الیکشن ہارنے کے بعد مختلف جماعتیں سیاسی اتحاد کے نام پر اکٹھی ہو چکی ہیں‘مشترکہ دشمن عمران خان ہے ۔ کبھی عمران خان بھی ایسے اتحادوں کا حصہ ہوتے تھے‘ وہ بھی ان تصویروں میں نظر آتے تھے۔ ان سب کو پتہ ہوتا ہے جس کا دائو پہلے لگے گا وہ میوزکل چیئر کے اس کھیل میں کرسی پر پہلے بیٹھ جائے گا ‘چاہے دوسرے کو زور کا دھکا ہی کیوں نہ دینا پڑے ۔ پریس کانفرنس کی جو تصویر چھپی ہے اس میں موجود شکست خوردہ چہروں سے عیاں ہے کہ عمران خان ان سب کو دھکا دے کر کرسی پر بیٹھ گیا ہے ۔ مجھے حیرت ان لوگوں پر ہورہی ہے‘ جو ان' سیاسی بتوں‘ سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ کوئی کردار دکھائیں گے۔راتوں رات کایا پلٹ گئی‘ سب نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا‘ کسی کو شکوہ شکایت نہیں رہی‘ کوئی کرپٹ یا لٹیرا نہیں رہا ۔ ان کے نزدیک کردار اور اصول وہ ہیں جو نالائق اور نکمے لوگ زندگی میں فالو کرتے ہیں ‘ قابل لوگ لاشیں گرا کر اوپر سے گزر جاتے ہیں ۔
عمران خان نے بھی ان سب سے یہی کچھ سیکھا تھا کہ سیاست میں اخلاقیات‘نظریے‘ کردار اور بھاشن نہیں ہوتے‘کرسی ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ عمران خان نے ان سے سیکھے ہوئے دائو‘ انہی پر آزمائے اور کامیاب رہے۔ مان لیتے ہیں پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتیں الائنس کرتی ہیں ‘لیکن جب آپ کے درمیان بہت زیادہ نظریاتی فرق ہو تو آپ اتحاد کی بجائے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر ایشوز کی بنیاد پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں دیتے۔ کئی دفعہ پارلیمنٹ میں دیکھ چکا ہوں کہ ایک اپوزیشن جماعت نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تو دیگر اپوزیشن جماعتیں ہاؤس کے اندر بیٹھی رہیں ۔ ویسے حیران ہوں کہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان کیسے الائنس ہوسکتا ہے‘پھر سوچتا ہوں منافقت کا نام ہی تو سیاست ہے۔ وہی سراج الحق جو ہر وقت' زرداری کرپٹ ہے‘ کے نعرے بلند کرتے رہتے ہیں ‘انہوں نے ہی منصورہ میں زرداری کو بلا کر دعوت کھلائی اور ان کے ساتھ کھڑے ہو کر پریس کانفرنس بھی کی ۔ جس نواز لیگ پر کرپشن کے الزامات لگاتے تھے‘ انہی کو اسمبلی کے اندر ووٹ بھی ڈالتے تھے۔ یہ تصویر دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں ۔ اس میں محمود اچکزئی کیا کررہے ہیں‘ جس میں فرنٹ پر لیاقت بلوچ‘مولانا فضل الرحمن‘ سراج الحق ‘ انس نورانی‘ ساجد میر‘اکرم درانی اور چند دیگر مذہبی پارٹیوں کے لوگ کھڑے ہیں ؟ یہ تو وہی اچکزئی ہیں جنہوں نے پچھلے چالیس برسوں میں پاکستان اور افغانستان میں ہر بربادی اور دہشت گردی کا ذمہ دار جماعت ِاسلامی کو ہی قرار دیا تھا۔ اچکزئی ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ جماعت اسلامی نے آمروں کے ساتھ مل کر مذہب کے نام پر جنگیں شروع کیں اور خون بہایا۔ وہ جب بھی قومی اسمبلی میں تقریر کرتے تھے تو جماعتِ اسلامی کے افغان جنگ میں کردار پر خوب برستے تھے۔ آ ج وہ سراج الحق کے پیچھے باجماعت نماز پڑھنے کو تیار ہیں۔ پھر تصویر میں میری نظر اسفندیار ولی خان پر پڑتی ہے‘ یہ بھی پختونوں اور افغانوں کے قتل ِعام اور خون ریزی کا ذمہ دار جماعت اسلامی کو ہی سمجھتے رہے۔اب وہی جماعت اسلامی اے این پی کو لیڈ کررہی ہے۔
تو کیا یہ سب ملک کے مفاد میں اکٹھے ہوئے ہیں ؟ کیا انہیں لگتا ہے ملک خطرے میں ہے اور ان کا اتحاد ملک کو بچا سکتا ہے؟ ایک تھیوری یہ ہوسکتی ہے کہ عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اپوزیشن کو اکٹھا کر دیا گیا ہے‘ تاکہ عمران کو قابو میں رکھا جاسکے۔ اگرعمران کو ٹف ٹائم ہی دینا تھا تو اسے اقتدار میں لانے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسری تھیوری یہ ہوسکتی ہے عمران خان ان اپوزیشن جماعتوں کا احتساب کرے گا‘ جو ان سب کو سوٹ نہیں کرتا لہٰذا سب کا اکٹھاہونا بنتا ہے‘ تاکہ مل کر اس خطرے کا مقابلہ کریں‘ جو تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔لوگوں کو سب سے زیادہ حیرانی شہباز شریف اور زرداری کے اتحاد پر ہورہی ہے۔ جو زبان ایک دوسرے کے خلاف یہ استعمال کرچکے ہیں‘ اس کے بعد ان کا ایک دوسرے کو گلے لگانا ایک ایسا عمل ہے جس کو سمجھنا مشکل ہے۔ دراصل شہباز شریف اور زرداری کو اس وقت ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ شہباز شریف کے گرد نیب کا گھیرا تنگ ہورہا ہے اور ان کی اربوں روپوں کی کمپنیوں کے سکینڈ لز نے انڈے ‘ بچے دینے شروع کردیے ہیں۔ نیب نے شہباز شریف کے جو دو معتمد پکڑ رکھے ہیں‘ اس سے ان کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ پہلے احد چیمہ' بعد میں فواد حسن فواد اور اب باقی افسران بھی پکڑے جارہے ہیں‘ جو وعدہ معاف گواہ بنتے جارہے ہیں۔ شہباز شریف کرپشن ماڈل کی تفصیلات لوگوں کے لیے حیران کن ہیں۔ بات صرف شہباز شریف تک محدود نہیں رہی‘ بلکہ ان کے خاندان کے باقی لوگوں کا نام بھی اس فہرست میں آرہا ہے ۔ شہباز شریف کے داماد علی عمران نے جس طرح صاف پانی پراجیکٹس میں کروڑوں روپے کی ڈیلیں کیں اور مال بنایا وہ‘ اپنی جگہ ایک خوفناک سٹوری ہے‘ اسی لیے وہ پاکستان سے بھاگے ہوئے ہیں ۔
دوسری طرف زرداری کا پینتیس ارب روپے منی لانڈرنگ کا سکینڈل ان کے لیے پھندابن سکتا ہے۔ زرداری کو یہ بھی احساس ہورہا ہے کہ شاید وہی ہیئت مقتدرہ جس کے کندھے پر سوار ہو کر وہ کچھ دن پہلے تک اقتدار میں آنے کی امید لگائے بیٹھے تھے ‘ اندر کھاتے ان کے خلاف کام بھی کررہی تھی۔ ہمارے سیاستدان اپنے کرتوت نہیں دیکھتے لیکن جب ان کی چوریاں پکڑی جاتی ہیں تو فوراً ان کا دھیان ایجنسیوں اور ہئیت مقتدرہ کی طرف جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ سیاستدان کیوں ایسی چوریاں کرتے ہیں جنہیں دیگر ادارے استعمال کرکے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتے ہیں؟ زرداری اور شہباز شریف ‘جنہوں نے ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنا تھا ‘ ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں‘ ایک نیب کو مطلوب ہے تو دوسرا ایف آئی اے کو ۔ یہ پانچ سال ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے کی باتیں کرتے رہیں گے‘ لیکن جونہی پھنداکسنے لگے گا تو بھائی بھائی بن جائیں گے۔پاکستانی سیاست کو اتنا غلیظ کردیا گیا ہے کہ اس سے گھن آنا شروع ہوگئی ہے‘ کوئی کردار نہیں رہا ‘ ایک بھی رول ماڈل نہیں رہا۔ کبھی میرے جیسے صحافی محمود خان اچکزئی سے رومانس رکھتے تھے‘ ان کی باتیں سنتے تو لگتا قدیم رومن سینیٹ کے سینیٹر کا ہمارے ہاں جنم ہوچکا ہے۔ نواز شریف نے بھائی گورنر لگادیا تو وہی اچکزئی پہچا نے نہیں جاتے‘ آج وہ ساتویں قطار میں دور کہیں اسفندیار کے ساتھ انہی مولویوں کے پیچھے شکست خوردہ چہروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔مان لیا عمران خان کے خلاف ان سیاسی جماعتوں کا الائنس ہونا چاہیے‘ تاکہ عمران پر چیک رہے‘ لیکن کیا محمود اچکزئی کو اب عمران خان کے خلاف اپوزیشن کرنے کے لیے ان مذہبی جماعتوں کے ساتھ کندھے ملانے کی ضرورت تھی‘ جن کے خلاف وہ برسوں تقریریں کرتے رہے؟
واقعی اقتدار اور سیاست ایسی چیز ہے کہ اس کے لیے پیپلز پارٹی کے زرداری اور بلاول اب مسلم لیگ نواز کے وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف کوووٹ ڈالیں گے؟ وہی بلاول جو نواز شریف کو مودی کا یار کہتے تھے‘ وہی نواز شریف جو بھٹو کو پھانسی دینے والے جنرل ضیا کا مشن پورا کرنے کی قسمیں کھاتے تھے۔
ساری عمر یہ ہمیں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے سیاست میں کردار پر لیکچر دیتے رہے‘ ڈراتے رہے‘ اسمبلیوں میں گرجتے برستے رہے‘ انہیں پاکستان کے سب مسائل کا ذمہ دار کہتے رہے اور آج انہی کے پیچھے جا چھپے ہیں ‘اور ایسے چھپے ہیں کہ اچکزئی اور اسفندیار بے چارے نظر تک نہیں آتے ۔ کبھی جاوید ہاشمی کو مشورہ دیا تھا کہ بہتر ہے وہ سیاست ترک کردیں‘وہ بھی نہیں مانے‘ اور مانیں گے اچکزئی اور اسفندیار بھی نہیں ۔ قدرت کے اپنے اصول ہیں۔ ہمارے کل کے ہیروز کے بت ایک ایک کر کے منہ کے بل گر رہے ہیں۔زرداری پرانا کھلاڑی ہے ‘ اس کا کچھ نہیں بگڑے گا ‘ لیکن نوجوان بلاول کی‘ شہباز شریف کو وزیراعظم کا ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر وہی حالت ہوگی جو شیکسپیئر کے ڈرامے Macbeth میں سکاٹ لینڈ کے بادشاہ ڈنکن کو قتل کرانے کے بعد لیڈی میکبتھ کی ہوئی تھی۔ وہ رات کو نیند سے اٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو دیکھ کر چیخیں مارنے لگتی اور کہتی :
I still have the smell of blood on my hand. All the perfumes of Arabia couldn't make my little hand smell better. Oh, oh, oh!