں‘ ہمیشہ ویسے ہی رہیں۔ بعض لوگ اپوزیشن میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ انہیں اقتدار مل جائے تو ان کی چادر اور پردہ اتر جاتا ہے اور ہم بھی اس بچے کی طرح حیران ہو کر پکار اٹھتے ہیں: وہ دیکھو بادشاہ نے کپڑے نہیں پہن رکھے۔
جن سیاستدانوں کو میں اچھا سمجھتا تھا انہیں جب دو ہزار آٹھ میں اقتدار ملا اور جو حرکتیں دیکھنے میں آئیں‘ میں خود دنگ رہ گیا۔ رہی سہی کسر دو ہزار تیرہ میں پوری ہو گئی۔ کراچی میں ایک بزنس مین کو ریاست پاکستان کا میڈل لینے کا شوق چرایا تو پچاس لاکھ روپے میں سودا طے ہوا۔ یہ قیمت تھی ایک ملک کے وزیر اعظم کی۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پتہ نہیں کتنے سکینڈلز فائل کیے اور کرتا رہا۔ مجال ہے کسی کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ وہی جو مجھے جنرل مشرف دور میں سکینڈلز فائل کرنے پر داد دیتے تھے‘ اب اپنی حکومت کے سکینڈلز پر مجھ سے الجھنا شروع ہو گئے۔ ان کے کرتوت سامنے آئے تو میں برا بن گیا۔ اپنی اپنی قیادت کے دفاع کے لیے ایسے ایسے جھوٹ ان معزز لوگوں نے گھڑ کر پوری قوم کو سنائے کہ باقاعدہ گھن آتی ہے۔ پہلے ٹی وی شوز پر جانے کا شوق تھا کہ ان سے بحث کی جائے۔ پھر ایک دن آیا کہ دل بھر گیا۔ پتہ چلا‘ اینکرز دوست بھی اندر سے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے ملے ہوئے ہیں۔ انہیں ہر شام ایک تماشہ چاہیے۔ خود کوئی محنت کرنی نہیں۔ ہمیں بلا کر ان کو ایکسپوز کرانا ہے اور خود پیسے کھرے کرنے ہیں۔ پھر ایک دن ٹی وی چینلز پر جانے سے معذرت کر لی۔ کئی اینکر دوست ناراض ہوئے تو کہا: خود اپنا بوجھ اٹھائیں۔ اپنی یاریاں نبھائیں۔ جو جتنے بڑے سکینڈل میں ملوث ہے‘ وہی آپ کے ٹی وی شوز کا ہیرو ہے۔ سب کرپٹ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ان اینکرز اور کالم نگاروں سے دوستیاں ہیں۔ سب ایک دوسرے کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔
سیاستدان اس لیے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں کہ میڈیا میں بیٹھے ان کے دوست انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جس پر نیب فائل کھولنے لگتی ہے وہ اگلے دن آپ کو ٹی وی چینل پر کسی شو میں نظر آتا ہے۔ ان برسوں میں وہی گھسے پٹے دس بیس سیاسی لوگ ہیں اور دو تین مبصرین جو سات بجے شام سے لے کر رات گیارہ بجے تک ٹی وی سکرین پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ایک مبصر کو ایک ہی دن میں چار ٹی وی شوز میں دیکھا تو اسے کہا: لگتا ہے آپ صبح ناشہ کرکے گھر سے نکلتے ہیں‘ رات گئے گھر لوٹتے ہیں اور اس وقت تک پانچ دس شوز تو بھگتا ہی چکے ہوتے ہیں۔ ہر جگہ وہی باتیں دہرائی جاتی ہیں‘ عوام جو دس منٹ پہلے ایک شو میں سن چکے ہوتے ہیں۔ اگلے چینل پر انہی موصوف کی پھر وہی باتیں اور پھر اگلے چینل پر پھر وہی بھاشن۔ نہ عوام تھکتے ہیں اور نہ ہی یہ مبصرین۔ تینوں کو داد دیں۔
اب یہی دیکھ لیں‘ ہمارے نئے ہیرو فرحت اللہ بابر میڈیا کے ہیرو بن گئے ہیں۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انہوں نے سینیٹ میں آخری دن دھواں دھار تقریر کی ہے۔ میں نے سنی تو ہنس پڑا۔ اب کیا لکھوں۔ کیا بولوں۔ اس معاشرے کو ہر وقت کسی نہ کسی ہیرو کی تلاش رہتی ہے لہٰذا ہم ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ اب فرحت اللہ بابر مل گیا ہے۔ ہنسوں کہ روئوں؟
اور سنیں‘ نواز شریف فرماتے ہیں‘ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ہارس ٹریڈنگ ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ فرمایا: انہیں مشاہد حسین اچھے لگتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ ایسا نہ ہو جو کمزور ہو یا سمجھوتہ کرتا ہو۔ ویسے نواز شریف صاحب کو داد دیں‘ انہیں ہر اچھی بات اقتدار چھوڑنے کے بعد یاد آتی ہے۔ انہیں سب انقلاب اقتدار سے باہر نکالنے جانے پر یاد آتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار نہ دینے کا دکھ بھی وزیر اعظم ہائوس سے باہر نکل کر ہوتا ہے۔ تمام اصلاحات اور عدالتوں کو درست کرنے کا آئیڈیا یا طاقتور اور اچھے لوگ اداروں کے سربراہ لگانے کا رومانس بھی اقتدار سے باہر نکلنے پر شروع ہوتا ہے۔ دراصل جب نواز شریف کے پاس اقتدار ہوتا ہے تو اس وقت وہ اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس قومی اسمبلی آٹھ آٹھ ماہ، سینیٹ ایک سال جانے یا کابینہ اجلاس چھ ماہ بلانے تک کا وقت نہیں ہوتا۔ ویسے بھی جو وزیر اعظم چار برسوں میں ایک سو سے زائد بیرونی دوروں پر رہا ہو اور کل تین چار سو دن ملک سے باہر رہا ہو، اس کے پاس ان باتوں کے سوچنے کا وقت کیسے ہو سکتا ہے؟
جو درباری سپریم کورٹ سے ناراض ہیں کہ ایک وزیر اعظم کو فارغ کر دیا‘ انہیں سوچنا چاہیے کہ چلیں اسی بہانے ہمارے پاکستانی چی گویرا کو وقت تو ملا کہ وہ اچھی جمہوری باتوں، روایات اور اخلاقیات پر ہمیں لیکچر دے سکے‘ ورنہ موصوف ایک بیرونی دورے سے واپس آتے تھے تو اگلے دن جہاز پھر تیار کھڑا ہوتا تھا۔ ویسے کوئی درباری بتا سکتا ہے کہ نواز شریف کو اچھی باتیں، انقلاب، اصلاحات، اصول، انصاف، آدرش، اخلاقیات، ایماندار لوگ اور جمہوری ادارے وزیر اعظم ہائوس سے باہر نکل کر ہی کیوں یاد آتے ہیں؟ اور تو اور ملک اور عوام کی تقدیر بدلنے کی بڑھکیں بھی وہ وزیر اعظم ہائوس سے نکلنے کے بعد ہی مارتے ہیں!