بہت دنوں سے میڈیا میں سرائیکی زبان اور صوبے کے حوالے سے بحث چل رہی ہے۔ سوشل میڈیا بڑی حقیقت بن چکا ہے لہٰذا وہاں زیادہ کھل کر بات ہو رہی ہے اور ہر طرح کے لوگ رائے دے رہے ہیں۔ ایک حلقہ وہ ہے جو سرائیکی کو سرے سے زبان ماننے کو ہی تیار نہیں اور اسے پنجابی کا ایک لہجہ قرار دیتا ہے۔ ان کا ہیرو رنجیت سنگھ ہے نہ کہ ملتان کا نواب مظفر خان جسے اس علاقے کے لوگ شہید سمجھتے ہیں۔
ہمارے بہت سارے دانشوروں اور کالم نگاروں کی ملتان اور سرائیکی علاقوں کی تاریخ 1818ء سے شروع ہوتی ہے جب ملتان پر رنجیت سنگھ کی فوج نے قبضہ کیا اور بڑے پیمانے پر ملتانی شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کے نزدیک اس سے پہلے نہ ملتان میں انسان رہتے تھے، نہ کوئی زبان تھی، نہ کلچر یا تہذیب۔ سب گونگے تھے۔ انہوں نے جا کر انہیں زبان سکھائی۔ ایک دوست سے پوچھا: آپ سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ قرار دیتے ہیں تو پھر کوئی حوالہ دیں‘ کب تاریخ میں ملتان‘ جسے ہزاروں سال پرانی تہذیب ہونے کا شرف حاصل ہے‘ میں پنجابی حکمرانوں کی حکومت رہی؟ پہلی دفعہ جس پنجابی حکمران نے براہ راست ان علاقوں پر حکومت کی وہ رنجیت سنگھ تھا اور پھر کچھ عرصے بعد انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔
اب سرائیکی زبان کا مذاق اڑانے کے لیے ایک نئی بھد اڑائی جا رہی ہے کہ جناب چھوڑیں یہ تو کل کی بات ہے۔ 1962ء میں چند سر پھروں نے بیٹھ کر ملتانی، بہاولپوری اور ڈیروی زبان کو سرائیکی کا نام دے دیا تھا لہٰذا اسے ایک زبان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ دانشور دوستوں نے شاید لاہور کے ایک نوجوان محقق اور زبردست مترجم یاسر جواد کا ترجمہ شدہ بہاولپور گزٹ نہیں پڑھا جو 1904ء میں چھپا تھا۔ اس میں تفصیل سے لکھا ہے کہ انگریزوں کے دور میں بھی سرائیکی زبان کا یہ نام موجود تھا۔ اس گزٹ کے صفحہ 414 پر کمیاب تردید ملتی ہے۔ لکھا ہے: کوٹ سبزل اور گردونواح کے لوگ بہاولپوری اور سندھی دونوں لہجے بولتے ہیں اور موخرالذکر لہجے کو سرائیکی بھی کہتے ہیں۔ لہٰذا کم از کم 1904ء میں تو سرائیکی کا لفظ مستعمل تھا ہی۔ ابھی یاسر جواد نے سرائیکی تہذیب پر بھی ریسرچ کرکے کتاب لکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ خود کہتا ہے کہ وہ آرائیں، جٹ، راجپوت، ٹھاکر، سید، ملک یا خان ہے تو کوئی اسے کیسے مجبور کر سکتا ہے کہ وہ نہیں ہے؟ اسی طرح زبان کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی خود کو پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچ، پوٹھوہاری، پشتون، کشمیری، پہاڑی، ہندکو، بلتی یا کسی اور زبان کا باشندہ کہتا ہے تو اسے کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہیں ہے؟
