"RKC" (space) message & send to 7575

چوہدریوں کے ڈیرے پھر آباد ہوگئے!

منگل کے روز گجرات کے مہمان نواز چوہدریوں کے اسلام آباد میں واقع گھر کا وسیع ڈرائنگ روم ایک دفعہ پھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا ۔ یہ منظر میں پانچ برس بعد دوبارہ دیکھ رہا تھا ۔ گھر کے اندر باہر چہل پہل تھی۔مجھے لگا کہیں اور آگیا ہوں‘ کیونکہ پچھلے پانچ برس میں اس ڈرائنگ روم کو اکثر خالی دیکھا تھا ۔ جب سے پیپلز پارٹی حکومت ختم ہوئی اور چوہدری جو زرداری کے ساتھ حکومت میں شریک تھے‘ الیکشن میں زیادہ بہتر پرفارم نہ کر سکے‘ تو سیاسی پرندے ایک ایک کر کے اڑ گئے۔ ان پانچ برسوں میں مجھے اور عامر متین کو اکثر چوہدری صاحبان گھر بلاتے‘سیاست پر طویل گفتگو ہوتی‘ مگر اس ڈرائنگ روم کو ہم ویران پاتے‘ چوہدری شجاعت حسین ‘ پرویز الہٰی اور ایک آدھ قریبی ۔اتنا بڑا ڈرائنگ روم اور اتنا خالی‘دیکھ کر ہول اٹھتا تھا ۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کے عروج ‘ زوال اور پھر عروج کا ایک عینی شاہد میں بھی ہوں ۔ انسان بھی کیا عجیب مخلوق ہے ‘پاور میں ہو تو سب آپ کے دوست بن جاتے ہیں ‘ زوال کی طرف گامزن ہو تو باقی چھوڑیں مشاہد حسین تک چھوڑ جاتا ہے۔ 
میں اور عامر متین ہمیشہ چوہدریوں سے اس لیے خوشی سے ملتے کہ ایک تو ان کے اندر دیہاتی ٹچ موجود ہے۔ آپ کو احساس نہیں ہونے دیں گے کہ مہمان کم تر ہے۔ سب کو عزت دیتے ہیں۔ دوسرا وہ ہم سے لمبی توقعات نہیں باندھ لیتے کہ اب ہم ٹی وی شوز میں ان کا طبلہ بجائیں گے یا گیت گائیں گے۔ عامر متین نے بھی ایک دفعہ انگریزی اخبار میں چوہدریوں کے خلاف طویل آرٹیکلز لکھے‘ جس میں خاصی سخت باتیں تھیں‘ انہوں نے جواب میں اپنی وضاحت بھیجی ‘ کبھی تعلق خراب نہ کیا اور نہ منہ بنایا ۔ میں نے بھی قرض معافی سے لے کر دیگر سکینڈلز چوہدریوں کے خلاف فائل کیے اور ٹی وی شوز پر گفتگو کی‘ لیکن مجال ہے‘ انہوں نے ذکر تک کیا ہو۔ شہباز شریف کے خلاف ایک کالم لکھ دیا تھا‘ دس سال تک شکل تک نہ دکھائی۔نواز شریف پر ایک تنقیدی جملہ کہہ دیا تو ہاتھ ملانے سے بھی گئے۔
میرے اور عامر متین جیسے صحافی تو پہلے ہی بہانے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ کوئی ہمارا اپوزیشن کے دنوں کا دوست اقتدار میں جائے اور ہم اس سے تعلقات خراب کریں ‘تاکہ ہماری رپورٹنگ میں فرق نہ آئے۔ عامر متین کا کہنا ہے ہم کتنے ہی پروفیشنل کیوں نہ ہو جائیں ‘پھر بھی آنکھ کا شرم آجاتا ہے‘ لہٰذا ہم خوش رہتے ہیں کہ ہم سے کوئی ناراض ہوجائے اوردور رہے‘ چاہے برا بھلا کہتا رہے۔
