دو ہزار پانچ کی ایک شام کی بات ہے۔ ایک فون آیا ۔ آواز جانی پہچانی تھی ۔
''خان صاحب آپ سے ضروری ملنا چاہتے ہیں ۔‘‘
میں نے پوچھا :کون سے خان صاحب ؟
'' عمران خان...کل چار بجے بنی گالہ آسکتے ہیں ۔‘‘
میرا بنی گالہ کا یہ تیسرا وزٹ تھا۔
کئی برس پہلے کالم نگار دوست ہارون الرشید کے ساتھ بنی گالہ گیا تھا ۔ انفارمیشن گروپ کے دوست کے بھائی کو شوکت خانم لیب سے نکال دیا گیا تھا ۔ دوست نے کہا ‘عمران خان سے بات کر کے دیکھ لو۔ میں نے کہا: میں خود تو خان صاحب سے اتنا بے تکلف نہیں ہوں کہ فون اٹھائوں اور کہہ دوں‘ ہاں ہارون الرشید کی خان صاحب سے قریبی دوستی ہے۔ ہارون صاحب کی مہربانی کہ میری ایسی باتیں بھی مان لیتے ہیں‘ جو شاید ہزاروں لوگ بھی مل کر ان سے نہ منوا سکیں ۔ کسی نے پوچھا: تمہارے پاس کیا ''گیدڑ سنگھی‘‘ ہے شہر کے ''ضدی لوگ‘‘بھی تمہاری بات مان لیتے ہیں۔ میں نے کہا: کون کون سے؟ کہنے لگے: ڈاکٹر بابر اعوان، ہارون الرشید اور ارشد شریف‘ ان کے بارے میں مشہور ہے یہ کسی کی نہیں سنتے اور مرضی کرتے ہیں لیکن آپ ان سے بات منواسکتے ہو۔ میں نے کہا: اس فہرست میں میرے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف اور ڈاکٹر شیر افگن نیازی کے نام بھی ڈال دو۔ دوست بولا: کیا راز ہے؟ میں نے کہا: یہ سب غیر معمولی ذہین ہیں۔ میرے خیال میں ذہین انسان کو قائل کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ ہم درست طریقے سے ہینڈل نہیں کرتے۔ ہم روایتی طریقہ اپناتے ہیں کہ ان کا منت ترلا کرکے بات منوائو۔ ذہین لوگ ایسے نہیں مانتے۔ ذہین انسان فوراً آپ کی بات مان لے گا جب آپ اسے logic and reasonدیں گے۔ ذہین انسان سے بات منوانی ہے تو دلائل سے منوائیں، واسطے دے کر نہیں ۔ ہارون الرشید بھی دلائل کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور میں ان کی اس خوبصورت کمزوری کا کھل کر استحصال کرتا ہوں ۔ خیر ہارون الرشید کو عمران خان کے پاس لے گیا جو ورزش کر کے فارغ ہوئے تھے۔ ہم تینوں گھر کے باہر لان میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔
ہارون صاحب کو عمران کے مزاج کا اندازہ تھا لہٰذا خود ہی ملازم کو آواز دی: یار چائے لائو۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد ہارون صاحب نے بات شروع کی۔ عمران خان نے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ٹوکا اور سخت لہجے میں بولے: یہ کام نہیں ہوسکتا‘ اس لڑکے نے مجھے بھی میسیجز کیے تھے کہ اگر میری نوکری بحال نہ ہوئی تو وہ میڈیا میں میرے خلاف خبریں لگوائے گا‘ آپ کو پتا ہے‘ میں بلیک میل نہیں ہوتا۔ ہارون صاحب نے میری طرف اور میں نے ان کی طرف دیکھا۔ بات کیا آگے بڑھتی۔ عمران ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو یہ دیکھتا کہ چھوڑو اس لڑکے نے کیا میسیج کیا تھا‘ بات تو یہ تھی کہ ہارون الرشید اور ان کا دوست ان کے پاس آیا ہوا تھا۔خیر ہارون الرشید نے سمجھداری سے بات کسی اور طرف موڑ دی۔ میں نے بعد میں اپنے دوست کو فون کر کے کہا: اگر آپ کا بھائی یہ کام پہلے ہی کر چکا تھا تو ہمیں عمران خان سے ذلیل کرانے کی کیا ضرورت تھی۔
