قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کے وقت ہنگامے اور شور شرابے کے دوران پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے اراکین ایک دوسرے کے لیڈروں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔' نواز شریف چور‘ اور 'عمران خان چور ‘ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیںاور پریس گیلری میں بیٹھا میں سوچ رہا تھا‘ کیا ہماری قسمت میں صرف چور ہی لکھ دیے گئے ہیں؟ جو وزیراعظم گیا وہ بھی چور کہلایا اور جو نیا وزیراعظم بنا وہ بھی چور؟ بس الزامات کی نوعیت مختلف ہے۔ سوا کروڑ ووٹ لینے والی نواز لیگ سمجھتی ہے کہ عمران خان نے ان کے ووٹ چرائے ہیں لہٰذا وہ چور ہے‘جبکہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والی پارٹی تحریک انصاف سمجھتی ہے نواز لیگ نے ملک کا خزانہ چرایا ‘ لہٰذا وہ بڑے چور ہیں۔ اب اس کا فیصلہ کون کرے‘ ووٹ چرانا برا کام ہے یا غریب ملک کے خزانے چرا کر باہر لے جانا اور وہاں جائیدادیں بنانا؟
جب دونوں کو پتہ ہے کہ ان پر کچھ نہ کچھ چرانے کا الزام ہے تو آرام سے بیٹھ کر ایک دوسرے کی بات سننے میں کیا حرج ہے؟ جس طرح کی نعرے بازی ان ارکان نے عمران خان اور نواز شریف کے خلاف کی‘ میں حیران ہوں کہ دونوں کو کیسے رات کو نیند آتی ہوگی؟ گوشت پوست کے انسان کے لیے تو یقینا یہ مشکل کام ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے جیسے کمزور دل اور عزت کے بارے میں حساس انسان کا معاملہ ہو تو وہ دو تین ایسے گندے نعرے سننے کے بعد ہی باہر نکل جائے کہ سنبھالو اپنا سب کچھ ۔
شاید عمران خان اور شہباز شریف کو بڑی دیر بعد سمجھ آئے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے‘ ان کے ارکان ایک دوسرے کے لیڈٖروں کو گالیاں دیتے رہے۔ اس لڑائی میں وہی ہوا جیسے محاورتاً کہا جاتا ہے کہ لڑتے لڑتے ہوگئی گم‘ ایک کی چونچ ‘ ایک کی دم۔ ان کی اس گالی گلوچ کے درمیان میلہ نوجوان بلاول بھٹو نے لوٹ لیا ۔
شہباز شریف کے پاس بڑا اچھا موقع تھا وہ کچھ دیر کے احتجاج کے بعد قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کرتے اور اپنا اثر چھوڑتے۔ وہ اسلام آباد میں نئے نئے آباد ہوئے ہیں‘ انہیں اسمبلی کے مزاج کا علم نہیں ۔ یہ پنجاب اسمبلی نہیں ‘ جہاں وہ کئی کئی ماہ تک نہیں جاتے تھے اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں تھا ۔ لاہور کے میڈیا کو ساتھ ملا کر حکومت کرنا ہمیشہ آسان رہا ہے‘اسلام آباد میں آپ کچھ بھی کر لیں‘ کچھ صحافی پھر بھی بچ جاتے ہیں جو آپ کو میرٹ پر جج کرتے ہیں اور وہ آپ سے کنٹرول نہیں ہوتے۔ شہباز شریف نے اپنا نقصان کیا۔ لیکن حیرت پی ٹی آئی والوں پر ہے ‘جنہوں نے نواز لیگ سے بھی بڑا ہنگامہ کیا ۔ ضرورت تھی کہ وہ شہباز شریف کو پورا موقع دیتے کہ وہ کھل کر بات کریں‘ تاکہ لوگ فرق جان سکتے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ عمران خان اور شہباز شریف نے ایک دوسرے کو تقریر نہ کرنے کا موقع دے کر کیا پایا؟ بلاول کی تقریر کے وقت ہال میں پن ڈراپ خاموشی تھی۔ شاہ محمود قریشی نے بھی مزے لے کر تقریر کی۔ اختر مینگل اور دیگر سربراہوںکو بھی فورم خاموش ملا۔ جن دو لیڈروں کو اس دن ہم سب سننا چاہتے تھے‘ ان کے پیروکاروں نے گالیاں دے کر ان کی بات نہیں سننے دی ۔ کیا یہ عمران خان اور شہباز شریف اور ان کے ارکانِ اسمبلی کی سمجھداری ہے یا اعلیٰ درجے کی حماقت ؟ عمران خان کا غصے میں آنا کسی حد تک فطری تھا ۔ ہاؤس کے اندر جو گالی گلوچ اور نعرے بازی کی گئی اس کے بعد کوئی بھی ہوتا تو وہ بھڑک جاتا ۔ اسمبلی کے اندر کوئی سادھو درویش نہیں بیٹھے جو تھپڑ کھا کر دوسرا گال آگے کردیں ‘ یہ سیاسی سادھو تو ایسے ہیں جو پانچ ہزار روپے دیہاڑی لگانے کی خاطر جعلی حاضریاں تک لگواتے ہیں‘ تو ان سے خاموشی کی توقع رکھنا شاید ہمارا قصور ہے۔
عمران خان کی تقریر میں اہم بات یہ تھی وہ اب سب چوروں کا احتساب کریں گے۔ شاید انہیں پتہ نہیں کہ کہاں کہاں کیاکھیل کھیلا گیا ہے اور کس طرح حکمرانوں اور بیوروکریسی نے لمبا مال بنایا ہے۔ عمران خان نے پچھلے پانچ سال ضائع کئے ‘ پارلیمنٹ سے دور رہے اور اس سے بڑا سیاسی جرم یہ کیا کہ وہ ہاؤس کے اندر وقفۂ سوالات اور اہم کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شریک نہ ہوئے۔ ان کے حامی اور ایڈوائزر نے انہیں غلط مشورہ دیا کہ یہ ان کا سٹیٹس نہیں کہ وہ کمیٹی اجلاسوں میں بیٹھیں ۔ عمران خان کو ان کمیٹی اجلاسوں میں ہر صورت موجود ہونا چاہیے تھا تا کہ وہ سیکھتے کہ وزیراعظم بن کر فیصلے کیسے کرنے ہیں۔ اور سب سے اہم وہ یہ سیکھتے کہ حکومتی اداروں میں کرپشن کیسے کی جاتی ہے اور بیوروکریٹس کس کمال سے یہ سب وارداتیں کرتے ہیں۔ سب کہتے ہیں: عمران خان ایماندار ہے اور نیت ٹھیک ہے۔ یہ ذاتی خوبیاں ہیں اور اچھی ہیں‘ لیکن میرا اسلام آباد میں رپورٹنگ کا بیس سالہ تجربہ کہتا ہے کہ یہ دونوں خوبیاں آپ کو اچھا حکمران نہیں بنا سکتیں‘ جب تک کہ آپ پورے سسٹم کو نہیں سمجھتے۔ بیوروکریسی اب ہر فائل پر عمران خان کو ڈرائے گی کہ وہ یہ نہیں کرسکتے‘ وہ نہیں کرسکتے‘ کیونکہ عمران خان کو گورننس کا کوئی تجربہ نہیں۔
آئین کے تحت ہر سال ہر سرکاری ادارے کا آڈٹ ہونا ضروری ہے‘پانچ سال گزر گئے ہیں کبھی قومی اسمبلی‘ ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کی آڈٹ رپورٹس سامنے نہیں آئیں ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے کرپٹ آڈیٹروں نے ان اداروں کی کرپشن چھپانے میں بھرپور ساتھ دیا ہے ۔ آڈیٹرز آڈٹ کرنے تو جاتے ہیں‘ لیکن اپنے اور خاندان کے لیے مراعات اور رعایتیں لے کر سب اچھا کی رپورٹ دے آتے ہیں ‘اور کوئی رپورٹ شائع نہیں کی جاتی۔ اب ہمیں پتہ نہیں پانچ برسوں میں سپیکر ایاز صادق اور ان کے سکرٹریٹ نے کیا گل کھلائے۔ آڈٹ کرائیں تو ایسے انکشافات ہوں کہ دماغ ہل جائیں ۔ جہاں پانچ ہزار روپے الاؤنس کے لیے جعلی حاضریاں لگتی ہوں ‘ وہاں سوچ لیں اربوں کے بجٹ کے ساتھ کیا کھیل کھیلے گئے ہوں گے ۔ اسی طرح ایوان صدر کے مکینوں نے جس طرح سعودی عرب کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا تھا اور کئی کئی ہفتے وہاں سرکاری خرچ پر عمرے ہوئے ‘ وہ اپنی جگہ ایک الگ سکینڈل بنے گا ۔ جو کچھ کراچی کے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے ساتھ ممنون حسین صاحب کے خاندان نے کیا ‘ اس کی تفصیلات سن کر کانوں سے دھواں نکل جائے گا۔ وہ سٹیٹ گیسٹ ہاؤس وزیراعظم یا صدر کی فیملی مستقل رہائش کے لیے استعمال نہیں کرسکتی‘ مگر وہاں پانچ سال تک صدر ممنون حسین کے بچوں نے قبضہ کیے رکھا ۔ صدر کے بچے بھیڑ بکریوں کا کام کرتے ہیں۔وہ بھیڑ بکریاں بلوچستان سے لا کر وہیں رکھی جاتی تھیں۔ اسی طرح نواز شریف دور میں بھی وزیراعظم ہاؤس میں جو اخراجات ہوئے ان کا کسی کو علم نہیں‘کیونکہ اس کا آڈٹ نہیں ہونے دیا گیا ۔ مری کا گورنر ہاؤس جہاں شریف خاندان ٹھہرتا تھا‘کی آرائش پر پچاس کروڑ خرچ ہوئے‘ اس کا آڈٹ ہونا بھی ضروری ہے۔
عمران خان نے اگر نیا سٹارٹ لینا ہے تو پہلے ان بڑے چوروں کا آڈٹ کرائیں اور قوم کے سامنے لائیں کہ کس طرح ان بڑے ہاؤسز کے چھوٹے مکینوں نے لوٹ مار کی ہے۔ محض وقتی غصے میں قومی اسمبلی میں دھمکی تو دے دی کہ سب ڈاکوئوں کا احتساب ہوگا‘ لیکن سوال یہ ہے کیا آپ کو پتہ بھی ہے کہ قانونی طور پر احتساب کیسے ہوسکتا ہے؟ ہر کسی کواٹھا کر جیل میں پھینک دیا جائے گا یا عدالتوں میں کچھ ثابت بھی کرنا پڑے گا ؟ اس کے لیے آپ کو قانونی اور آئینی طریقے استعمال کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے
ان تمام اہم سرکاری اداروں سے وہ عہدے دار ہٹائیں‘ جنہیں اسحاق ڈار لگا کر گیا تھا‘ اور جنہوں نے حکومت کی کرپشن کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ الٹا ان کی مدد کی۔
شروعات قومی اسمبلی سے ہونی چاہیے‘ جہاں جن ارکان کی اکثریت نے عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا ووٹ دیا ہے‘ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو پانچ ہزار روپے کے لیے جعلی حاضریاں لگاتے رہے ہیں۔ ان جعلی حاضریوں کے بدلے قومی اسمبلی کے حاضری رجسٹر پر مامور اہلکار ایک ایک ایم این اے سے ایک ہزار روپے فی حاضری معاوضہ وصول کرتے ہیں ۔کچھ افسران ان ایم این ایز کی کمیٹی اجلاسوں میں جعلی حاضری لگانے پر بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ۔ کچھ ایم این ایز تو اسمبلی افسر سے الاؤنس کا تگڑا چیک وصول کرنے کے بھی پیسے پیش کرتے ہیں ۔
یہ ہے وہ قومی اسمبلی‘ ارکان قومی اسمبلی‘ اور سیکرٹریٹ افسران‘ جہاں کھڑے ہوکر عمران خان نے ڈاکوئوں اور لیٹروں کو نہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ خان صاحب ۔ نیک کام گھر سے شروع کریں!