تقریبات میں جانے سے ہمیشہ بھاگتا ہوں‘ اگر وہاں مہمانِ خصوصی بننا ہو تو تگڑا سا بہانہ کر دیتا ہوں۔ گفتگو کا کہا جائے تو پھر میری سرائیکی والی مجال سائیں کام آتی ہے۔ اکثر عامر متین ہمارے دوست ارشد شریف کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ گھنٹوں دوستوں کی محفل میں خاموش بیٹھا‘ سب کو سنتا رہے گا مجال ہے کوئی لفظ بول لے۔ ہاں! جونہی سٹوڈیو میں کیمرہ آن ہو گا‘ ارشد شریف آپ سے سنبھالا نہیں جائے گا۔ شاید ہم لوگوں کو ٹی وی پر بولنے کے پیسے ملتے ہیں لہٰذا ہم کنجوس ہو گئے ہیں کہ خواہ مخواہ اپنے لفظ ضائع کیوں کریں یا پھر بڑھتی عمر نے ہمیں سمجھدار کر دیا ہے کہ ہروقت سیانا بننا کوئی عقلمندی نہیں‘ کبھی کبھار دوسروں کو بھی سن لینا چاہیے۔
یہ سب کرتب میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر شاہد صدیقی پر آزمانے کی کوشش کی‘ جب انہوں نے کہا کہ سوموار کو یونیورسٹی میں ایک تقریب ہے اور آپ اس میں شریک ہوں گے۔ میں ابھی بہانے سوچ ہی رہا تھا کہ بولے: انکار سے پہلے سن لیں کہ آپ کو کیوں بلایا جا رہا ہے؟ میں ایک لمحے کے لیے رک گیا، وہ بولے: ہم نے کچھ عرصہ پہلے یونیورسٹی میں Adult Literacy کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا، ہماری یونیورسٹی کے پچاس سے زائد ایسے درجہ چہارم کے ملازم ہیں جو اَن پڑھ تھے۔ ہم نے سوچا کہ ہم گیارہ لاکھ پاکستانیوں کو دور دراز علاقوں میں گھر بیٹھے تعلیم دے رہے ہیں لیکن خود اپنے گھر کی حالت یہ ہے کہ پچاس سے زائد یونیورسٹی ملازم پڑھ لکھ نہیں سکتے۔ اس پر ایک کریش پروگرام بنایا گیا جس میں یونیورسٹی کے ریاضی، اردو اور انگریزی کے لیکچررز نے انہیں روزانہ دو گھنٹے تک پڑھایا اور اب وہ سب لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ آپ تشریف لائیں آپ بور نہیں ہوں گے۔ ذرا ان کی کہانیاں تو سنیں کہ جب انہوں نے پہلی دفعہ لکھنا پڑھنا شروع کیا تو انہیں کیسا محسوس ہوا۔
شاہد صدیقی خود ایک بڑے ادیب اور اب تو اعلیٰ پائے کے کالم نگار ہیں‘ بات کرنے اور منوانے کا دھیمے انداز میں فن آتا ہے لہٰذا میں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ جب میں ان سب نئے تعلیم یافتہ افراد کی کہانیاں سن رہا تھا تو شکر ادا کر رہا تھا کہ میں آگیا‘ ورنہ زندگی کے کتنے بڑے تجربے سے محروم رہتا۔
پچھلے سال اگست میں یہ پروگرام بنایا گیا اور تیس ملازمین نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور اب جنوری میں نیا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ لیول ون سے پاس ملازمین کو ہی لیول ٹو میں شامل کیا گیا۔ فیکلٹی آف ایجوکیشن کے رضارکار استادوں نے پڑھانے کا بیڑا اٹھایا۔ انگلش، اردو اور ریاضی کے مضامین پر مبنی نصاب اساتذہ نے خود تیار کیا اور پڑھایا۔ پہلا مقصد تھا کہ ان پڑھ ملازم پہلے گنتی لکھ اور پڑھ سکیں، روز مرہ زندگی میں جمع تفریق، ضرب تقسیم کر سکیں، بنیادی ریاضی کا عملی استعمال کر سکیں۔ انگریزی تعلیم کا مقصد تھا کہ وہ خود کو انگریزی میں متعارف کرا سکیں، بولنا اور پڑھنا سیکھ جائیں، انگریزی میں جملہ لکھ سکیں۔ دن، مہینے، موسم، رنگ، خاندان کے رشتے اور دیگر چیزوں کی انگریزی جان جائیں۔ اردو کے لیے یہ سوچا گیا کہ وہ اردو زبان کے جملے اور الفاظ پڑھ اور لکھ سکیں، الفاظ کی درست ادائیگی کر سکیں، اپنے ادارے بارے چند جملے لکھ سکیں، گفتگو کے اداب سیکھ سکیں، ماحول کو صاف رکھنے کی اہمیت جان سکیں، عملی زندگی میں بنیادی لسانی ضروریات کو اردو کی مدد سے پورا کریں۔
جب میں اور شاہد صدیقی صاحب اندر داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ وہی درجہ چہارم کے ملازم جو اپنے افسران کے سامنے بیٹھ نہیں سکتے تھے‘ اس وقت ان استادوں اور فیکلٹی اور وائس چانسلر کے سامنے عزت دار انداز میں کرسیوں پر سامنے موجود تھے۔ سب کو عزت سے بٹھایا گیا تھا کہ کہیں سے نہ لگے وہ درجہ چہارم کے ملازم ہیں۔ ان کے چہروں پر ایک عجیب سا اعتماد محسوس ہوا‘ جو تعلیم پیدا کرتی ہے۔ شاہد صدیقی بتانے لگے کہ کیسے تمام اساتذہ نے بغیر ایک روپیہ الائونس لیے‘ وقت نکالا اور دو دو گھنٹے کلاس پڑھا کر ان سب لوگوں کو آج اس قابل بنایا کہ ان پر زندگی کے نئے رنگ بکھر گئے۔ شاہد صدیقی کو زیادہ دلچسپی اس میں تھی کہ وہ سب بتائیں کہ جب انہوں نے لکھنا پڑھنا پہلی دفعہ شروع کیا تو انہیں کیسے لگا۔ جب انہوں نے بتانا شروع کیا تو مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ تعلیم کتنی بڑی نعمت ہے‘ چونکہ ہم پڑھ لکھ گئے تھے‘ لہٰذا اس طرح کبھی نہیں سوچا تھا جو کچھ اب سن رہا تھا۔
ایک صاحب بولے: مجھ میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب میں بینک جاتا ہوں تو اپنا چیک خود لکھ کر اس پر دستخط کرتا ہوں۔ پہلے مجھے کسی کو مدد کے لیے بلانا پڑتا تھا، انگوٹھا لگانا پڑتا تھا۔ جب میں نے پہلی دفعہ اپنے دستخط کیے اور چیک لکھا تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے دنیا فتح کر لی ہے۔
دوسرے شخص نے کہا: پہلے میں اردو انگریزی میں لکھے بورڈز نہیں پڑھ سکتا تھا۔ کسی دکان پر جانا ہوتا تو ایک ایک سے پوچھتا کہ کس جگہ ہے۔ اب میں خود بورڈز پڑھتا جاتا ہوں۔ کسی نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھتے دیکھتا تو حیران ہوتا تھا کہ وہ کیسے پڑھ لیتے ہیں اور میں کیوں نہیں پڑھ سکتا۔ اب میں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر خود بھی لکھتا، پڑھتا اور پریکٹس کرتا ہوں۔
ایاز نے کہا کہ اب اخبار پڑھتا ہوں‘ سو تک گن سکتا ہوں۔ جمع تیزی سے کرتا ہوں لیکن ضرب اور تفریق میں ابھی مسئلہ ہوتا ہے۔ بہت کمی محسوس کرتا تھا جو اب دور ہو رہی ہے۔ اکرم بولا: مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا اب میں پڑھ لیتا ہوں۔ زمان بولا: مجھے کچھ نہیں آتا تھا‘ ہمارے اساتذہ نے ہمیں دل سے پڑھایا، اب میں ٹی وی ٹکرز اور دکانوں کے بورڈز پڑھ لیتا ہوں۔ میں نے یہ بھی سیکھا کہ جب کوئی دوسرا بول رہا ہو تو درمیان میں نہیں ٹوکنا چاہیے‘ ہمیں صفائی بارے بھی بتایا گیا۔ سب ہمیں بتاتے رہے کہ جب پہلی دفعہ انہوں نے لکھنا اور پڑھنا سیکھا تو انہیں کیسے محسوس ہوا۔
میں حیرانی سے ان کے جذبات محسوس کرتا رہا؛ تاہم ان کے اساتذہ کی گفتگو نے بہت متاثر کیا۔ ڈاکٹر منزہ بولیں: جب مجھے کہا گیا کہ ایسے غیر تعلیم یافتہ سٹاف کو پڑھانا ہے اور کوئی مشاہرہ بھی نہیں ملے گا تو مجھے یوں لگا کہ میں زندگی کی پہلی نیکی کرنے جا رہی ہوں اور میں نے فورا ہامی بھر لی۔ ان سب کا جوش دیکھ کر مجھے لگا مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔ ایسے شاگرد ہوں تو پھر پڑھانے کا بھی مزہ آتا ہے۔ بتانے لگیں کہ ان کا ایک شاگرد ہوم ورک کر کے لایا تو دیکھا کہ شروع میں اچھا لکھا لیکن بعد میں لکھائی خراب ہوگئی۔ پوچھا یہ کیا کیا تو بولا میڈیم پہلے بجلی تھی تو لکھ رہا تھا۔ بجلی چلی گئی تو موبائل ٹارچ کی روشنی میں لکھا جس سے کچھ خرابی پیدا ہوئی۔ مزید کہنے لگیں کہ ہمارا تو وہی حساب تھا کہ چراغ تلے اندھیرا۔ اوپن یونیورسٹی پاکستان میں سب کو تعلیم کی روشنی دے رہی تھی لیکن خود اس کے درجہ چہارم کے ملازم اَن پڑھ تھے، ہم نے ایک چھوٹا سا دیا جلانے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر حنا نور‘ جنہوں نے انگریزی پڑھائی، نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ ابھی تک میں اس کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ بولیں: مجھ سے ایک کلاس مِس ہوگئی تھی اور ابھی تک میرے اندر ایک احساس جرم ہے کیونکہ یہ سب میرا انتظار کرتے رہے اور میں کلاس نہ لے سکی۔
تمام استاد‘ جنہوں نے انہیں پڑھایا، سدرہ رضوان، حنا نور، ثروت مقبول، منزہ عنبرین، طاہرہ بی بی، نائلہ نصیر، مبشرہ طفیل کا شکریہ۔ اس سے بڑھ کر شاہد صدیقی اور ان کی ٹیم پروفیسر ناصر محمود ڈین فیکلٹی، ڈاکٹر اجمل ڈائریکٹر، ڈاکٹر آفتاب احمد کا شکریہ‘ جنہوں نے ایک کمال کیا۔
مجھے ان سب کی باتیں سنتے ہوئے جنگ عظیم دوم کے پس منظر میں لکھا گیا ناول The Reader یاد آ گیا۔ یہ ناول ان چند ناولز میں سے ہے جنہوں نے مجھ پر بہت اثر چھوڑا ہے۔ یہ ایک ایسی جرمن خاتون Hanna کی کہانی ہے جو پڑھ لکھ نہیں سکتی تھی۔ اس کا جنگ کے خاتمے بعد ٹرائل جاری تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک جیل میں تین سو قیدیوں کو آگ سے مرنے دیا اور وہ ساری تفصیلات اپنے ہاتھ سے ایک نوٹ بک میں لکھیں‘ جو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کی گئیں تھی۔ وہ یہ بتا کر بچ سکتی تھی کہ یہ سب جھوٹ تھا کیونکہ وہ تو پڑھ لکھ ہی نہیں سکتی۔ اس نے عمر قید قبول کر لی لیکن وہ یہ شرمندگی برداشت نہیں کرسکتی تھی کہ وہ ان پڑھ ہے۔