اتنی دیر میں بزدار صاحب پر صحافیوں کی تنقید کی بات چل نکلی تو کسی نے کالم نگار ہارون الرشید کا نام لیا ۔شہباز گل کہنے لگے :انہیں بلایا گیا تھا‘ وہ خود نہیں آئے۔ کسی نے کہا: وہ تو کالموں میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے بائیس برس خان کا ساتھ دیا ‘ اب وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ اس پر میں بول پڑا اور کہا: اس بات میں کیا شک ہے؟ اگر ان بائیس برس میں کسی نے عمران خان کا اکیلے ساتھ دیا تو وہ ہارون الرشید تھے۔ ہارون صاحب نے عمران خان کے لیے دشمنیاں پالیں‘ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے گالیاں کھائیں ‘لیکن ڈٹ کر کھڑے رہے۔ ہمارے جیسے جب ہارون الرشید کو طنزیہ انداز میں کہتے تھے: استادِ محترم کس کے پیچھے کھڑے ہوگئے ہیں ؟عمران خان نے وزیراعظم نہیں بننا‘ تو وہ ہنس کر کہتے تھے: جس دن وزیراعظم عمران خان حلف اٹھارہا ہوگا‘ تمہیں میں وہاں خود لے کر جائوں گا۔ وہ کسی اور کو کیا ساتھ لے کر جاتے‘ انہیں تو خود عمران خان نے حلف برداری کی تقریب میں نہیں بلایا ۔ میں نے کہا :وزیراعظم عمران خان کو ظرف دکھانا چاہیے تھا ؛ اگر ناراضی بھی تھی‘ تو ایسے موقعوں پر دوست کے طور پر نہیں‘ تو صحافی کے طور پر ہی بلا لیتے۔ ہارون الرشید کا بڑا نام ہے۔ عمران خان کو پاکستان میں سیاستدان کے طور پر متعارف کرانے میں جن چند کالم نگاروں کا ہاتھ ہے‘ ان میں ہارون الرشید کا نام ٹاپ پر ہے۔ عمران خان کی صحافیوں سے کئی ملاقاتیں ہوئیں تو بھی ہارون الرشید موجود نہیں تھے‘ بلکہ یہ تاثر دیا گیا شاید جان بوجھ کر نام فہرست سے کاٹا گیا ۔ پتا چلا ہارون الرشید کی تنقید سے عمران خان اور ان کے حواری ناراض ہیں۔ وہ یہ کیوںبھول گئے کہ وہ پہلے صحافی ہیں‘ پھر کچھ اور ۔ جنرل مشرف‘ شوکت عزیز‘ گیلانی‘ شریف اور زرداری تک سب کا یہی رویہ تھا تو اس سے ہارون الرشید یا دیگر پر کیا فرق پڑا ۔ اب بھی اس سے ہارون الرشید پر کیا فرق پڑے گا۔ وزیراعظم آتے جاتے رہتے ہیں۔ اقتدار کس کے پاس مستقل رہا ہے؟ وہ کالم لکھتے ہیں اور انشاء اللہ لکھتے رہیں گے۔ میں نے کہا: بزدار صاحب آپ ہارون الرشید کو لاہور بلائیں۔شہباز گل نے کہا :وہ یقینا انہیں دوبارہ دعوت دیں گے۔
بات پھر سرائیکی علاقوں کی طرف مڑ گئی کہ وہاں بنیادی انفراسٹرکچر تک موجود نہیں ہے۔بزدار صاحب بتانے لگے :ان کے اپنے علاقے میں ایک غریب کا فون آیا ‘جس کو کینسر ہے‘ لیکن علاج تک کے پیسے نہیں۔ کہنے لگے :اسے تونسہ ہسپتال داخل کرادیا تھا ۔ میں نے کہا:بندہ پرور تونسہ میں کون سا انکولوجسٹ بیٹھا ہے ‘جو کیمو یا علاج کرے گا ۔ اس وقت نشتر ہسپتال ملتان کے ایک چھوٹے سے وارڈ میں بلوچستان سے لے کر سندھ‘ میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان سے کینسر کے مریض آتے ہیں۔ اس وقت ملتان میں ایک بڑے کینسر ہسپتال کی ضرورت ہے۔ بزدار بولے ہمارے ہاں کینسر کا مسئلہ زیادہ ہے۔ بولے کہ وہ تونسہ میں میڈیکل کالج‘ انجینئرنگ اور دیگر یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ میں نے کہا: اچھی بات ہے‘ کبھی میں بھی خوش ہوتا تھا ‘ہمارے علاقوں میں یہ سب سہولتیں ہوں‘ لیکن آپ تونسہ میڈیکل کالج میں پڑھانے کے لیے اچھے اور قابل پروفیسر ڈاکٹرز کہاں سے لائیں گے؟ کوئی بھی لاہور‘ ملتان‘ بہاولپور‘ کراچی کے میڈیکل کالجز چھوڑ کر نہیں آئے گا اور یوں اعلیٰ معیاری میڈیکل تعلیم نہیں ملے گی۔ اس لیے بہت سارے ایسے منصوبے ماضی میں ناکام ہوئے‘ کیونکہ معیاری تعلیم نہ مل سکی۔ اس کا حل سوچیں‘ جہاں اچھے استاد‘ پروفیسرز ملیں ۔ ڈیرہ غازی خان میڈیکل کالج کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہوا ۔ سرائیکی علاقوں میں سڑکیں نہ ہونے پر بات ہونے لگی تو وزیراعلیٰ بولے :اب پنجاب کے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ بزدار کہنے لگے کہ وہ Built, Operate and Transfer کی بنیاد پر سڑکیں بنوانے کا سوچ رہے ہیں۔ کوئی پرائیویٹ پارٹی خود ان علاقوں میں سڑک بنائے‘ اور وہی وہاں سے ٹیکس لگا کر اپنی ریکوری کر لے۔ میں نے ہنس کر کہا: جب سرائیکی علاقوں کی ترقی کی بات ہونے لگی ہے تو لاہور کی بیوروکریسی کہتی ہے ہمارے پاس تو پیسہ نہیں ہے۔ کسی کنٹریکٹر سے پیسے پکڑ کر بنوا لو اور وہ ٹھیکیدار اگلے پچاس سال تک اس کی ریکوری کرتا رہے گا ‘ جبکہ اسی بیوروکریسی نے شہباز شریف کے حکم پر چین سے پونے دو ارب ڈالرز کا قرضہ لے کر صرف چھبیس کلومیٹر ٹرین بنا دی‘ لیکن جنوب کے لیے کہتے ہیں‘ پیسے نہیں ہیں۔
اس دوران میرا سوال تھا :پنجاب میں ایک نیا کھیل شروع ہوگیا ہے‘روز افسران تعینات ہوتے ہیں اور چوبیس گھنٹوں بعد جب وہ مبارکبادیں وصول کرچکے ہوتے ہیں تو لاہور سے حکم جاری ہوتا ہے ‘جناب واپس آجائیں ‘آپ کی جگہ کوئی اور لگ گیا ہے۔میںنے آر پی او سہیل تاجک کی مثال دی کہ ایک اچھا افسر بہاولپور میں لگا تھا‘ اسے راتوں رات ہٹا دیا گیا۔ کیا آپ کے نوٹس میں یہ ہوتا ہے یا آپ کو بھی ہماری طرح خبروں سے پتا چلتا ہے؟ اس پر ایک اور سوال ان سے کیا گیا پولیس ریفامز کا تو اللہ ہی حافظ ہے‘ کیونکہ آئی جی درانی نے بھی حکومت کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا؛ اگر آپ لوگوں نے بھی شہباز شریف دور کی طرح پنجاب چلانا ہے‘ تو پھر اتنی امیدیں دلانے کی کیا ضرورت تھی؟ بزدار صاحب بولے: انہوں نے پوسٹنگ سے پہلے افسران کے انٹرویوز خود کئے تھے۔ سہیل تاجک کو وہ ذاتی طور پرجانتے ہیں‘وہ ڈیرہ غازی خان کے آر پی او تھے اور ان کی کارگردگی اچھی تھی‘ تاہم بہاولپور سے ہٹانے کی کچھ وجوہات تھیں۔