قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں‘ اسد عمر کے پیش کیے گئے منی بجٹ پر کی گئی تقریر سنتے ہوئے مجھے کل رات کی محفل یاد آگئی۔ اکثر رات کو شو کے بعد ارشد شریف‘ ضمیر حیدر ‘ خاور گھمن‘ راجہ عدیل‘ علی‘ اور کچھ دوسرے دوست اکٹھے ہوتے ہیں ۔ پہلے شاہد صاحب کے گھر محفل جمتی تھی۔ وہ کچھ دن کے لیے لندن گئے تو عادت سے مجبور ہم سب نے جناح سپر میں ایک چائنیز ریسٹورنٹ کے باہر اپنا ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ ہوٹل سے کھانا کھاتے ہیں تو وہ ہمیں گرین ٹی پیش کرتے ہیں ۔ کھانے کا بل لیتے ہیں لیکن اس میں گرین ٹی شامل نہیں ہوتی۔رات گئے تک گپیں لگتی ہیں۔ ہوٹل بند بھی ہوجائے تو ہمیں ان کے لان میں رات گئے بیٹھنے کی پوری آزادی ہے اور اگر گرین ٹی کی طلب ہوتی رہے تو وہ بھی مل جاتی ہے۔
دوستوں کی اس مختصر محفل میں اب ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل۔ ڈاکٹر گل ایک پکے پنجابی جٹ ہیں ۔ پنجابی جگت ان پر ختم ہے۔ وہ امریکہ میں پڑھاتے ہیں۔ جب وہ پنجابی میں لطیفے سنا رہے ہوں تو کہیں سے نہیں لگتا یہ بندہ امریکہ میں پڑھاتا ہے۔ خیر پروفیسر شہباز‘ عمران خان کے بہت قریب رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے انہیں اکثر دنیا ٹی وی کے اینکر معید پیرزادہ کے شو میں دیکھا ہوگا ۔ آج کل وہ ارشد شریف کے پروگرام میں دیکھے جاتے ہیں۔ وہ بہت ذہین اور سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ سخت بات کو بھی سن کر ہنس کر ٹال دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو آپ کو پہلی ملاقات میں ہی متاثر کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر گل دو ہفتے پہلے ہی پاکستان میں کئی روز گزار کر امریکہ لوٹ گیا تھا ۔ ہماری طرح اسے بھی وہاں قرار نہیں تھا‘ لہٰذا وہ کل واپس لوٹ آیا ہے۔ میں نے کہا: ڈاکٹر کن چکروں میں پڑ گیا ہے‘ چھوڑ امریکہ ادھر ہمارے پاس رہ ‘ کسی اچھے ٹی وی چینل پر پروگرام پکڑ لے۔ کہاں حکومتوں کے دفاع کے چکر میں پڑ گئے ہو۔ گند وہ پھیلائیں گے‘ بھنڈ وہ ماریں گے‘ لیکن ان کا دفاع کرے گا ٹی وی چینلز پر امریکن یونیورسٹی کا پروفیسر شہباز گل۔ میں نے جگت ماری ڈاکٹر کچھ ہمارا نہیں تو اپنی ڈاکٹریٹ اور امریکن یونیورسٹی کا ہی بھرم رکھ لے۔ ایک آزاد تجزیہ نگار کے طور پر تم زیادہ پسند کیے جائو گے۔ خدا نے تمہیں عقل دی ہے‘ حکمرانوں کو ذہین نہیں خوشامدی پسند ہوتے ہیں۔ ارشد شریف نے کہا: کیوں ایک شریف بندے کو خراب کررہے ہو۔ میں نے کہا: خراب نہیں کررہا‘اپنی کمپنی کا ایک بندہ ضائع ہونے سے بچا رہاہوں ۔ بڑے عرصے بعد ایک جٹ ہاتھ لگا ہے جس سے ہر قسم کا مذاق کر لیتے ہیں اور وہ مائنڈ نہیں کرتا ۔ یہ بھی کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ گیا تو اس نے کہاں ہمارے ہاتھ آنا ہے۔
خیر بات مذاق میں ٹل گئی۔
