امریکہ دو سال سے نہیں آیا تھا۔سچ پوچھیں تو پچھلے دو سال پاکستانی سیاست اور میڈیا میں ایسے گزرے جیسے آپ رولر کوسٹر پر بیٹھے ہوں ۔ کئی دفعہ باہر جانے کا پروگرام بنا لیکن ہر دفعہ ملکی حالات نے روک لیا۔ مجھے یاد ہے ا ڑھائی سال قبل جس دن پانامہ سکینڈل سامنے آیا تھا اسی دن ہم صحافیوں کا ایک گروپ ویانا پہنچا تھا‘ جہاں نیوکلیئر پر ایک ورکشاپ تھی۔ ہم ورکشاپ کو بھول گئے اور پانامہ کو پڑھنے پر لگ گئے ۔ صحافت بھی چوبیس گھنٹے کا کام ہے‘ لیکن ڈاکٹر عاصم صہبا ئی سے امریکہ میں ملنا ضروری تھا۔دو ہزار چودہ میں جب امریکہ آیا تھا تو مشکل وقت میں متعدددوست بنے جن میں ورجینیا کے اکبر چوہدری‘ جارجیا کارلٹن کے اعجاز بھائی ‘ ڈالیور میں سیالکوٹ کے زبیر بھائی تو نیویارک میں مشتاق بھائی کے علاوہ ماہر امراضِ دل ڈاکٹر احتشام قریشی شامل تھے ۔احتشام قریشی ‘جو نشتر میڈیکل کالج ملتان سے پڑھے تھے ‘نے بھی ملتانی مزاج پایا تھا۔ ملتان کے دنوں کو یاد کر کے وہ آہیں بھرتے ۔ اپنے ملتانی دوستوں اور ملتان میں گزارے دنوں کی باتیں کرنے کے لیے انہیں میں مل گیا تھا۔ بہت کچھ سانجھا نکل آیا۔ اکثر وہ فارغ ہو کر مجھے لیتے اور ہم دونوں لوئیس شہر کے کسی کونے میں کیفے پر جا بیٹھے جہاں وہ اپنے ملتانی دوستوں کو یاد کرتے تو میں اپنے ملتانیوں کو۔ پھر کسی دن وہ شہر سے باہر جارہے ہوتے تو کہتے: شاہ جی‘ چلیں آپ کو نیا شہر دکھاتے ہیں۔ میں سستی کا شکار‘ بہانہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا تو وہ کہتے: سوچ لیں وہاں بارن اینڈ نوبلز کتابوں کی دکان بھی ہے ۔ پھر میں جی بھر کر کتابیں خریدتا اور ڈاکٹر احتشام قریشی ان کتابوں کا بل ادا کرتے ۔
امریکہ میں جن چند دوستوں سے ملا ہوں‘انہیں پاکستان کے بارے میں فکر مند پایا۔ اگرچہ عمران خان کے وزیراعظم بننے پر یہاں لوگ خوش ہیں‘ لیکن وزیراعظم کے کچھ متنازعہ اقدامات پر وہ بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔ لیکن آخر تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ کیا کریں اور کیا آپشن ہے ؟ زرداری اور نواز شریف خاندان کی بڑے پیمانے پر کی گئی کرپشن نے ان پاکستانیوں کا دل بہت دکھایا ہے ۔ وہ اب عمران خان کی ٹیم کی نالائقیوں پر بھی بات سننے کو تیار نہیں ہیں ۔ تاہم میں نے کچھ سوالات ان سے ضرور کئے کہ کیا بات ہے اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے وہ مدد دیکھنے کو نہیں ملی جس کی سب توقع کررہے تھے ؟ آٹھ دس ارب ڈالرز تو نوے لاکھ پاکستانی آسانی سے پاکستان بھیج سکتے تھے ۔ اگرچہ شروع میں ڈالرز بھیجے بھی گئے ۔ ان سب سے باتیں کر کے محسوس ہوا اوورسیز پاکستانیوں سے زیادہ قصور نئی حکومت کا ہے ۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ہے ۔ اسد عمر کی وزارت خزانہ کا ہے‘ جن کے پاس ان پاکستانیوں کے لیے پلان نہیں ہے کہ وہ کیسے پیسے بھیجیں۔ چار ماہ ہوگئے ہیں‘ ابھی تک ڈالرز بانڈز جاری کرنے کا کوئی طریقہ کار سامنے نہیں آیا۔ اکثر پاکستانی شکایت کرتے ہیں کہ ڈالرز بھیجنے کا طریقہ کار اور پاکستان میں کیش کرانے کاعمل آسان کیا جائے ۔ انہیں بینک کی بجائے دوسرے طریقوں سے پاکستان پیسہ بھیجنا زیادہ آسان لگتا ہے۔جیسے پاکستانی حکومتوں کو اوور سیز پاکستانیوں کو سہولتیں دے کر ڈالرز لانا مشکل لیکن اربوں ڈالرز کے مہنگے قرضے لینا آسان لگتا ہے ۔
زبیر بھائی کے بیٹے حسن حیات کی شادی میں ان کے چھوٹے بھائی ذوالفقار سے بات ہورہی تھی۔ ذوالفقار نیویارک میں لانگ آئی لینڈ میں رہتے ہیں۔ کامیاب بزنس مین ہیں۔ سیالکوٹ کے لوگوں سے بہتر اور کامیاب بزنس مین میں نے یہاں کم دیکھے ہیں۔ سیالکوٹ کا ہر بندہ آپ کو اچھا بزنس کرتا اور کامیاب ملتا ہے۔ عارف سونی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ یا پھر میری ملاقاتیں شاید سیالکوٹ کے بزنس مینوں سے زیادہ ہوئی ہیں۔ خیر ذوالفقار کہنے لگے: بڑے سے بڑے آدمی کو بھی اعلیٰ زندگی گزارنے کے لیے پانچ سے دس ملین ڈالرز سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ذوالفقار کہنے لگے :ایک انسان کچھ بھی کر لے وہ عمر بھر اس سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتا‘ لہٰذا اس کے بعد وہ جو کچھ بھی کماتا ہے وہ خود پر خرچ نہیں کرسکتا۔
سوال وہی تھاکہ زرداری اور شریف خاندان کو کتنی دولت چا ہیے تھی؟ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کرپشن کا راستہ جہانگیر ترین نے سب کاروباریوں کو دکھایا کہ گھر کے ملازموں کے نام پر بینک اکاؤنٹ کھلوا کر فراڈ کے ذریعے کروڑوں روپے کمائو۔ پھر زرداری کا نام سامنے آیا۔ جعلی اکاؤنٹس پر اربوں روپیہ ٹرانسفر ہوتا رہا۔ اب امریکہ آنے سے پہلے میں نے سکینڈل بریک کیا کہ شریف خاندان بھی جہانگیر ترین ‘ زرداری اور فریال تالپور کی طرح گھر کے ویٹرز‘ باڈی گارڈز اور ملازمین کے نام پر منی لانڈرنگ کررہا تھا۔حسین نواز بھی شریف خاندان کے گھریلو ملازمین کے نام پر بیرون ملک سے کروڑوں ڈالرز بھیج رہے تھے ۔ یوں ان سب نام نہاد معززین نے غریبوں کو پہلے لوٹا اور پھر ان گھریلو ملازمین کے نام پر جعلی اکاؤنٹس بنا کر منی لانڈرنگ بھی کی۔یہ تھے ہمارے وہ لیڈرز جو معاشرے میں آج بھی معزز سمجھے جاتے ہیں۔
پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار سے یاد آیا‘ اگلے سال مارچ میں لندن سے ایک کتاب چھپ رہی ہے ‘ جس میں سلطنتِ روم کے زوال کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ کتاب کا نام ہے :How Rome Fell into Tyranny۔اس کے لکھاری Edward Watts ہیں ۔ اگرچہ اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں‘ لیکن اس کتاب میں اب جو نئی بات بتانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دراصل روم کے حکمران اور ایلیٹ کلاس امیر سے امیر تر جبکہ غریب رومن مزید غریب ہوتے جارہے تھے۔ رومن حکمرانوں کے نزدیک عوام کی فلاح اہمیت نہیں رکھتی تھی‘ جس نے انہیں اپنے سروں پر بٹھایا ہوا تھا۔ اگرچہ کہا جاتا ہے سیزر کے قتل کے بعد روم کی سلطنت کمزور ہوناشروع ہوگئی تھی‘ لیکن اب پتہ چل رہا ہے دراصل امیر غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق عظیم سلطنت کے زوال کی وجہ بن رہا تھا۔