انہیں وہاںمسائل کا سامنا ہوتا‘ اس لیے انہیں ہٹایا ۔ ناصر درانی کے استعفیٰ پر بولے: جو خود چھوڑ کر جانا چاہے‘ اسے کون روکے۔ یہ جواب کچھ حیران کرگیا‘ کیونکہ اسی ناصر درانی کا نام بیچ کر پی ٹی آئی نے پنجاب میں الیکشن جیتا تھا اور اب درانی کی ضرورت نہیں تھی۔ مطلب اقتدار مل گیا ‘اب کوئی رہے یا جائے ہمارا سر درد نہیں ۔ میں نے کہا: بزدار صاحب جیسے آپ پنجاب میں کررہے ہیں کہ دن کو آپ کسی کو آر پی او‘ کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او کو لگاتے ہیں اور رات کو آرڈر بدل دیے جاتے ہیں۔ آپ کو کیسے لگتا؛ اگر عمران خان نے آپ کے ساتھ یہی کیا ہوتا ؟خان نے آپ کوبنی گالا بلایا ‘ ایسی پوسٹ دی‘ جو آپ نے خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ آپ نے باہر نکل کر خاندان‘ دوستوں یاروں اور ساتھی ایم پی اے کو فون کر کے بتایا میں پنجاب کا وزیراعلیٰ رہا ہوں۔ آپ نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ لوگوں کی خدمت کرنی ہے‘عام انسان کی زندگی بدلنی ہے۔ آپ رات دیر تک یہ پلاننگ کرتے سوتے اور صبح آپ ٹی وی کھولتے تو بریکنگ خبر چل رہی ہوتی کہ عمران خان نے آپ کی جگہ کسی اور کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ آپ کو کیسا محسوس ہوتا؟بزدار صاحب چند لمحے گہری سوچ میں ڈوبے رہے۔ آخر میری طرف دیکھا اور بولے: یہ تو پھر عمران خان کی مرضی تھی !
سب ہنس پڑے۔
تو وہی سوال ۔کیا تین ماہ بعد بزدار بدل گیا ہے‘ جس کی پیش گوئی وزیراعظم عمران خان نے کی تھی ؟کل پنجاب حکومت کے سرکاری افسر کا میسج تھا: یار یہ تصویر دیکھو‘ یہ کبھی شہباز شریف کا پرسنل سٹاف افسر تھا‘ جسے اب گورنر سرور نے بزدار صاحب کے ساتھ لگوایا ہوا ہے۔ وہ افسر ایسے ایکٹنگ کرتا ہے‘ جیسے وہی سب کا باس ہو ۔ سب اس سے تنگ ہیں ۔ میں نے کہا :بزدار صاحب اسے ہٹا دیں‘ اگر وہ تنگ ہیں ؟ کہنے لگے: کیا کریں بزدار صاحب مروت کا شکار ہیں ۔میں نے کہا: اگر بزدار صاحب اپنے سٹاف کا افسر بھی گورنر سرور کی ناراضی کے خوف سے نہیں بدل سکتے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں خود کتنے تبدیل ہوسکیں گے‘ جس کا دعویٰ عمران خان نے کر رکھا ہے۔ اس نے کہا تو پھر کیا کریں؟ میں نے کہا: بزدار صاحب کو میل گبسن کی فلم Brave Heart دکھائیں اور اس کا وہ سین‘ جس میں انگلینڈ کا بادشاہ ایڈورڈ اپنے بیٹے میں بادشاہوں والی خوبیاں نہ پا کر اپنے بیٹے کے نالائق مشیر کو محل کی کھڑکی سے نیچے پھینک کر شدید مایوسی کے عالم میں اپنے بیٹے پر چلاتا ہے:One day you will be King, atleast try to act like one ''ایک دن تم نے بادشاہ بننا ہے۔ اور کچھ نہیںتو بادشاہوںوالی اداکاری ہی کرلو‘‘ ۔ (ختم)