طاہر انور کا مختصر سا ٹیکسٹ میسج مجھے اپنے ماضی کے ان اٹھارہ برسوں میں لے گیا‘ جن سے دور رہنے کی ہر وقت ناکام کوشش کرتا رہتا ہوں۔ڈاکٹر ظفر الطاف کے بڑے بھائی جاوید الطاف لاہور میں وفات پا گئے تھے۔ جاوید الطاف سے میرا تعارف 1998ء میں ہوا‘ جب ڈاکٹر ظفرالطاف فیڈرل سیکرٹری زراعت تھے اور ان کا دفتر اسلام آباد کے صحافیوں سے بھرا رہتا تھا۔ وہ فاروق لغاری کے سول سروس میں بیچ میٹ تھے۔ اسلام آباد کی بیوروکریسی میں ڈاکٹر صاحب کا واحد دفتر تھا‘ جہاں کسی کو پی اے کو چٹ دینے کی ضرورت نہ تھی۔ ہر خاص و عام دروازہ کھول کر اندر جاسکتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب جتنی بھی اہم میٹنگ میں مصروف ہوتے، ہاتھ سے اشارہ کرتے‘ پیچھے صوفوں پر بیٹھ جائو۔ کئی دفعہ ہوا ہم صحافی اہم میٹنگ کے درمیان سب گفتگو سن رہے ہوتے۔ کئی افسروں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ سرجی یہ کیا کررہے ہیں‘ خبریں‘ باتیں لیک ہوجائیں گی‘ مسئلہ ہوجائے گا ۔ وہ مسکرا کر کہتے :چھوڑو یار ہم کوئی یہاں کہوٹہ پلانٹ چلا رہے ہیں کہ قومی راز نکل جائیں گے‘ زراعت کی وزارت چلاتے ہیں۔ اچھا ہے یہ صحافی لوگ سب کچھ سنیں اور انہیں پتہ چلے اور یہ رپورٹس کریں۔ کون زراعت کے بارے لکھنا ، پڑھنا، جاننا یا رپورٹ کرنا چاہتا ہے۔ ان سب کی مہربانی یہ سب بڑی بڑی بیٹس چھوڑ کر زراعت کی خبر لینے آتے ہیں۔ انہیں چائے‘کافی پلائو اور بسکٹ کھلائو۔
ایک دن میں ان کے دفتر بیٹھا تھا کہ ایک صاحب اندر داخل ہوئے‘ ڈاکٹر صاحب احترام میں کھڑے ہوئے‘میں بھی کھڑا ہوگیا۔ مجھے لگا دفتر میں دو ڈاکٹر ظفرالطاف ہیں‘ کبھی ڈاکٹر صاحب کو دیکھوں اور کبھی دوسرے صاحب کو ۔ لگتا تھا خدا نے ڈاکٹر صاحب کی کاپی بنا دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے چہرے پر پھیلی حیرانی دیکھی تو ہنس کر کہا: یہ Jہیں‘ میرے بڑے بھائی۔ وہ جاوید الطاف کو جے کہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کرسی چھوڑی اور ہمارے ساتھ آکر صوفے پر بیٹھ گئے۔اتنی دیر میں ایک صاحب ایک فائل لائے اور ڈاکٹر صاحب کو ایک جگہ پر دستخط کرنے کا کہا۔ عموماً ڈاکٹر صاحب اپنے سٹاف اور افسران پر بے پناہ اعتبار کرتے تھے اور آنکھیں بند کر کے فائل پر دستخط کر دیتے تھے۔ ان کے اس اعتماد کو کئی افسران اور دوستوں نے غلط استعمال کیا ‘ لیکن وہ آخری دم تک لوگوں پر بھروسہ کرتے رہے اور دوست انہیں چکمہ دیتے رہے۔ نہ وہ اعتماد کرنے سے باز آئے نہ ہی ان کے کچھ افسران اور دوستوں نے دھوکے دینے میں رعایت کی۔ پتہ نہیں اس دن کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے فائل پڑھنا شروع کر دی۔ اچانک ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر ناراضگی کے تاثرات ابھرے۔ اس افسر کی طرف دیکھا اور بولے: یہ کرنے کو کس نے کہا تھا ؟ وہ افسر جو توقع کررہا تھا کہ وہ نوٹی فکیشن دیکھ کر ڈاکٹر صاحب خوشی سے اچھل پڑیں گے‘ کچھ افسردہ ہوا اوربولا :سر یہ اُس افسر کی فائل ہے جس نے فاروق لغاری کی نگران حکومت میں آپ کے خلاف ریفرنس بنوایا تھا اور آپ نے بہت مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ اب اس کی ہم نے ایک چوری پکڑ کر انکوائری کرائی ہے۔ اب اس فائل پر دستخط کردیں تو ہم اس کی برطرفی کا نوٹی فکیشن جاری کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فائل ایک طرف رکھی اور بولے: آپ جانتے ہیں یہ بندہ کون ہے؟ میں جانتا ہوں ‘کیونکہ جب اس نے ایک نگران وزیر تجارت کو خوش کرنے کے لیے میرے اوپر مقدمات بنوائے تھے تو میںنے سب پتہ کرایا تھا۔ اس کا ایک بیٹا کالج، بیٹی ہائی سکول اور چھوٹا بچہ پرائمری میں پڑھتا ہے۔ اسے سرکاری مکان بھی ملا ہوا ہے۔ اگر ہم آج اسے برطرف کردیں تو یہ پورا گھرانہ سڑک پر آجائے گا ۔ مجھے سمجھائو اس کے بچوں کو ایک ایسے جرم کی سزا ملنی چاہیے جو انہوں نے نہیں کیا؟ وہ بھی اس لیے کہ ان کے باپ نے میرے خلاف کیس بنوایا اور گواہی دی تھی۔ کیا مجھے اسے برطرف کرنا چاہیے تاکہ میرے جذبۂ انتقام کو سکون ملے؟ کیا ہمیں ان تین بچوں کا مستقبل تباہ کرنا چاہیے؟ اس افسر نے پھر بھی قائل کرنے کی کوشش کی ۔اس پر جاوید الطاف جو خاصی دیر سے یہ سب گفتگو سن رہے تھے پہلی بار صرف اتنا بولے: ظفر ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے وہ فائل اس افسر کو لوٹا دی۔ پتہ نہیں پھر انہیں کیا خیال آیا بولے: مجھے پتہ ہے تم لوگ باز نہیں آئو گے۔و ہ فائل اس کے ہاتھ سے لے کر اپنے پاس رکھ لی۔
یہ تھا 'جے ‘سے میرا پہلا تعارف اور اس خاندان سے بھی‘ جن کے نزدیک اپنی انا اورانتقام اتنا اہم نہ تھا ‘جتنا مخالف یا دشمن کے بچوں کے مستقبل کا خیال ۔ مجھے پتہ نہیں چلا کب میں اور جاوید الطاف ایک دوسرے کے گرویدہ ہوئے۔ ڈاکٹرصاحب نے ایک دن مجھے فون کیا اور کہا: یار جے آرہا ہے اور اس نے کہا ہے کہ رئوف کو بھی بلائو‘ جلدی آجانا۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب حسب معمول نواز شریف کے ہاتھوں سزا پا کر اوایس ڈی بن چکے تھے۔ جنرل مشرف کے ساتھ بھی تین چار ماہ چل سکے‘ لہٰذا اب ان کے پاس بہت وقت تھا۔ دوپہر سے گپ شپ شروع ہوتی‘ اکٹھے کھانا کھاتے اور پھر شام کو ان کے اپنے پرائیویٹ دفتر سے واپسی ‘جہاں وہ دنیا بھر کے ملکوں کو زرعی پالیسی بنا کر دیتے۔ رات کو پھر میرے دفتر کے باہر فون کرتے ‘باہر نکلو۔ پھر رات کو کہیں چائے، کافی ، سنیکس۔
میں نے زندگی میں بہن ‘بھائیوں کا بہت پیار دیکھا اور سنا تھا‘ لیکن جاوید الطاف اور ظفرالطاف کا نرالہ دیکھا ۔ ان اٹھارہ برسوں میں مجھے ایک دفعہ بھی یاد نہیں پڑتا کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی اپنے بڑے بھائی کے سامنے ایک لفظ اونچی آواز میں کہا ہو یا اگر جے نے کچھ کہہ دیا تو بحث کی ہو۔ جس دن جاوید الطاف نے آنا ہوتا تو خوشی سے نہال ہوتے۔ جاوید الطاف دھیمے لہجے کے مالک اور نفیس انسان تھے ۔ اگر میرے جیسے کسی کی بات اچھی نہ لگتی تو مسکرا کر چپ کرجاتے‘ لیکن ان کی یہ فرمائش ضرور ہوتی کہ ظفر ذرا رئوف کو بلالینا میں اسلام آباد آرہا ہوں۔ ان محفلوں میں اکثر نواب یوسف تالپور بھی شریک ہوتے اور دیر تک گپ لگتی۔ جب جنرل مشرف دور میں شاہین صہبائی کا جینا حرام کیا گیا اور ان کے برادر اِن لا اور ایک بھتیجے کو کراچی سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں بند کر دیا گیا تھا‘ تو میں اور ڈاکٹر ظفر الطاف کوششیں کررہے تھے کہ ان مظلوموں کی ضمانت کرائی جائے۔ اللہ بھلا کرے سینیٹر ظفر علی شاہ کا جو ان مظلوموں کی وکالت کر کے مدد کر رہے تھے۔ ایک دن میں اور ڈاکٹر صاحب عدالت جانے لگے تو جاوید الطاف بھی بیٹھے ہوئے تھے‘ کہنے لگے: میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب بولے: ظفر علی شاہ ہیں۔ بولے: کوئی بات نہیں میں وہاں موجود رہوں گا‘ اگر ضرورت پڑی تو میں بھی دلائل دوں گا۔ وہ عدالت میں پورے دو گھنٹے ایک کونے میں کھڑے رہے۔ اپنے تئیں وہ اپنا حصہ ڈال رہے تھے کہ جن کے ساتھ ظلم ہورہا تھا‘ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ اکیلے ہیں۔
جاوید الطاف کو بھی ڈاکٹر صاحب کے مزاج کا علم تھا کہ جو بھی ان کے پاس چلا جاتا‘ وہ ساتھ چل پڑتے کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ جے الطاف دھیمے لہجے میں مختصر اشاروں کنایوں میں بات کرجاتے اور ہنس کر کہتے: ظفر فلاں بندہ تمہیں استعمال کررہا ہے‘ بس دیکھ لینا ۔ ڈاکٹر صاحب خاموش رہتے‘ لیکن اگلے دن وہ عادت سے مجبور‘ پھر چل پڑتے۔ڈاکٹر ظفر الطاف‘ بھائی جاوید الطاف کے بچوں پر اپنی جان چھڑکتے تھے۔ وہ رافع الطاف سے بہت خوش تھے اور کہتے یار اب رافع نے جے الطاف کا وکالت کا کام سنبھال لیا ہے اور بہت محنت کررہا ہے۔ ان کے دوسرے بچوں کے بھی دیوانے تھے۔
لاہور میں اتوار کے روز جاوید الطاف کی رسم قل پر میں ان کے گھر کے ایک کونے میںبیٹھا اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں تین سال پہلے میں ڈاکٹر ظفر الطاف کی وفات پر جے کی وہیل چیئر کے ساتھ بیٹھا ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بیٹھا تھا تاکہ انہیں تسلی دے سکوں۔اس دن ان کے چہرے سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کتنے بڑے صدمے سے گزر رہے ہیں۔ مجھے بھی اس دن لگا کہ ظفر الطاف ان کے چھوٹے بھائی نہیں بلکہ بیٹے کی طرح تھے اور ان کی موت کے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ پچھلے پانچ سال کچھ ایسے گزرے ہیں‘ یقین نہیں آتا ۔ سب کچھ بدل گیا ہے۔ پہلے نعیم بھائی گئے، پھر ڈاکٹر ظفر الطاف اور اب جاوید الطاف ۔ یہ چند برس پوری زندگی پر بھاری گزرے ہیں ۔ محسوس ہوتا ہے ایک صدی بیت گئی ‘ایک مکمل جہاں کہیں کھوگیا ہے ۔ جاوید الطاف جیسا ایک اور اچھا انسان رخصت ہوا ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ گزارے اٹھارہ برسوں کی طویل یادوں کی ایک طویل داستان کا آخری باب بھی تمام ہوا !