پہلے فیز میں روم کے ابتدائی شہری محنتی تھے‘ جنہوں نے روم کو طاقت بخشی۔ دوسرے فیز میں روم ہر طرف جنگیں لڑ رہا تھا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب روم میں سترہ سال سے تیس سال تک کے سب نوجوان فوج میں تھے ‘جو روم کے لیے مرنے کو تیار تھے اور وہ مارے بھی گئے ۔ ایک کے بعد دوسری جنگ میں وہ سب کٹتے چلے گئے ۔ صرف ہینی بال کے ساتھ جنگ میں ہزاروں رومن مارے گئے ۔ کچھ عرصے بعد روم دو طبقات میں بٹ چکا تھا۔ ایک طرف لٹیرے تو دوسری طرف لٹنے والے ۔رومن معاشرے میں یہ تقسیم کسی جنگ کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی بلکہ روم کو تقسیم کرنے والی اس طاقت کا نام دولت تھا۔ روم میں ایک طبقہ وجود میں آچکا تھا جس نے بے پناہ دولت اکٹھی کر لی تھی۔ یہ کرپٹ اشرافیہ کا وہ طبقہ تھا جو سونے کی پلیٹوں میں کھانا کھاتے ‘مچھلی بھی امپورٹ کر کے کھاتے ‘مہنگی شراب پیتے اور دوردراز مہنگے خوبصورت ساحلی علاقوں میں جا کر چھٹیاں گزارتے ۔ ان میں سے ایک کا نام Crassus تھا‘ جس نے پراپرٹی کے کاروبار سے ماردھاڑ کر کے بہت پیسہ بنایا۔ پھر اس پیسے سے اس نے سیاسی طاقت خرید لی۔ ایک طرف رومن اشرافیہ زندگی کا ہر مزہ چکھ رہی تھی تو دوسری طرف رومن بھوکے مر رہے تھے ۔ اس صورتحال میں بھلا روم کب تک چل سکتا تھا۔ آخر ایک دن وہ روم گر گیا۔ وہ روم جس کی سرحدیں دنیا کے ہر کونے میں پھیلی ہوئی تھیں اور جس کے پاس دنیا کی بہترین تربیت یافتہ فوج تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ری پبلک جلد ختم ہوگئی اور روم نے جمہوریت سے ڈکٹیٹر شپ کا روپ دھار لیا۔
روم نے دنیا بھر کی فوجوں کو شکست دی تھی‘ لیکن اپنے اندر پھیلتی لوٹ مار اور امیر غریب کے درمیان بڑھتے فاصلوں کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ وہ سلطنت جسے بدترین دشمن شکست نہ دے سکے تھے اسے اپنے ملک کی کرپٹ اشرافیہ نے شکست دے دی تھی۔ جب روم کے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اپنی سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکالا اور سیاسی روایات کے کلچر کو بے ایمانی کا روپ دھار کر دھوکا دیا تو وہی روم دھڑام سے نیچے آن گرا‘ جس کی طاقت سے کبھی پوری دنیا ڈرتی تھی۔ وہ روم جسے دشمن تباہ نہ کرسکے ‘ اسے کرپٹ حکمرانوں‘ کرپٹ اشرافیہ کی دولت کے اندھے لالچ اور امیر غریب کے درمیان بڑھتی خلیج نے شکست دے دی ۔ وہ روم جسے تعمیر ہونے میں صدیاں لگیں وہ ایک رات میں جل کر راکھ ہو گیا تھا۔