جب وزیر اعظم عمران خان پاکستان اور چین کے حوالے سے باتیں شیئر کرکے صحافیوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ آف دی ریکارڈ رکھیں تو مجھے شہباز شریف کی بات یاد آئی۔
نو سال قبل لندن کے دنوں میں وہ ایک دن ہم صحافیوں سے آکسفورڈ سٹریٹ میں واقع دفتر میں بات چیت کر رہے تھے۔ ارشد شریف اور راقم بھی وہاں موجود تھے۔ کوئی اہم سیاسی سوال ہوا تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ ہم نے اپنے تئیں چالاک بننے کی کوشش کی اور کہا: کوئی بات نہیں آف دی ریکارڈ بتا دیں۔ شہباز شریف نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے: اب اتنا عرصہ سیاست کرنے کے بعد یہ تو سیکھ ہی گیا ہوں کہ صحافیوں سے کی گئی کوئی بات آف دی ریکارڈ نہیں رہتی۔ آپ لوگ کچھ دن تو اس بات کو آف دی ریکارڈ رکھتے ہیں‘ پھر ذرائع کا حوالہ دے کر خبر چھاپ دیتے ہیں۔ شہباز شریف بالکل درست سوچتے ہیں۔ اب یہ سیاستدان پر ہوتا ہے کہ وہ کتنی گفتگو ایسی افورڈ کر سکتا ہے جو کل کو باہر بھی نکل جائے تو زیادہ نقصان نہ ہو۔
اس لیے جب عمران خان نے کچھ باتیں ایسی کیں جو انہوں نے کہا‘ آف دی ریکارڈ ہوں گی تو مجھے اندازہ تھا کہ یہ زیادہ دیر آف دی ریکارڈ نہیں رہیں گی‘ اگرچہ پروفیشنل صحافی کبھی ایسی باتیں باہر نہیں نکالتے۔ اس لیے جب ہمارے جیسے صحافیوں کی اکثریت نے عمران خان کی گفتگو کو آف دی ریکارڈ رکھا اور آج تک رکھا ہوا ہے تو ہمیں پی ٹی آئی کے حامیوں کی طرف سے ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ آپ لوگوں نے تو وہاں وزیر اعظم کا وقت برباد کیا ہے‘ کام کی بات ہی نہیں کی۔ آپ لوگ نالائق ہیں۔
اب سوشل میڈیا پر نئی نسل آئی ہے جسے صحافت کے اصولوں کا زیادہ علم نہیں‘ اور اس میں ان کا بھی قصور نہیں ہے۔ جس طرح آف دی ریکارڈ باتیں باہر نکلی ہیں اس کے بعد تو لگتا ہے ہم صحافیوں کو بھی ان اصولوں کا زیادہ پتہ نہیں ہے۔ ٹی وی جرنلزم نے صحافیانہ روایات اور اصولوں کو بھی دفن کر دیا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر بھی لوگ آرام سے بات پوچھنے کی بجائے فوراً گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحافیوں نے ان کے ساتھ وہ مکالمہ ختم کر دیا ہے جو وہ پہلے سوشل میڈیا پر کرتے تھے۔ بہت سے لوگوں کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ آف دی دیکارڈ گفتگو کے بعد جو کچھ بچ جاتا ہے وہی آپ کو بتایا جا سکتا ہے‘ اسے آپ اہم سمجھیں یا بیکار۔