ہمارے پنجابی دوست جنوب میں رہنے والوں کو مسلسل یہ سمجھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کی اپنی کوئی زبان نہیں ہے بلکہ سرائیکی پنجابی کا ایک لہجہ ہے۔ ہمارے سرائیکی ادبیوں اور دانشوروں‘ جیسے قابل احترام احسن واہگہ، شوکت مغل، حفیظ خان، ڈاکٹر انوار احمد اور دیگر‘ نے سرائیکی زبان، تاریخ اور کلچر پر بہت کام کیا‘ درجنوں کتابیں لکھیں تاکہ اس پروپیگنڈے کا جواب دیا جا سکے‘ لیکن چونکہ میڈیا لاہور میں ہے‘ لہٰذا اس نے بھی سرائیکی علاقوں کے ان دانشوروں اور لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی جو سرائیکی زبان، کلچر اور اس کی شناخت کو ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اگر کسی سرائیکی نے کسی کالم یا مضمون میں سرائیکی کا لفظ بھی لکھا تو اسے جنوبی پنجاب میں بدل دیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اگر پنجابی اور اردو سپیکنگ دوست سرائیکیوں کی زبان کو ماننے سے انکاری ہوں، ان کے کلچر، روایتوں اور تہذیب کا مذاق اڑائیں گے تو اس کا یقینا ردعمل آئے گا۔ آیا بھی‘ اور سرائیکی بولنے والے لوگ اپنے ان پنجابی دوستوں سے ناراضی رکھتے ہیں جو ان کی زبان کو نہیں مانتے۔ ان پنجابی اور اردو سپیکنگ دوستوں کا المیہ مجھے سمجھ آتا ہے۔ وہ پہلے ان سرائیکی علاقوں میں ہجرت کر کے آن بسے تھے۔ برصغیر کی تقسیم کو تو تسلیم کیا گیا لیکن جن علاقوں میں جا کر وہ بسے انہیں ان علاقوں کی زبان اور کلچر پسند نہیں آئے اور انہیں اپنی برتری قائم رکھنے میں ہی اپنی سہولت نظر آئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرائیکیوں کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا اور قوم پرستوں نے وہاں ان علاقوں کے پنجابیوں کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا جو میرے خیال میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سرائیکی خطے میں رہنے والے پنجابی، اردو سپیکنگ اب سب اس دھرتی کے بیٹے ہیں۔ سرائیکی ان کی شناخت اور زبان کو مانتے ہیں تو وہ بھی ان کو مانیں۔ سرائیکی بنیادی طور پر امن پسند اور محبت والے لوگ ہیں ورنہ سب نے دیکھا تھا کہ سندھ میں پنجابی سیٹلرز کے ساتھ کیا ہوا تھا یا اب بلوچستان میں کیا ہوا۔ سرائیکیوں کو یہ شکوہ بھی رہا کہ چولستان ہو یا پھر تھل وہاں سب زمینیں طاقتور لوگوں کو الاٹ کی گئیں۔ مقامی لوگوں کو زمینیں نہ ملیں۔ یوں فطری طور پر احساس محرومی بڑھا۔ جو سرائیکی تعصب کی بات کرتے ہیں مجھے ان سے شکایت ہے۔ وہ وہیں رہتے ہیں۔ انہیں اس خطے کی شناخت زبان اور کلچر کو ماننا چاہیے تھا نہ کہ ان کا مذاق اڑاتے اور ان کی شناخت کو چیلنج کرتے۔ اگرچہ دنیا بھر میں جو لوگ باہر سے آتے ہیں وہ ہمیشہ مقامیوں کے ساتھ ایک مختلف رویہ رکھتے ہیں اور مقامی ان کے ساتھ جو کہ فطری بھی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ دونوں طبقات ایک دوسرے کو سمجھنے لگتے ہیں‘ قریب آتے ہیں اور ان کی نئی نسلیں ایک دوسرے سے شادیاں کرتی ہیں۔ خود میری شادی ایک کٹر پنجابی فیملی میں ہوئی۔ اسی طرح پنجابیوں نے سرائیکی گھرانوں میں شادیاں کیں۔ میری بیوی نے مجھ سے سرائیکی سیکھی‘ اور میں نے پنجابی۔ میں بہت سارے ایسے پنجابی اور ملتان کے اردو سپیکنگ کو جانتا ہوں جو منہ پر سرائیکی لوگوں کے بارے میں اچھی گفتگو کریں گے لیکن پیٹھ پیچھے مذاق اڑائیں گے۔ ایک دن ہمارے ڈیرہ غازی خان سے سرائیکی دانشور دوست عباس برمانی کا میسج آیا۔ بہت ہرٹ تھے۔ جس نان سرائیکی ملتانی دانشور دوست کو ساری عمر وہ سرائیکی علاقے کا ہمدرد سمجھتے رہے، اتفاقاً اس کی ایسی گفتگو سن لی جس سے ان کا دل دکھا۔ اگرچہ سب ایسے نہیں۔ اب نئی نسلیں مختلف سوچتی ہیں۔ ملتان پریس کلب کا صدر میرا دوست شکیل انجم ایسی ٹھیٹھ سرائیکی بولتا ہے کہ اگر وہ مجھے خود نہ بتاتا تو کبھی پتہ نہ چلتا کہ وہ سرائیکی نہیں۔ ملتان میں عطا اللہ شاہ بخاری کے نواسے اور اپنے دوست ذوالکفل بخاری مرحوم سے تو ہم سرائیکی کے نئے الفاظ سیکھتے تھے۔ اسی طرح کفیل بخاری ہم سے بہتر سرائیکی بولتا ہے۔ ان کے ہندوستان سے آئے بزرگ ملتانی رنگ میں رچ بس گئے تھے اور کمال سرائیکی بولتے تھے۔
ویسے ہمارے لیہ کے چاند رضوی نے فیس بک پر پوسٹ لکھی ہے جو آج کل پورے وسیب میں پڑھی اور سراہی جارہی ہے۔ چاند رضوی لکھتے ہیں: ''کیا ہم یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر نام سرائیکستان ہو تو پھر صوبہ نہیں بننا چاہیے؟ کیوں؟ ہم لوگ جو اکہتر برس سے سرائیکی دھرتی کی پناہ میں ہیں۔ ہمارے پرکھوں کو یہاں پناہ ملی، محبت ملی، ہم نے یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ رشتے داریاں کیں۔ ہم نے یہاں تاریخی، تمدنی، سماجی، معاشی اور سیاسی میدانوں میں اس سرائیکی وسیب سے بہت کچھ لیا ہے اور کچھ نہ کچھ لوٹانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اگر اس پیاری دھرتی کے نام پر صوبہ بن جائے گا تو میرے لیے اس میں فکر والی کوئی بات نہیں ہے۔ میری اپنی مثال لیں۔ میرے والد صاحب ہندوستان سے آئے تھے۔ آپ انہیں مہاجر کہہ لیں۔ میری والدہ لاہور کے قدیم سید پنجابی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں مری میں پیدا ہوا۔ کچھ مہینے کا تھا تو والدین لیہ آ گئے۔ میری چاروں بہنیں لیہ میں پیدا ہوئیں۔ اب مہاجر تو میرے والد تھے۔ میں تو آج تک ہندوستان نہیں گیا۔ میرے سگے چچا کی اولادیں وہیں ہیں۔ میں نے اس سرائیکی وسیب میں ہوش سنبھالا۔ یہیں پلا بڑھا۔ یہیں پڑھا لکھا۔ یہیں سے عزت ملی۔ یہیں سے نام ملا۔ یہ وسیب مجھے میری ماں کی طرح محبوب ہے۔ اس کی ترقی میری ترقی اس کی خوش حالی میری خوش حالی۔ میں سرائیکی ہوں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر یہ الگ صوبہ بن گیا تو ہمارے کئی مسائل حل ہو جائیں گے لہٰذا صوبہ ہر حال میں بننا چاہیے اور اگر ہم مذہب کے نام پر الگ ملک بنا سکتے ہیں تو پھر ماں بولی کے نام پر ایک صوبہ کیوں نہیں؟‘‘
اس سے بہتر سرائیکی کا مقدمہ نہیں لڑا جا سکتا‘ جو لیہ کے چاند رضوی نے لڑا ہے‘ جس کے والد اردو سپیکنگ مہاجر تو ماں لاہور کے قدیم پنجابی سید گھرانے سے ہیں!