سیانے کہتے ہیں: جو گانٹھیں وقت پر ہاتھوں سے نہ کھولی جائیں‘ وہ دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ یہی کچھ اب ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس‘ جناب جسٹس میاں ثاقت نثار صاحب نے اب پاک پتن معاملے پر سووموٹو لے لیا اور جمعہ کے روز آئی جی پنجاب‘ انکوائری افسر‘ ڈی پی او اور آر پی او کو بھی بلا لیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا جب کوئی حکمران وقت پر فیصلہ یا ایکشن لینے کی بجائے انتظار کرتا رہا کہ معاملہ خود بخود سدھر جائے گا اور ناقدین تھک کر چپ ہو جائیں گے۔ میں نے اسلام آباد میں بیس سالہ جرنلزم میں یہی کچھ دیکھا ہے۔ ہر حکمران نے یہ رویہ رکھا ہے کہ معاملہ ٹالتے رہو‘ کسی بات کو سنجیدہ نہ لو۔ یوں گورننس میں دھیرے دھیرے گیپ پیدا ہوتا رہتا ہے‘ لیکن وہ گیپ زیادہ دیر نہیں رہتا اور آخر ایک دن کوئی ادارہ بڑھ کر اس گیپ کو بھر کر سب اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور عوام اس کے نعرے مارنے لگ جاتے ہیں۔ بعد میں جب اس وزیر اعظم یا پارٹی کی حکومت بحرانوں میں گھرتی جاتی ہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی معاملہ عدالت میں پیش ہوتا ہے اور وہاں وزراء اور افسران پیشیاں بھگت رہے ہوتے ہیں تو پھر ایک ہی بہانہ حکمرانوں کے پاس بچ جاتا ہے کہ ہماری حکومت کو نہیں چلنے دیا جا رہا‘ ادارے ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کا ملبہ عدالت اور اداروں پر ڈال کر خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ بیماری کہاں سے شروع ہوئی؟ ججوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ حکومت اور حکمرانوں کی جگہ لینے کی کوشش کریں؟ وہ کیوں وقت اور انرجی ان کاموں پر ضائع کریں جو حکومت کے کرنے کے کام ہیں؟ تو پھر کیوں عدالتیں وہ کام کرنے لگ جاتی ہیں جو حکومتوں کے نزدیک اس قابل نہیں کہ ان کو اہمیت دی جائے؟ تو پھر عدالت کیوں سمجھتی ہے کہ یہ اہم ایشوز ہیں اور ان سے عوام متاثر ہو رہے ہیں؟
ایک دفعہ میری پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم سے بات ہوئی تو وہ عدالتوں کے سخت رویے کے شاکی تھے۔ میں نے کہا: عدالت کیا کرتی ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے اختیارات استعمال کرتی ہے‘ ہمارے ذریعے وہ کام کراتی ہے جو ہم نے نہیں کیے ہوتے۔ میں ہنس پڑا اور کہا: وہ کام آپ خود کیوں نہیں کرتے‘ جو عدالتیں آپ سے کراتی ہیں؟ آپ عدالتوں کے حکم کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ جج جو کام کرتے ہیں‘ اس پر عوام انہیں داد دیتے ہیں‘ اس کا مطلب ہے وہ کام ہونا ضروری تھا۔ وہ کام آپ پہلے نہیں کرتے‘ لیکن جب جج حکم دیتے ہیں‘ تو آپ دوڑ پڑتے ہیں۔ جج صاحبان کے حکم پر وہی سرکاری مشینری اور بابوز کام کرتے ہیں جو پہلے کرنے کو تیار نہیں تھے۔ مسئلہ حکمرانوں کے ساتھ ہے۔ لوگ جج صاحبان کے پاس شکایات لے کر جائیں گے تو وہ کچھ تو حکم دیں گے۔ جج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں‘ وہ بھی روزمرہ باتوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ حکمران تو مزے کر رہے ہیں اور عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں تو پھر وہ ایکشن لیتے ہیں۔ آپ لوگوں کو تو چاہیے کہ آپ عدلیہ کے ذریعے بیوروکریسی اور گورننس بہتر کرتے اور عوام سے داد پاتے‘ آپ الٹا عدالتوں سے سینگ اڑا لیتے ہیں۔ آپ کام کی بجائے ججوں کی طرف توپوں کا رخ کر لیتے ہیں۔ آپ چند افسران اس کام پر لگائیں کہ وہ کون سی باتیں ہیں جن پر چیف جسٹس ایکشن لیتے ہیں‘ آپ ایسے کاموں پر خود سے کارروائی کریں۔ روزانہ اخبارات اور چینلز کے ذریعے حکومتی نااہلی‘ گندگی‘ کرپشن اور دیگر معاملات پر خود ایکشن لیں اور افسران کو کہیں کہ وہ ایکشن لیں‘ معاملات درست کرنے کے بعد میڈیا کو پریس ریلیز جاری کریں۔ وزیراعظم اپنی حکومت کی کرپشن اور وزرا اور بیوروکریسی کی بدعنوانیوں کا تحفظ کرنے کی بجائے کارروائی کریں‘ تو دیکھیں عوام آپ کے کیسے دیوانے ہوتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار اس لیے عوام میں مقبول ہوئے کہ انہوں نے وہ کام حکومتوں سے کرائے جو حکومت اور حکمرانوں کو خود کرنے چاہئیں تھے‘ لیکن وہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔
جنرل مشرف کو بھی یہ شکایت تھی کہ ان کے بابوز کو عدالت میں بلایا جاتا ہے۔ زرداری اور گیلانی بھی ناراض ہوگئے کہ کیوں عدالتیں ہمارے کاموں میں مداخلت کرتی ہیں‘ نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی عدالتوں سے شکایت رہی۔ بات وہی ہے کہ جب آپ خود وقت پر ایکشن نہیں لیں گے تو عدالتیں لیں گی۔ اب یہی پاک پتن کا واقعہ دیکھ لیں۔ عمران خان کے پاس بہت وقت تھا کہ اس معاملے پر خود ایکشن لیتے‘ کتنی دیر لگنی تھی۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب‘ آئی جی کلیم امام‘ آر پی او ساہیوال شارق کمال صدیقی اور ڈی پی او رضوان گوندل کو اسلام آباد بلا کر اجلاس میں سب کی سن کر اسی وقت قدم اٹھا لیتے۔ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کا کام تھا۔ عمران خان کو علم ہونا چاہیے تھا وہ جس طرح کی پوزیشن ماضی میں 'سٹیٹس کو‘ اور وی آئی پی کلچر کے خلاف لیتے رہے ہیں اس کے تناظر میں یہ بڑا واقعہ تھا۔ دوسرے جو لوگ اس میں ملوث تھے وہ اب عمران خان کے قریبی رشتہ دار ہیں‘ لہٰذا اس بات کا ایشو بننا فطری عمل تھا۔ عمران خان چونکہ خود ایک ہائی مورال پوزیشن لے چکے ہیں‘ لہٰذا ان کے دوست دشمن سب ان سے توقع رکھتے ہیں۔ جب عمران خان اسلام آباد کے ایس پی محمد علی نیکوکارا اور آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ کو چوہدری نثار علی خان کے عتاب کا شکار ہونے کے باوجود اصول پر ڈٹے رہنے پر شاباش دیتے تھے تو آج لوگ ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ رضوان گوندل کے معاملے میں بھی سٹینڈ لیں گے۔ اگر نیکوکارا اور چیمہ کو نواز شریف حکومت کا برطرف کرنا ناجائز تھا تو رضوان گوندل کا بھی انکوائری سے پہلے تبادلہ کرنا غلط ہے۔ لیکن عمران خان پہلے امتحان میں ناکام رہے۔ وہ سوچتے رہے اور چیف جسٹس صاحب نے قدم اٹھا لیا۔ اب کل کو وزیراعظم کے حامی کہیں گے کہ عدالتیں ہمارے وزیراعظم کو نہیں چلنے دیتیں۔ یہ کوئی نہیں کہے گا کہ وزیراعظم سوچتا رہا فیصلہ نہ کرسکا۔ جناب چیف جسٹس نے فیصلہ کر لیا۔ عمران کو اس چپ کا نقصان ہوا‘ فائدہ نہیں۔
چلیں مان لیا خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ان کی شان میں گستاخی ہوگئی تھی۔ مان لیا رضوان گوندل کا قصور ہوگا‘ لیکن یہ کیسے ہوا کہ عمران خان کی بیگم صاحبہ کی سہیلی فرح‘ جس کے گھر نکاح ہوا تھا‘ اس کا خاوندا حسن اقبال جمیل وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں بیٹھ کر ڈی پی او اور آر پی او سے تفتیش کرے اور انہیں حکم دے کہ جا کر معاملہ سیٹل کرو ورنہ اس کے نتائج ہوں گے؟ یہ اختیار احسن اقبال جمیل کو کس نے دیا کہ وہ دو پولیس افسران کو دبائے؟
اب پتہ چلا کہ عثمان بزدار کا نام آسمان سے نہیں ٹپکا‘ اصل میں یہ نام بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح اور اس کے خاوند احسن جمیل کی طرف سے عمران خان تک پہنچایا گیا تھا۔ سب کچھ پہلے سے طے تھا‘ لیکن یوں ظاہر کیا گیا جیسے مناسب بندہ نہیں مل رہا تھا تو عثمان بزدار کا نام سامنے آ گیا۔ یہ ہیں راج نیتی کے وہ کھیل جو دھیرے دھیرے سامنے آرہے ہیں۔ حکومتیں بدل سکتی ہیں‘ لیکن راج نیتی کے اصول نہیں بدلتے‘ سازشیں اور چالاکیاں نہیں بدلتیں۔ راج نیتی کا کھیل ایک ہی طریقے سے کھیلا جاتا ہے‘ چاہے کھلاڑی بدلتے رہیں۔ مجھے ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر کا ڈائیلاگ یاد آرہا ہے کہ دنیا میں اتفاق نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ سب کچھ پلانڈ (Planned) ہوتا ہے۔ گاڈ فارد نے اپنے دشمنوں کو کہا اگر میرے بیٹے پر آسمانی بجلی بھی گری تو بھی میں اسے اتفاق نہیں مانوں گا‘ سمجھوں گا تم لوگوں نے آسمانی بجلی سے مل کر سازش کی تھی۔
دو پولیس افسران سے وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں بشریٰ بی بی کی دوست فرح کے خاوند احسن اقبال جمیل کا تفتیش کرنا بھی اتفاق نہیں تھا‘ یہ سب پلانڈ (Planned) تھا۔ ہمارے سرائیکی علاقے کا سادہ لوح عثمان بزدار بھلا کیسے اپنے محسن‘ جس نے اسے وزیراعلیٰ‘ بنوا دیا‘ کو روک سکتا تھا کہ وہ اس کے اختیارات استعمال نہ کرے۔ ویسے داد دیں ان کو جو راج نیتی کا یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ ایسے ظاہر کر رہے تھے جیسے عثمان بزدار اتفاقاً وزیر اعلیٰ بن گیا۔ اب پتہ چلا یہ اتفاق نہیں تھا‘ سب کچھ پلانڈ (Planned) تھا۔ یہ راج نیتی کے کھیل کا حصہ تھا‘ جسے ہم سادہ لوح دیہاتی ایک آسمانی اتفاق سمجھ کر داد دیتے رہے!