اس رات شہباز گل ارشد شریف کے پروگرام میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کا دفاع کرکے آیا تھا ۔ مجھے پانچ منٹ کا وہ ویڈیو کلپ بھی دکھایا جس میں وہ ارشد شریف کے شو میں اسد عمر اور شیخ رشید کا دفاع کررہے تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا :گل جی ایک بات تو بتائیں‘ کیسا لگتا ہے بندہ امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر ہو‘ ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہو‘ وہاں اچھی خاصی عزت ہو ‘ ہمارے جیسے لوگ بھی اس کی باتیں بڑے غور سے سن کر سراہتے ہوں اور وہ ٹی وی پر بیٹھ کر دفاع کرے کس کا شیخ رشید کا‘ جو اسے جانتا تک نہیں اور نہ ہی اسے پرواہ ہے ؟ یا پھر گیس کی قیمتوں میں اضافے کا ۔ میں نے کہا: تعلیم یافتہ اور وہ بھی وہ جو امریکن یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوں‘ انہیں تو حکومتوں اور سٹیٹس کو کا مخالف ہونا چاہیے تاکہ وہ ان پر کڑی نظر رکھ سکیں اور انسان کا جو استحصال حکومتیں کرتی ہیں ان کے خلاف دیوار بن سکیں۔ عام آدمی کو اتنی آسانی سے پتہ نہیں چلتا اس کو کیسے حکومتیں لوٹتی ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ اس سے ہی زندہ باد کے نعرے بھی لگواتی ہیں۔ ڈاکٹر گل نے ایک قہقہہ مارا اور مذاق کا جواب دیتے ہوئے کہا :بات تو درست کی ہے۔
میں نے کہا : ارشد شریف کل جو گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اس سے کتنے ارب رو پے اکٹھے ہوں گے؟ ارشد شریف بولا تقریباً چورانوے ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہوگا ۔ راجہ عدیل مجھے سمجھانے لگا‘ گھریلو صارفین پر دس فیصد بڑھے گی۔ وہ مجھے مختلف ریٹس بتاتا رہا۔ آخر میں کہا: جو سترہ ہزار روپے بل دے رہا ہے وہ اب چھتیس ہزار دے گا ۔ مطلب یہ تھا امیر لوگوں کی گیس بڑھی ہے ۔ میں نے کہا: راجہ تو ایک بات بھول رہا ہے‘ اس گیس پر سیلز ٹیکس کی ریکوری بھی تو بڑھے گی ۔ وہ بولا :وہ کیسے۔ میں نے جب دیا کہ سترہ ہزار بل تھا تو اس وقت سیلز ٹیکس سترہ ہزار پر لگتا تھا ۔ اب وہ لگے گا چھتیس ہزار روپے پر۔ یہ تو سیلز ٹیکس ڈبل ہوگیا ۔ یوں حکومت نے بڑے آرام سے سیلز ٹیکس کا نام کہیں نہیں آنے دیا لیکن سیلز ٹیکس کی ریکوری بھی بڑھا دی۔ یوں ایک طرف گیس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں تو دوسری طرف سیلز ٹیکس بھی بڑھ گیا۔ دوسرا میں نے کہا: مجھے یہ سمجھائیں یہ چورانوے ارب روپے کہاں سے آئیں گے جو گیس سے اکٹھے ہوں گے؟ ابھی ہم منی بجٹ میں سات سو ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کی بات نہیں کرتے۔ ارشد اور راجہ نے مجھے ایسے دیکھاجیسے میرا دماغ خراب ہوگیا ہو۔ وہ بولے: بھائی لوگوں سے ہی لیں گے۔ میں نے کہا: تو لوگ کہاں سے چورانوے ارب روپے لائیں گے جو وہ حکومت کو ادا کریں گے؟ ان سب نے میری طرف دیکھا کہ کیا بونگیاں مار رہا ہوں۔ میں نے کہا :مجھے ذرا وضاحت کرنے دیں۔ اب ہم سات لوگ یہاں بیٹھے ہیں‘ہم سب لوگ کہیں نہ کہیں مزدوری کرتے ہیں‘ نوکری کرتے ہیں‘ اس ہوٹل کا سٹاف بھی کرتا ہے اور وہ جو جھاڑو لگاتا ہے وہ بھی۔ ہر ماہ ہم سب کو ایک فکس تنخواہ ملتی ہے۔ اب حکومت ہم سب کی تنخواہوں میں سے چورانوے ارب روپے اضافی لے گی ۔ ہماری تنخواہ تو فکس ہے‘ اس میں تو کوئی اضافہ نہیں ہورہا ۔ حکومت کو تو چورانوے ارب مل جائے گا‘ لیکن ہم کہاں سے چورانوے ارب لائیں گے تاکہ حکومت کی طرح اپنا خسارہ پورا کریں؟ کیا ہم مارکیٹ میں پارٹ ٹائم جاب تلاش کر کے ہر ماہ ہونے والا خسارہ پورا کرسکتے ہیں؟ یا ہمارے مالکان ہماری تنخواہیں بڑھا دیں گے‘ تاکہ بل میں اضافہ ادا کرسکیں اور ہماری آمدن پر اثر نہ ہو؟ سیمنٹ‘ کھاد اور دیگر کی بھی گیس مہنگی ہوگئی ہے۔ وہ لوگ بھی یہ نیا اضافہ عوام سے ہی وصول کریں گے۔ ان کا بل بڑھے گا تو سیلز ٹیکس بھی بڑھے گا ۔ یوں گھر میں بھی گیس مہنگی اور باہر سیمنٹ‘ کھاد اور دیگر اشیا بھی مہنگی۔ تندوروںکی بھی گیس مہنگی‘ جس سے روٹی کی قیمت بھی بڑھ جائے گی جو ہر انسان کھاتا ہے۔یوں اب ہوگا یہ کہ لوگوں کے پاس جو پہلے سے موجود آمدن یا لگی بندھی تنخواہ ہے اس میں کاٹ کر حکومت کو چورانوے ارب روپے دینا ہیں‘ یوں ان کی جیب سے بیٹھے بٹھائے پیسے نکل گئے۔ وہ اب اپنے پیسوں کی کمی کیسے پوری کریں گے ؟ پہلے ہی وہ پینے کے پانی تک پر ٹیکس دے رہے ہیں۔ موٹر وے پر پانچ سال پہلے ایک سو اسی روپے ٹیکس تھا اب وہ چھ سو ساٹھ روپے ہوچکا ہے۔ چار برسوں میں فون کارڈز پر وہ دو سو ارب روپے ٹیکس دے چکا ہے۔ پٹرولیم ٹیکس تو ہر سال اربوں سے اوپر اکٹھا ہوتا ہے۔ اب نیا ٹیکس کہاں سے پورا کریں؟
دوسری طرف کارپوریٹ سیکٹر اور بڑے فراڈیے بھی حکومت کی طرح لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی رپورٹس پڑھ لیں کیسے بڑے بڑے کاروباریوں نے مافیا کی طرح لوگوں کو لوٹا ہے اور اربوں روپے ان کی جیبوں سے نکال لیے ہیں ۔ ان سے حکومت نہیں پوچھ رہی اور نہ ہی ہاتھ ڈال رہی ہے۔ تین سو ارب قرضے معاف ہوئے وہ اور کہانی ہے۔
سب نے میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا: حیران نہ ہوں ‘اس کا جواب بڑا سادہ ہے۔ وہ سب جن کی جیبوں سے بیٹھے بٹھائے چورانوے ارب روپے نکلنے والے ہیں وہ ایک دوسرے کی جیبیں کاٹیں گے۔ پی پی پی اور نواز لیگ حکومتیں بھی یہی کچھ کرتی آئی ہیں۔ حکومت کی طرح ہر بندہ اپنا اپنا خسارہ پورے کرے گا ۔ اب وہ کیسے کرے گا ؟ یہ حکومتوں کا درد سر نہیں ۔ عام لوگ ایک دوسرے کو ہی نوچتے رہیں گے۔ دفتروں میں رشوت کا ریٹ بڑھائیں‘ چوری چکاری کریں‘ دو نمبری زیادہ کردیں‘ گن پوائنٹ پر موبائل چھین لیں‘ دکاندار گاہکوں کو لوٹیں‘ پھل فروٹ سبزی مہنگی کر کے بیچیں‘ والدین بچوں کو برگر نہ کھلائیں‘ کھلونے نہ لے کر دیں‘ سنیما فلم نہ دیکھیں‘ بینک میں سیونگ نہ رکھیں‘ کیبل کا کنکشن کٹوا دیں‘ بچے سکول سے اٹھا لیں تاکہ فیس کی بچت ہو ‘ اشیا میں ملاوٹ کی مقدار بڑھا ئیں یا دودھ میں مزید پانی ملائیں۔ 94ارب تو روپے دینا ہے بھائی ۔ جہاں سے بھی لائو !