امریکہ میں تھا کہ ناصر ملک کا مدت بعد میسج ملا۔ پوچھا: کہاں ہو۔ میں اسلام آباد پریس کلب کا الیکشن لڑ رہا ہوں۔ فورا ً واپس آئو اور ووٹ ڈالو۔ پڑھ کر مجھے حیرت نہ ہوئی بلکہ حیرت اس بات پر تھی کہ ناصر ملک اتنی مدت ان کاموں سے دور کیسے رہے؟ جس ناصر ملک کو میں جانتا تھا وہ تو صحافیوں کیلئے لڑا۔ اچھی اور صاف ستھری صحافت کے لیے کھڑا ہوا۔ پھر سوچا ملک صاحب کو کیوں اس کی ضرورت پڑ گئی کہ وہ اسلام آباد کلب کے الیکشن میں حصہ لیں۔میرا خیال تھا وہ صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اب تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ ٹاپ کے وہ صحافی جنہوں نے صحافت میں ایک معیار قائم کیا‘ وہ دھیرے دھیرے سین سے غائب ہوگئے ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے وہ بڑے صحافی جنہوں نے پچھلے تیس سالوں میں راج کیا تھا آج کی نئی نسل ان کے ناموں سے واقف نہیں اور نہ ہی ان کی اعلیٰ صحافتی اقدار سے کہ کیسے ان صحافیوں نے جنرل ضیاسے لے کر جنرل مشرف تک‘صحافیانہ جدوجہد کی اور صحافت اور صحافی کو تمام تر جبر کے باوجود مرنے نہ دیا۔ احمد علی خان جیسے بڑے ایڈیٹر نہ رہے۔ ایک لمبی فہرست ہے ایسے ناموں کی جو عباس اطہر جیسے صحافیوں کی طرح اگر جنرل ضیادور میں لاہور کے شاہی قلعہ میں قید رہے تو ناصر زیدی جیسے بھی تھے جنہیں جنرل ضیانے کوڑے مروائے یا پھر شاہین صہبائی جیسے بھی تھے جن کا جنرل مشرف نے پاکستان میں جینا حرام کر دیا تھا اور انہیں امریکہ جانا پڑا۔
جب جنرل مشرف کا مارشل لالگا تو شاہین صہبائی اس وقت ڈان اخبار کے لیے واشنگٹن سے رپورٹنگ کررہے تھے۔ جنرل مشرف نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں عدالتیں اور صحافت آزاد ہیں۔ شاہین صہبائی نے فلائٹ لی اوراسلام آباد لینڈ کیا اور اسی اخبارمیں پہلا آرٹیکل لکھا کہ سنا ہے جنرل کہتا ہے کہ میڈیا کو بہت آزادی دی ہوئی ہے‘ چلیں دیکھتے ہیں کتنی آزادی ملی ہوئی ہے؟ شاہین صہبائی نے ایک دھواں دھار آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا:All the King's Men۔اس ایک آرٹیکل نے دھوم مچا دی تھی۔ شاہین صہبائی نے وہ کہانی لکھی تھی کہ کیسے جنرل مشرف نے اقتدار کے لیے House of Cardsتشکیل دیا تھا اور ٹاسک سیاسی گاڈ فادر چوہدری شجاعت حسین اور سابق گورنر میاں اظہر کو سونپا گیا تھا کہ وہ سب سیاسی گھوڑے‘ گدھے اکٹھے کر کے بھان متی کا کنبہ تشکیل دیں۔ شاہین صہبائی نے وہ سب نام گنوائے تھے جو کرپشن کے بادشاہ تھے۔ نیب کے ملزم تھے ‘لیکن ضرورت پڑنے پر جنرل مشرف نے انہیں معافی دے کر ساتھ ملا لیا تھا۔ایک اور مضمون لکھا جس میں شاہین صہبائی نے انکشاف کیا کہ کیسے آرمی چیف بننے سے پہلے اور بعد میں جنرل مشرف رائے ونڈ جا کر ابا جی سے ملاقاتیں کرتے تھے۔انکشافات سے بھرپور کہانی نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ۔ شاہین صہبائی کے مضمون سے لگا کہ مشرف کی لنکا اب ڈھینے والی ہے اور پھر اس اخبار کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں اور شاہین صہبائی پر جھوٹے مقدمے کرائے گئے۔ جنرل مشرف کی دی ہوئی آزادی شاہین صہبائی کے دو مضمونوں نے ایکسپوز کر دی تھی۔ اس طرح ڈان اسلام آباد کے بیوروچیف ضیا الدین نے جنرل مشرف کے پانچ سال پورے ہونے پر جو ایک طویل لیکن سخت آرٹیکل لکھا تھا‘ وہ بھی شاید برسوں نہ بھلایا جاسکے۔
ان دنوں میں اسی انگریزی اخبار میں تھا اورمیری خوش قسمتی کہ وہاں یہ سب بڑے جرنلسٹ موجود تھے۔ شاہین صہبائی سے وہیں ملاقات ہوئی‘ جس نے میرا مستقبل بدل دیا۔ ناصر ملک انہی دنوں لندن سے تین سال رپورٹنگ کر کے لوٹے تھے۔ یوں مجھے ضیاالدین‘ شاہین صہبائی اور ناصر ملک جیسے بڑے صحافیوں سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ضیاالدین اور ناصر ملک سے تو بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ بھی کھائی جس سے مجھے خود کو بہتر کرنے کا موقع ملا‘ تاہم شاہین صہبائی میری خبر پڑھتے تو دوبارہ لکھتے یا اسے ایڈیٹ کرتے اور ایسا کمال کرتے کہ وہ خبر فرنٹ پیج پر چھپتی۔ ناصر ملک نے بھی میری خبروں کو بہتر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مجھے کہنے میں ہرج نہیں کہ ناصر ملک سے بہتر ٹیمپرامنٹ کا صحافی شاید ہی دیکھا ہو۔ کام کے وقت کام اور گپ شپ کے وقت کھلی ڈلی گپ۔ ضیاصاحب نے ہم سب رپورٹرز کو ناصر ملک کے کنٹرول میں دے دیا تھا اور وہ اپنی ذمہ داری ایسے نبھاتے جیسے ہم سب ان کے بچے ہوں۔ بعض دفعہ اگر ہم رپورٹرز سے بلنڈرز بھی ہوتے تو ناصر ملک اسے اپنے سر پر لیتے اور بوجھ ہم پر ٹرانسفر نہ ہونے دیتے۔ ایک دفعہ مجھ سے ایک پریس ریلیز کی غلطی ہوئی تو کراچی ڈیسک نے اس پر شدید ردعمل دیا۔ناصر ملک رپورٹنگ کے انچارج تھے۔ انہوں نے مجھے بھی سب کے سامنے بہت جھاڑا۔ مجھے محسوس ہوا غلطی اتنی بڑی نہیں تھی جتنی اس پر جھاڑ پڑی ہے۔ میں خاصی دیر چپ رہنے کے بعد بول پڑا کہ اگر یہ بات ہے تو میں نوکری چھوڑ دیتا ہوں۔ اتنی دیر میں کراچی نیوز روم سے نیوز ایڈیٹر کا فون آگیا کہ میری رئوف سے بات کرائو۔ ناصر ملک مجھے ڈانٹ چکے تھے اور میں نوکری چھوڑنے کا کہہ چکا تھا۔ملک کو پتہ تھا بات آگے بڑھ گئی ہے اور اب نیوز ایڈیٹر نے دبایا تو نوکری جائے گی۔ ناصر ملک نے نیوز ایڈیٹر کو بتایا کہ اس کی بات ہوگئی ہے۔ اور مجھے اشارہ کیا کہ تم نے فون پر کوئی سخت جواب نہیں دینا۔ مجھے اس لمحے احساس ہوا کہ ناصر ملک دل کے کتنے اچھے انسان ہیں۔ ڈانٹ کا مطلب میری نوکری ختم کرنا نہیں تھا۔ اور پھر ہماری ناصر ملک سے دوستی کا آغاز ہوا۔ ناصر ملک نے مجھے رپورٹر بننے میں مدد دی۔ وہ ان چند اعلیٰ نسل صحافیوں میں سے تھے جو نہ صرف خود اچھے رپورٹر تھے بلکہ رپورٹرز کی ایک نئی نسل بھی تیار کرتے۔ ادارے میں وہ صحافیوں کے حقوق کیلئے ہر وقت لڑنے پر آمادہ رہتے اور ان صحافی لیڈروں میں سے تھے جو ادارے میں اس وجہ سے پسند نہیں کیے جاتے تھے کہ وہ اپنی فلاح یا تنخواہ کی بجائے دوسروں کیلئے کھڑے ہوتے۔ ویسے وہ بھی کیا دور تھا۔جبر کے دور میں کئی صحافی لیڈرز ابھرے۔ پریس کلب آمروں کے خلاف سیاسی جماعتوں کیلئے پلیٹ فارم بن کر ابھرے۔ کراچی پریس کلب اور لاہور پریس کلب کا اس سلسلے میں بڑا رول رہا۔ کراچی میں عبدالحمید چھاپڑا‘ منہاج برنا اور دیگر تو لاہور میں نثار عثمانی مزاحمت کا نشان بن کر ابھرے جو جنرل ضیاتک کو پریس کانفرنس میں سنا دیتے تھے۔ ملتان میں ولی محمد واجد ‘ نذر بلوچ‘ مظہر عارف جیسے صحافیوں نے مزاحمت کی۔ لاہور میں جب ہما علی پریس کلب کے صدر بنے تو اس ادارے کو چار چاند لگ گئے۔ ہما علی شاید لاہور پریس کلب کی تاریخ میں سب سے زیادہ محبت اور پیار کیے جانے والے صدر شمار ہوتے تھے۔ ایک خوبصورت طویل قامت نوجوان‘ جس پر لاہور کے صحافی جان چھڑکتے۔ جس نے شکیل عادل زادہ کا سب رنگ میں بازی گر پڑھا ہوا ہے تو سمجھ لیں ہما علی سے جو بھی ملتا اسے لگتا وہ استاد بٹھل کے لاڈلے بابر زمان سے مل رہا ہے۔
پھر دھیرے دھیرے جہاں دیگر اداروں کو زوال آیا وہیں صحافی تنظیموں کی لیڈرشپ بھی متاثر ہوئی۔ ٹی وی جرنلزم آنے سے میڈیا میں نوجوان نسل کا سیلاب آیا ‘جو ہر شے کو روندنے پر تلے ہوئے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ وہی ہمارے سینئرز ہم سے چھپتے پھرتے ہیں کہ کوئی جملہ نہ کس دے۔ اب ہر کوئی سینئر صحافی بن گیا ہے۔ ہر کسی کے نام کے ساتھ سینئر تجزیہ نگار لگتا ہے۔ اب ہر کوئی سپریم کورٹ‘ فارن آفس ‘ پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کر سکتا ہے۔ دس پندرہ سال قبل جب تک آپ نے فیلڈ میں کم از کم دس سال رپورٹنگ نہ کی ہو آپ سوچ نہیں سکتے تھے کہ سپریم کورٹ داخل ہوسکیں یا پارلیمنٹ رپورٹنگ کریں۔ وقت تیزی سے بدل گیا۔
ناصر ملک کا میسج پڑھ کر ڈان کے وہ دن یاد آئے جب ہم جونیئرر پورٹرز بیوروآفس میں ان بیٹھکوں‘ بحث مباحثوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے سیکھتے۔ کیا کیا محفلیں سجتیں جن میں برکی صاحب‘ ضیاصاحب‘ احمد حسن علوی‘ احتشام الحق‘ فراز ہاشمی‘ محمد یاسین‘ اکرام ہوتی‘ انصار عباسی‘ محمد الیاس‘ رفاقت علی‘ اور ناصر ملک شریک ہوتے۔یہ بیورو آفس ایک ادارہ بن چکا تھا ‘جہاں ہر سیاستدان‘ سفیر‘ مشیر یا ورکرز آتے۔ برکی صاحب کی ہر شام اسی آفس میں گزرتی۔جتنا احترام بیورو میں برکی صاحب کا کیا جاتا وہ میں نے اور کہیں نہیں دیکھا۔ وہ جس کو چاہتے ڈانٹ دیتے اور مجال ہے آگے سے کوئی اُف تک کرتا۔
مجھے نہیں پتہ ناصر ملک کو آج کی نسل ‘جو پریس کلب کی ممبر ہے‘ کتنا جانتی ہے۔ وہ جیت پائیں گے یا نہیں‘ لیکن وہ میرے ارشد شریف اور دیگر کئی کے استاد ہیں۔ ملک جی آپ جیتیں یا ہاریں‘ ہمیں آپ سے پیار ہے!