یہ میری عمران خان سے پہلی فارمل ملاقات تھی ۔ اور اس کے بعد آتے جاتے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہمیشہ عزت سے ملے۔ بلکہ جب ایک نیا ٹی وی چینل جس میں، میں کام کررہا تھا لانچ ہوا تو چینل کی خواہش تھی کہ عمران خان ٹی لانچنگ پر انٹرویو دیں۔ عمران خان کے سامنے چند نام رکھے گئے کہ وہ ان کا انٹرویو کریں گے تو وہ بولے: نہیں‘ رئوف کلاسرا کو کہو میرا انٹرویو کرے۔ میں نے کہا: میں نے ٹی وی کے لیے انٹرویوز نہیں کیے اور نہ ہی شوق رہا ہے۔ تاہم میرے ادارے کا اصرار تھا ہم نے ہر صورت انٹرویو کرنا ہے۔ مرتا نہ کیا کرتا کے مصداق انٹرویو کرنے گیا۔ یہ عمران خان سے میری دوسری تفصیلی ملاقات تھی۔
اب یہ پہلی دفعہ ہورہا تھا عمران خان مجھے خود ملنا چاہ رہا تھا ۔
میں کوشش کرتا ہوں سیاستدانوں سے ایک حد تک تعلق بنایا جائے۔ بلکہ مجھے ہالی ووڈ کے بڑے اداکاروں ال پیچینو اور رابرٹ ڈی ناریو کی فلم Heat کا ایک ڈائیلاگ اکثر یاد آتا تھا ''ہماری فیلڈ میں ایسا کوئی تعلق نہیں بنایا جاتا جسے تیس سکینڈ میں نہ توڑا جاسکتا ہو‘‘ ۔ یہ ڈائیلاگ مجھے میڈیا پر بھی اپلائی ہوتا ہوا لگا تھا کہ صحافی کو بھی حکمران اور سیاستدان کے ساتھ اس طرح کا تعلق نہیں بنانا چاہیے جسے وہ تیس سکینڈ میں نہ توڑ سکتا ہو۔
اس لیے میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ تعلقات کو ایک حد تک رکھا جائے۔ سیاستدانوں کی توقعات کو زیادہ بڑھاوا نہ دیا جائے۔ ایک دفعہ حسین حقانی‘ جو دو ہزار آٹھ کے الیکشن کے بعد اسلام آباد میں ڈیرے لگائے ہوئے تھے اور کنگ میکر کی طرح زرداری کا دربار چلا رہے تھے‘ نے مجھے فون کیا۔ بولے حسین حقانی بول رہا ہوں۔ میں نے کہا:جی فرمائے۔ کہنے لگے: آپ کو ایک سکوپ دے سکتا ہوں کہ نیا وزیراعظم کون ہوگا ۔ میں کچھ حیران ہوا کیونکہ میری حقانی سے کوئی ذاتی ملاقات تک نہیں تھی کہ وہ مجھے فون کر کے سکوپ دیتے۔ خیر میں نے کہا: شکریہ‘ بتائیں۔ بولے: آپ کو میرے ساتھ ''تعاون‘‘ کرنا ہوگا ۔ بولے: گڈ ول کے طور پر آپ کے لیے پہلا سکوپ‘ نیا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہوگا۔ اس وقت تک دور دور تک گیلانی کا نام نہیں تھا۔ حقانی کا خیال تھا کہ میں خوشی سے اچھل پڑوں گا۔ میں نے کہا: شکریہ لیکن اس ڈیل کے ساتھ سکوپ نہیں چاہیے کہ کل کلاں کو آپ کی مرضی کی خبریں مجھے چلانی پڑیں‘ کیونکہ آپ نے ڈیل کی بات کی تھی لہٰذا اب میں آپ کی دی ہوئی خبر نہیں چلائوں گا کہ گیلانی وزیراعظم ہوگا ۔ اگرچہ اس وقت وہ بہت بڑا سکوپ تھا لیکن میں نے دل پر پتھر رکھ کر وہ خبر اخبار میں فائل نہیں کی۔