اب وہی ہوا ہے۔ عمران خان نے امریکہ اور چین کے حوالے سے جو آف دی ریکارڈ گفتگو کی تھی‘ وہ وہاں موجود صحافیوں میں سے بہت کم نے اپنے ٹی وی پروگرامز میں کیں‘ لیکن اب وہی باتیں عالمی اخبارات میں ہیڈ لائنز بن گئی ہیں۔ کچھ تھوڑا سا آگے پیچھے کرکے چلایا گیا ہے۔ مجھ سے بھی ایک دو دوستوں نے رابطہ کیا جو بیرون ملک میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں کہ تم وہاں موجود تھے کچھ بتائو۔ وہ امریکہ اور چین کے حوالے سے پوچھنا چاہ رہے تھے کہ وزیر اعظم نے ان پر کیا بات کی۔ ان عالمی اداروں کے رپورٹرز نے‘ جو پاکستانی ہوتے ہیں‘ انہیں عالمی دلچسپی کی خبریں بھیجنا ہوتی ہیں۔ انہیں پاکستان کے اندورنی معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ دوست ناراض ہیں کیونکہ میں نے ان کے میسیجز پڑھ کر جواب نہیں دیا کیونکہ میرے خیال میں جب کسی نے آپ کو کہہ دیا کہ وہ آف دی ریکارڈ ہے‘ تو پھر وہ ہے۔
اب اس میں کس کا قصور ہے؟ میرا خیال ہے عمران خان کو شہباز شریف کا قول یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بات جو بیس صحافیوں کی موجودگی میں کہی جائے گی‘ چاہے وہ آف دی ریکارڈ ہی کیوں نہ ہو‘ وہ ایک نہ ایک دن باہر نکل جائے گی۔ اس لیے کسی بھی وزیر اعظم یا سیاستدان کو ایسی محفلوں میں امریکہ، چین یا بھارت کے بارے میں کوئی بھی حساس بات کرتے ہوئے خود احتیاط کرنی چاہئے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ عمران خان کا مقصد صحافیوں کو یہ باور کرانا تھا کہ چین کے ساتھ معاملات بہت بہتر ہیں اور چینی بہت وہ ساری باتیں ماننے کو تیار بھی ہیں‘ جن سے پاکستان کا فائدہ ہو۔ ہاں اگر خود حکومت چاہتی ہے کہ وہ خبریں باہر جائیں اور وہ اس دبائو کو استعمال کرکے چین یا کسی اور ملک سے پاکستان کے مفادات کا تحفظ بہتر کر سکیں تو پھر کوئی ہرج نہیں۔ دنیا بھر میں وزیراعظم، صدر یا وزیرخارجہ کے دفاتر جان بوجھ کر ایسی خبریں یا سکوپ لیک کرتے رہتے ہیں جنہیں صحافی اہم سرکاری ذرائع کے حوالے سے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لیکس کا مقصد مخالفوں کو دبائو میں لا کر اپنی مرضی کی ڈیل کرنا ہوتا ہے اور اگر دو ملکوں کے درمیان یہ مسئلہ ہو تو پھر ایسے لیکس بہت کام آتے ہیں کہ مخالف ملک سے بہتر ڈیل اور مذاکرات کئے جا سکتے ہیں۔
عمران خان کو مستقبل میں سوچنا ہوگا کہ کون سی باتیں ہیں جو وہ پندرہ بیس صحافیوں کے گروہ کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں اور کون سی نہیں‘ اگرچہ ان کے کچھ جوابات سے ان کی چند ہفتوں میں کارکردگی سامنے آرہی تھی اور عمران خان کا خیال تھا کہ وہ آف دی ریکارڈ باتیں کرکے دبائو سے نکل سکتے ہیں۔ ویسے چین کے ساتھ سی پیک تنازع پر مجھے اس لیے حیرانی نہیں ہورہی کہ ماضی میں کچھ ایسی باتیں ہوچکی ہیں جن کا میں رپورٹر کے طور پر گواہ ہوں۔
