عمران خان کے ڈرائنگ روم میں اس کے جرمن شیفرڈ ''شیرو ‘‘کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے‘ مجھے حیرانی اس بات پر ہورہی تھی کہ ریحام خان نے عمران خان کے سامنے ایسا رویہ رکھنے کی کوشش کیوں کی تھی‘ جیسے وہ مجھے جانتی تک نہ ہو ۔
میںنے ریحام خان کو یاددلانے کی کوشش کی کہ چند دن پہلے تو اس نے مجھے ٹویٹر پر چند ڈائریکٹ میسجز کیے تھے‘ جس میں اس نے میرا شکریہ ادا کیا تھا ۔
ریحام بولی: اس نے تو کوئی میسجز نہیں کیے ۔
میں ریحام کے جھوٹ پر دنگ رہ گیا ۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ میرا دوست ارشد شریف‘ اس وقت اپنے پروگراموں میں ریحام خان اور عمران خان پر سخت تنقید کررہا تھا ۔ ایک پروگرام میں‘ ارشد شریف نے مجھے بھی بلایا ۔ ارشد شریف کا موقف تھا کہ پاکستان میں نیا تماشہ جاری ہے کہ صحافی، کالم نگار اور ٹی وی اینکرز‘ صحافت کی سیڑھی استعمال کرکے حکومتوں کے پٹھو اور صحافی سے میراثی بن جاتے ہیں اور جو ورکنگ جرنلسٹ ہیں‘ جن کا اوڑھنا بچھونا صحافت ہے‘ نہ صرف انہیں بدنام کرتے ہیں‘ بلکہ لوگوں کا اعتماد بھی صحافت سے ختم کرتے ہیں۔ اس ملک میں کسی کالم نگار کا میراثی بن کر حکومتوں اور سیاستدانوں کے حق میں طبلے بجا کر پی ٹی وی پر بھاری معاوضوں پر پروگرامز لینا ، سفیر بن جانا ، پی ٹی وی کاایم ڈی لگ جانا، وزیر، مشیر یا کسی اتھارٹی میں اعلیٰ عہدے پکڑ لینا ، وزارتیں لے لینا‘ اب کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ۔ طاقت اور پیسے کے یہ پجاری دو تین سال حکومتی عہدوں پر دیہاڑی لگانے کے بعد دوبارہ صحافی بن جاتے تھے۔ ایک دن بڑی سرکاری نوکری چھوڑی اور دوسرے دن ٹی وی پر بیٹھ کر ملک اور قوم کو بھاشن دینا شروع کر دئیے۔
اس وقت نیا ٹرینڈ ریحام خان نے شروع کیا تھا۔ خواتین اینکرز ایک ہاتھ آگے بڑھ گئی تھیں۔ انٹرویو کرنے گئیں ‘ نکاح کر کے لوٹیں۔تب کچھ اور خواتین اینکرز کی بھی وزیروں سے شادیوں کی خبریں گرم تھیں ۔ خیر میں نے ارشد شریف کے اس پروگرام میں ریحام خان کا دفاع کیا تھا کہ چلیں یہ اس کا فیصلہ ہے‘ اگر وہ صحافت چھوڑ کر اس ڈھلتی عمر میں اپنے نوجوان بچوں کو سیٹل کرنا چاہتی ہے اور اسے عمران کی شکل میں ایک بندہ ہاتھ لگ گیا ہے اور اس نے جو بھی کہانی ڈال کر عمران خان کو راضی کیا ہے‘ تو ارشد شریف کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے۔ ریحام خان وہ پروگرام دیکھ رہی تھی۔ پروگرام کے دوران ہی میرے ٹویٹر پر ڈی ایم میسجز کیے اور دل و جان سے میرا شکریہ ادا کیا۔ یہاں تک لکھ کر بھیجا :اگر اس کا سگا بھائی پروگرام میں ہوتا تو وہ بھی اس طرح اچھے طریقے سے اس کا دفاع نہ کرپاتا‘ جیسے میں نے ارشد شریف کے شو میں اس کے فیصلوں کا کیا ہے ۔
اب یہاں ریحام خان ایسے ظاہر کررہی تھی‘ جیسے وہ مجھے جانتی ہی نہیں۔ میں نے بھی باتوں باتوں میں اسے یاد کرانے کی کوشش کی کہ چند روز پہلے تک تو وہ مجھے ڈی ایم کرکے شکریہ ادا کررہی تھی۔ ریحام نے حیران ہونے کی اداکاری کی اور فوراً بولی: مجھے تو یاد نہیں پڑتا‘ میں نے کبھی میسج کیا ہو۔ مجھے ایک لمحے میں سمجھ آگئی‘ میرا کس خاتون سے واسطہ پڑ گیا ہے ۔