خیر یہ سب کچھ ذہن میں لیے میں اگلے روز جب بنی گالہ پہنچا تو ذہنی طور پر تیار تھا کہ مجھ سے عمران خان نے کیا باتیں کرنی ہیں اور میرے متوقع جواب کیا ہوسکتے ہیں ۔ عمران خان پہلے ملاقاتیوں کو بنی گالہ گھر کے مین گیٹ کے قریب ہی واقع پارٹی آفس میں ملتے تھے لیکن اس روز مجھے بنی گالہ گھر کے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا ۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ اچانک ریحام خان داخل ہوئی۔ میں ریحام خان کی آمد کی توقع نہیں کررہا تھا ۔ ریحام خان نے روکھے انداز میںسلام کیا ۔ یہ وہ ریحام خان نہیں تھی جو ہماری کولیگ یا ٹی وی اینکر تھی۔ اس وقت ریحام خان عمران خان کی ملکہ کا روپ دھارے ہوئے تھی جو ملک کا اگلا وزیراعظم بننے والا تھااور وہ خاتون اوّل ۔
ریحام کا روکھا رویہ دیکھ کر میں فوراً ریزور ہوگیا اور منہ پر سنجیدگی طاری کر لی۔
اتنی دیر میں عمران خان اپنے جرمن شیفرڈ کتے شیرو کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ صاف لگ رہا تھا وہ سیدھا ورزش کر کے ڈرائنگ روم آیا ہے۔ عمران نے خوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ عمران اور ریحام نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی ۔عمران خان سامنے صوفے پر بیٹھ گیا جب کہ عمران کے کتے شیرونے ساتھ بیٹھ کر مجھ پر نظریں جما لیں۔ڈرائنگ روم میں ہم تین لوگ تھے اور خاموشی کا راج تھا ۔
پھر عمران کے بولنے سے پہلے ہی ریحام خان نے عمران کی طرف دیکھ کر میرے اوپر ایک نامناسب سا جملہ کسا ‘ جس پر عمران بھی تھوڑا سا گھبرا گیا ۔
میں نے خود سے پوچھا ‘میں یہاں کیا کررہاہوں؟ مجھے تو ریحام کا نہیں بتایا گیا تھا ۔کیا یہی کچھ سننے یہاں آیا تھا ؟ ریحام نے کسی اور کا غصہ نکالنے کے لیے میرا انتخاب کیا تھا اور اس کام کے لیے عمران خان کو کہا گیا تھا ''گستاخ‘‘ کو فوراً حاضر کیا جائے اور وہی گستاخ میں اس وقت بنی گالہ کی ریاست کے شاہی دربار میں موجود تھا اور ملکہ عالیہ انتہائی غصے میں مجھ پر برسنے کے لیے تیار تھیں ۔
اپنے مزاج کو جانتے ہوئے مجھے خود پتا نہیں تھا‘ میں ریحام کو اب کیا سخت جواب دینے والا تھا ۔
جب کہ عمران کا شیرو مجھ پر مسلسل جارحانہ نظریں جمائے بیٹھا تھا۔
مجھے لگا اگر میں نے جنبش تک کی تو شیرو جھپٹ پڑے گا۔ میری عمران اور ریحام سے زیادہ توجہ اب شیرو پر تھی۔ اس بات کو ریحام نے فوراً محسوس کیا اور اونچی آواز میں بول پڑی ۔ عمران نے فوراً ریحام کو دیکھا۔ ڈرائنگ روم میں عجیب ٹینشن کا ماحول بن چکا تھا ۔ مجھے کچھ اندازہ نہ تھا اب آگے کیا ہونے والا تھا۔ میری اب بھی توجہ شیرو پر زیادہ تھی جو مسلسل مجھے گھورے جارہا تھا۔ (جاری)