دو ہزار چھ‘ سات کے قریب ریلوے کی وزارت میں کچھ تبدیلیاں ہوچکی تھیں۔ جنرل مشرف دور کی ریلوے کی ٹیم کو ہٹا کر ان کی جگہ کوئی اور صاحب وزیرِ ریلوے لگ چکے تھے۔ ریلوے نے سوچا‘ چین سے دوبارہ ریلوے انجن اور بوگیاں منگوائی جائیں۔ دوسو بوگیاں اور پچھتر ریلوے انجن منگوانے تھے؛ تاہم اس وقت ریلوے حکام کے نئے باس حیران رہ گئے جب پتہ چلا کہ چین نے 37 ملین ڈالر کا بل بنایا ہے۔ چین کی اس پارٹی کو بلایا گیا اور پانچ چھ سال پرانی ایک ڈیل کی تفصیلات شیئر کی گئیں۔ انہیں بتایا گیا کہ اس وقت بھی اتنی ہی تعداد میں ریلوے انجن اور بوگیاں منگوائی گئی تھیں‘ لیکن کل قیمت پچپن ملین ڈالر تھی۔ آج جب پانچ چھ برس گزر چکے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں ہر سال مہنگائی اگر دس فیصد کے حساب سے بھی بڑھتی ہو تو پھر بھیا‘ آپ لوگ زیادہ ریٹ کی بجائے الٹا تقریباً اٹھارہ ملین ڈالرز کم بتا رہے ہیں؟ ہم تو توقع کیے بیٹھے تھے آپ لوگ زیادہ نہیں تو ستر اسی ملین ڈالرز کا بل بنائیں گے۔
چین کے وہ افسران مسکرائے اور کہا: جناب ہم نے اس وقت بھی یہی قیمت بتائی تھی۔ باقی رقم اس وقت کے حاکموں نے خود ہی اس میں ڈال دی تھی۔ اب بھی آپ کی مرضی ہے کہ آپ اس میں کتنا گڑ چاہتے ہیں‘ وہ ہم اس ڈیل میں ڈال دیتے ہیں۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے‘ اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم سینتیس ملین ڈالرز کی بجائے یہ پراڈکٹ آپ کو پچپن یا ستر ملین ڈالرز میں فروخت کر دیں گے؟ یہ واقعہ مجھے ایک وفاقی وزیر نے خود سنایا تھا جو اس واقعے کے عینی شاہد ہیں۔
اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ایک سکینڈل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں آیا تھا۔ ایک چینی کمپنی کو دس ارب روپے ٹیکس پر راتوں رات چھوٹ دی گئی تھی‘ جبکہ چین نے کسی پراجیکٹ پر کوئی رعایت نہیں کی تھی‘ الٹا کمرشل ریٹس لگا کر پراجیکٹ پر قرضہ دیا تھا۔ وہ کون سے افسران اور سیاسی حکمران تھے جو ان کمپینوں کو دس ارب روپے کا فائدہ ایک ہی ہلے میں دے رہے تھے اور اس کے بدلے خود اس کمپنی سے کیا فوائد لے رہے تھے؟
ملتان میٹرو کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔ ایک چینی کنٹریکٹر نے چین جا کر تین ارب روپے کا منافع ظاہر کیا۔ پوچھا گیا: قبلہ یہ کہاں سے لائے ہو‘ تو اس نے جواب دیا اسے ملتان میٹرو میں ایک کنٹریکٹر نے سب کنٹریکٹ دیا تھا‘ جس کی لاگت تین ارب پچھتر کروڑ روپے تھی۔ پچھتر کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے اور تین ارب روپے منافع۔ چینی حکام چیختے رہے کہ ہم نے اپنا ایک بندہ پکڑ لیا ہے جو آپ کے ہاں سے تین ارب روپے چوری کرکے لے آیا ہے۔ ہم نے کیا کیا؟ ہم نہ صرف مکر گئے بلکہ الٹا چینیوں کو ڈانٹتے رہے۔ چینیوں نے بھی سوچا ہوگا‘ پاکستانیوں کو اپنے تین ارب روپے پیارے نہیں‘ تو ہمیں کیا پڑی ہے۔
اب جب میں یہی باتیں آج کل دوبارہ پڑھ رہا ہوں کہ سی پیک منصوبوں میں ریٹس زیادہ لگے ہوئے ہیں تو ضروری نہیں کہ سارا قصور چین کا ہی ہو، کچھ ڈانگ اپنی منجی تھلے پھیرنے کی ضرورت بھی ہے۔ تسلی رکھیں منصوبوں کی لاگت بڑھانے کے پیچھے بھی ہمارے اپنے پیارے زکوٹا جن اور ان کے سیاسی گروگھنٹال ہی نکلیں گے‘ جیسے جنرل مشرف دور میں نکل آئے تھے!