ڈرائنگ روم میں ابھی تک میں اور شیرو ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے تھے کہ مجھے یاد آیا کہ ریحام خان کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں ۔ مجھے اپنے دوست عامر متین کا سنایا ہوا ‘واقعہ یاد آ گیا : دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں ارشد شریف ایک ٹی وی چینل کا ڈائریکٹر نیوز تھا اور اس نے عامر متین اور دیگر کو کنٹریکٹ پر ہائر کیا ہوا تھا کہ وہ الیکشن میں سیاسی مبصر کے طور پر اس کے ہاں پروگرام میں شرکت کریں گے۔ اس پروگرام کی میزبان ریحام خان تھیں۔ جب پروگرام شروع ہوا ‘تو ریحام خان نے کچھ ایسے بونگے سوالات کیے کہ عامر متین اور دیگر مبصرین کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ لندن پلٹ اس خاتون کو سیاست کی کچھ سمجھ بوجھ نہیں۔ ریحام انہی دنوں لندن سے آئی تھی اور پاکستان میں اسے ٹی وی چینلز پر ہمارے صحافی دوست رانا مبشر نے لانچ کیا تھا‘ جنہیںکسی اور دوست نے ریحام خان کی سفارش کی تھی۔ عامر متین نے کچھ دیر تو ریحام کے بونگے سوالات کو برداشت کیا ۔ پھر وقفے کے دوران فون نکالا اور ریحام کی موجودگی میں ارشد شریف کو فون کیا کہ یار کہاں پھنسا دیا ہے‘ اس خاتون کو تو کچھ پتہ ہی نہیں۔ ارشد شریف وہیں موجود تھا‘ وہ سٹوڈیو کے اندر آگیا۔ یہ سب گفتگو ریحام خان نے بھی سنی۔ اس کا منہ بگڑنا فطری بات تھی۔ ارشد شریف نے معاملات ہینڈل کرنے کی کوشش کی‘ لیکن ریحام نے مطالبہ کردیا کہ اس کا فلاں جو صحافی دوست ہے‘ اسے بلایا جائے‘ ان لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں سیاست کیا ہوتی ہے۔ یوں عامر متین اور ریحام خان میںبدمزگی ہوگئی اور یہ بدمزگی وہیں ختم نہ ہوئی‘ بلکہ اس کے بعد جب بھی قریبی دوستوں کی پارٹی میں عامر متین اور ریحام خان اکٹھے ہوتے ‘تو ماحول ٹینس ہی رہتا اور دونوں سیریس ہو کر بیٹھتے۔ قریبی دوستوں نے عامر متین کو برا بھلا کہا کہ یار یہ کیا تماشہ ہے۔ ایک دن دانیال عزیز کے گھر پر پارٹی تھی‘ جہاں ریحام خان اور عامر متین بھی موجود تھے۔ عامر متین نے ریحام کو دور سے دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور کہا: میڈیم آئی ایم سوری‘مجھ سے اس دن غلطی ہوگئی تھی۔ آپ بہت بڑی اینکر ہیں ‘ آئندہ نہیں ہوگا‘ مجھے معاف کردیں۔ یوں پارٹی میں ریحام اور عامر متین کی صلح ہوگئی۔
عمران خان سے شادی سے پہلے اسلام آباد کی رات گئے ایسی پارٹیوں میں ریحام خان کا موجود ہونا لازمی ہوتا تھا۔ اکثر یہ پارٹی دانیال عزیز کے گھر پر ہی ہوتی تھی۔ جب عمران خان کی ریحام خان سے شادی ہوئی اور کچھ عرصے بعد دانیال عزیز نے عمران خان پر حملے شروع کیے‘ تو عمران خان نے دانیال عزیز کا بائیوڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا۔ کسی نے عمران خان کو بتایا ریحام خان کا تو دانیال عزیز کے گھر پارٹیوں پر بہت آنا جانا تھا ۔عمران خان کو یقین نہ آیا ۔ عمران خان نے کہا: ریحام جیسی نیک عورت تو اسے زندگی میں ملی کبھی نہیں‘ وہ تو تہجد گزار اور نیک عورت ہے۔ عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ بہت ساری باتوں میں وہ بہت بھولا ہے۔
عمران نے ریحام خان سے پوچھا: تم دانیال عزیز کے گھر دوستوں کی محفل میں جاتی تھی؟ ریحام خان نے فوراً اداکاری کی اور پوچھا: کون دانیال عزیز؟ عمران خان نے بڑی محنت سے ریحام کو سمجھایا کہ وہ کس دانیال عزیز کی بات کررہا ہے ۔ وہی دانیال عزیز‘ جو روزانہ شام کو ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اس پر حملے کرتا ہے۔ایم این اے ہے۔ ریحام خان نے اپنی آنکھوں میں حیرانی کی اداکاری کرتے ہوئے کہا:You mean that fat guy۔ عمران فوراً بولا:وہی وہی‘یوں ریحام یہ تاثر دینے میں کامیاب رہی کہ وہ تو دانیال عزیز تک کو جانتی تک نہیں۔ نام تک نہیں سنا ۔ عمران خان نے ریحام کی اداکاری پر فوراً یقین کرلیا ‘ تاہم کسی اور دوست نے اسے بتایا کہ دانیال عزیز کا بڑا قریبی دوست ہے ‘نومی ۔ اسے سب پتہ ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ عمران ایک دفعہ اس سے کنفرم کرلے ‘آیا ریحام خان کا دانیال عزیز کے گھر رات گئے محفلوں میں آنا جانا تھا کہ نہیں؟۔
عمران خان نے نومی کو بلایا۔ فوراً مجھ سے ملو۔ اب نومی کو بھی بالکل اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان اس سے کیوں ملنا چاہتا تھا‘ جیسے مجھے اب شیرو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیٹھے، اندازہ نہیں تھا کہ مجھے عمران خان نے بنی گالہ کیوں بلایا تھا ۔
عمران خان نے پوری بات نومی کو بتائی اور پوچھا کیا یہ سچ ہے کہ ریحام خان رات گئے‘ دانیال عزیز کے گھر دوستوں کی محفل میں جاتی تھی‘ جہاں وہ بھی موجود ہوتا تھا؟ نومی ‘جس کی عمران اور دانیال دونوں سے قریبی دوستی تھی ‘کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ عمران خان نومی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نومی سے جواب کا منتظر تھا ‘جبکہ نومی شاہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا جواب دے۔ اس کے جواب پر عمران اور ریحام خان کی ازدواجی زندگی کا انحصار تھا ۔
عمران نے نومی سے پھر پوچھا :نومی میں نے کچھ پوچھا ہے۔ نومی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا جواب دے۔ نومی نے بولنے کی کوشش کی‘ تو اسے لگا الفاظ گلے میں اٹک گئے ہیں ۔آخرکار نومی نے بولنا شروع کیا ۔
ڈرائنگ روم میں ابھی بھی اعصاب کو چٹخادینے والی خاموشی کا راج تھا ۔ ماحول ٹینس تھا ۔ ریحام خان اور عمران خان میری طرف دیکھ رہے تھے‘ جبکہ میں ان دونوں سے بے پرواابھی تک جرمن شیفرڈ شیرو کی گھورتی ہوئی ذہانت سے بھری خوبصورت‘ لیکن خونخوار آنکھوں میں کھویا ہوا تھا ۔ (جاری)