چوہدریوں کے سلسلے میں بھی ہم دونوں کی یہی کوشش رہی ‘یہ ہم سے ناراض رہیں تو بہتر ہے‘ لہٰذا ہم نے ٹی وی شوز کیے‘ کالموں اور خبروں تک میں ان کے خلاف لکھا اور بولا‘ لیکن انہوں نے ہمیشہ اس بات کا احترام کیا کہ یہ صحافی ہیں‘ یہ ان کا کام ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں پہلی دفعہ اس گھر میں 2002ء میں گیا تھا‘ جب انتخابات کے بعد حکومت بن رہی تھی۔ ڈرائنگ روم بھرا ہوا تھا۔ بیٹھنے کو جگہ تک نہ تھی۔ چوہدری شجاعت بڑی مشکل سے کمرے میں لے گئے اور وہاں بھی ایم این ایز اور ایم پی ایز نے نہ چھوڑا۔ اس وقت چوہدری شجاعت حسین سیاسی گاڈفادر تھے ‘پھر جنرل مشرف نے چوہدریوں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا کہ وہ اب بینظیر بھٹو سے ڈیل کر کے اقتدار میں رہنا چاہتا تھا۔ جنرل مشرف نے چوہدریوںکو بلا کر کہا: جو بھی نتائج آئیں‘ آپ لوگ قبول کر لینا‘ کیونکہ اب بینظیر کے ساتھ ڈیل ہورہی ہے۔ رہی سہی کسر ایک امریکی وفد نے پوری کر دی‘ جب چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی کو ملاقات میں کہا گیا کہ اگر ان کی پارٹی 2008ء کے الیکشن جیب بھی گئی‘ تو امریکہ نتائج تسلیم نہیں کرے گا۔ چوہدری آج تک سمجھتے ہیں کہ انہیں ہرانے کے لیے الیکشن میں دھاندلی کرائی گئی تھی؛ اگرچہ چوہدریوں نے کچھ عرصے بعد زرداری کو بھی رام کر لیا ‘ پرویز الہٰی ڈپٹی وزیراعظم بن گئے اور چند وزارتیں بھی لے لیں‘ تاہم پچھلے پانچ سال چوہدریوں پر بہت بھاری تھے۔
پچھلے بارہ برس وہ اقتدار میں رہے تھے‘ پہلے جنرل مشرف اور پھر زرداری حکومت‘ لہٰذا انہیں سیاسی تنہائی کا احساس نہ ہوا تھا ‘ لیکن نواز شریف حکومت لوٹتے ہی سب کچھ لوٹ آیا ‘ گلیاں سنجیاں ہوچکی تھیں‘ اب ان کے گھر کا رخ کرنا کسی کو سوٹ نہیں کرتا تھا ‘ سب چڑھدے سورج کے بچاری۔ اب چوہدریوں سے کسی کو نہ وزارت مل سکتی تھی اور نہ ہی کوئی اور عہدہ ‘ تاہم جب بھی ان سے ملتے تو اور کوئی ان کے ساتھ ہو یا نہ ہو‘ لیکن بہاولپور سے طارق بشیر چیمہ ضرور موجود ہوتے۔ طارق بشیر نے واقعی چوہدریوں سے وفا نبھائی۔ایک دفعہ خالی ڈرائنگ روم دیکھ کر کہا :چوہدری صاحب !یہاں تو کبھی پائوں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی‘ آج ویرانیاں ہیں‘ وہ دونوں مسکرا دئیے ‘ان میں مروت ہے‘ بولے کچھ نہیں‘ کسی کو برا بھلا نہیں کہا۔ ایک دفعہ گئے تو وہاں مشاہد حسین اور ان کے بھائی مواحد حسین موجود تھے۔میں نے کہا: چوہدری صاحب دیکھ لیں‘ مشاہد حسین ابھی تک وفا نبھا رہے ہیں۔چند دنوں بعد پتہ چلا مشاہد حسین نے اپنے سیاسی ماسٹرز تبدیل کر لیے ہیں۔ اگلی دفعہ میں اور عامر متین پھر چوہدریوں سے ملے‘ تو میں نے مشاہد حسین کا ذکر کیا تو وہ پھر ہنس دیے‘ کوئی گلہ‘ کوئی شکوہ ‘ کوئی احسان کا بدلہ کچھ یاد نہیںدلایا ۔ میرے پوچھنے پر سب سے زیادہ تکلیف کس کے چھوڑنے پر ہوئی تھی تو چوہدری شجاعت بولے :باقی کوئی دکھ نہیں ‘ سیاست میں سب چلتا ہے‘ لیکن دو لوگوں کا دکھ ہوا ہے‘ ایک جھنگ سے شیخ وقاص اکرم اور دوسرے امیر مقام ۔ بولے: ہم نے کبھی کسی کو نہیں کہا تھا‘ ہم سیاست سمجھتے ہیں‘ کسی سے توقعات نہیں رکھتے‘ ہاں جو ساتھ کھڑا رہے مشکل میں اس کی عمر بھر قدر کرتے ہیں۔ وہ بولے: شیخ وقاص بھی بڑے بڑے دعوے کرتا تھا‘ مگروقت آیا تو اس نے دیر نہیں لگائی اور نواز شریف کے ساتھ مل گیا۔ چوہدری صاحب بولے کہ امیر مقام کا بھی دکھ ہوا‘ ایک دوپہر وہ ہمارے پاس اسی گھر میں آئے اور کہا کہ وہ ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گا‘ ہم نے کہاکہنے کی کیا ضرورت ہے‘ آپ ہمارے ساتھ ہیں تو پھر ہیں ‘ امیرمقام نے کہا نہیں میری ماں نے مجھے بھیجا ہے کہ تم جا کر چوہدریوں کو بتائو کہ تم انہیں کبھی نہیں چھوڑ کر جائو گے‘ میں یہی بتانے آیا تھا۔ چوہدری شجاعت نے کہا کہ وہ ہمارے گھر سے اُٹھ کر گیا اور تھوڑی دیر بعد کسی کا فون آیا کہ ٹی وی ان کریں‘ دیکھاکہ امیر مقام نواز شریف کی پارٹی جوائن کررہے تھے۔ چوہدری شجاعت ایک تکلیف میں تھے اور بولے کہ یار ہم نے کوئی امیر مقام کو کہا تھا کہ وہ ہمیں آکر بتائیں کہ ان کی اماں نے اسے کیا حکم دیا تھا؟ اس نے جوائن کرنا تھا تو وہ سیدھا جاتا اور نواز شریف کو جوائن کر لیتا‘ جیسے اور ہمارے قریبی لوگوں نے جوائن کر لیا تھا۔
چہل پہل جاری تھی ‘ میں ماضی کی یادوں میں کھویا ہوا تھا ‘ سب لوگ آجارہے تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی بننے کے لیے تیار ہورہے تھے۔ طارق بشیر چیمہ بھی وفاقی وزیر کا حلف اٹھانے کے موڈ میں تھے۔ چوہدریوں نے طویل رفاقت اور وفاداری کا صلہ یہ دیا تھا کہ اپنے ساتھ ان کی بھی ڈیل عمران خان سے کی ۔ چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی عمران خان سے مل کر آئے تھے۔ عمران خان کے رویے میں تبدیلی پر وہ بھی بہت حیران تھے۔عمران خان کے رویے میں انہوں نے کیا تبدیلی محسوس کی تھی؟ میں نے پوچھا : چوہدری پرویز الہٰی اور چوہدری شجاعت نے ایک گہری سانس لی ۔ مجھے پتہ تھا کہ عمران خان اور چوہدریوں کے درمیان دردناک بیک گروانڈ ہے۔ سولہ برس میں بہت کچھ ان دونوں کے درمیان چلتا رہا ۔ بہت اندورنی باتوں کا مجھے بھی علم تھا ‘ پھر وہی مبارکبادوں کا شور‘ پھر وہی مہکتے پھولوں کی بارش ‘ طویل دستر خوان پر سجے مختلف پکوانوں کی خوشبوئیں ‘ مٹھائیوں کے ٹوکرے اور پھر ہر طرف ان سے توقعات باندھے خوشی سے مہکتے چہرے۔ اقتدار کی سیاست اور ذاتی مفادات بھی کیا ظالم چیز ہے ۔گجرات کے چوہدریوں کے پاس دوبارہ اقتدار لوٹتے ہی اسلام آباد میں ان کے پانچ برس سے ویران ڈیرے پھر سے آباد ہونا شروع ہوگئے ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں