امریکہ سے پاکستان واپسی کے چوبیس گھنٹے کے سفر کی تھکان اس وقت اتر گئی جب ٹی وی پر عزت مآب زرداری کی تقریر سنی۔ اگرچہ اب آتش جوان نہیں رہا۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ آواز میں وہ گھن گرج نہیں رہی جو حضرت کا خاصہ ہوا کرتی تھی جب وہ اینٹ سے اینٹ بجاتے تھے۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ گفتگو میں تیزی نہیں رہی۔ اب وہ اٹک اٹک کر لفظ ادا کرتے ہیں۔ دھمکی بھی دیتے ہیں لیکن لگتا ہے گپ شپ کررہے ہیں۔ دھمکی اب دھمکی لگتی نہیں۔ وقت کے ساتھ انہیں سمجھ آگئی ہے کہ صرف دھمکیاں کام نہیں کرتیں‘ لہٰذا اس دفعہ انہوں نے ان قوتوں کو اوئے جاہلو اور اوئے بیوقوفو کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ بڑے مزے کی بات ہے‘ اگلے دن اپنی مرضی کے نتائج بھی حاصل کر لیے ۔ ان کی جانب سے ''اوئے جاہلو ‘ اوئے بیوقوفو‘‘ کے لقب کے بعد بلاول بھٹو اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا نام بھی ای سی ایل سے ہٹا دیا گیا۔
ویسے کمال ہے جن کے خلاف جے آئی ٹی نے درجن بھر سے زیادہ والیم سپریم کورٹ میں پیش کیے اور پتہ چلا کہ نواز شریف کا پانامہ تو زرداری کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ‘وہ اچانک معزز ٹھہرا دیے گئے ہیں۔ اگر نواز شریف اور ان کے بچوں نے سارا زور پاکستان کو لوٹ کر بیرونِ ملک جائیدادیں بنانے پر لگایا‘ اور دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں خرید لیں تو یہی کام زرداری نے بھی پاکستان میں کیا‘ خصوصاً سندھ میں ۔ سندھ میں جو لوٹ مچائی گئی اس پر آنکھیں پھٹ کر رہ جائیں کہ پچھلے دس سالوں میں اومنی گروپ یا زرداری گروپ کس طرح سے لوٹ مار کر رہے تھے۔ ایک دفعہ ایک سندھی دوست سے بات ہوئی اور پوچھا کہ سندھ کے لوگوں کو اس لوٹ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا؟ وہ ہنس کر بولے: جناب ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ ہم تو پنجابیوں کو لوٹ رہے ہیں۔ اب بھی دیکھیں جے آئی ٹی پر سارا شور پنجاب یا اسلام آباد میں ہے‘ سندھ میں آپ کو اس لوٹ مار کے خلاف کوئی احتجاج نظر آتا۔ میں بڑے عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی شعور سندھ میں پایا جاتا ہے۔ جب پنجاب جنرل ضیا کے ساتھ کھڑا تھا تو اس وقت سندھ میں مزاحمت جاری تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہاں سے بھٹو کو پھانسی لگی تھی۔ سندھ کے سیاسی شعور نے اس وقت کروٹ لی جب انیس سو اٹھاسی کے الیکشن میں سندھ کے وڈیرے اور پیر پگاڑا تک پیپلز پارٹی کے عام ورکرز سے شکست کھا گئے۔ لیکن پھر کیا ہوا ؟ اس نئے سیاسی شعور کا کیا فائدہ ہوا؟ سندھ وہیں کھڑا ہے جہاں تھا۔ دو ہزار سات میں جس دن بینظیر بھٹو قتل ہوئیں‘ اس کے اگلے دن میں نے نوڈیرو میں ان کی آخری رسومات کی رپورٹنگ کے لیے کرائے کی ایک کار پر اندرون سندھ خطروں سے بھرپور طویل سفر کیا تو احساس ہوا کہ سندھ کتنا پس ماندہ ہے۔میں سمجھتاتھا‘ ہم سرائیکی اور سرائیکی علاقے ہی غربت اور پس ماندگی کا شکار ہیں۔ لیکن ان تین دنوں میں مجھے احساس ہوا‘ میں غلط تھا۔ سندھ قرونِ وسطیٰ کا علاقہ لگتا تھا‘ جہاں ہر طرف غربت اور پسماندگی پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے ان تین دنوں میں سندھی لیڈرشپ سے الرجی ہوئی کہ ان لوگوں نے سندھیوں کا کیا حشر کر دیا۔ رات کو بڑے شہروں سے گزرتے ہوئے احساس ہوا کیسے ان سندھیوں کے ساتھ دھوکہ ہوا ‘جو سیاسی طور پر ہم سے بہتر شعور رکھنے کے لیے مشہور تھے۔ اس شعور کا انہیں کیا فائدہ ہوا؟ بینظیر بھٹو ماری گئیں تو زرداری صاحب نے پورے ملک اور سندھ سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو محض لوٹ مار اور بربادی تک محدود کر دیا۔ نواز شریف کے مقابلے میں دولت کمانے کے جنون نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ان کے ذہن میں یہ بات سما گئی تھی کہ نواز شریف کا مقابلہ سیاسی طور پر نہیں ہوسکتا‘ اس کے لیے اتنی دولت کمانا ہو گی جتنی انہوں نے کما لی ہے۔ یہ باتیں وہ پہلے چھپ کر کرتے تھے‘ اور پھر زرداری صاحب نے یہی باتیں اسلام آباد کے اپنے قریبی چند قابل بھروسہ صحافی دوستوں کے ساتھ کرنا شروع کر دیں کہ بی بی کو بتا دیا ہے ‘نواز شریف کا مقابلہ کرنا ہے تو ان جیسی دولت چاہیے۔ ان کے صحافی دوستوں نے بھی یہی تھیوری عوام کو بیچنا شروع کر دی کہ بغیر پیسے کے سیاست نہیں ہوسکتی۔ یوں زرداری نے وہ کھیل کھیلا کہ اپنا گھر جلا دیا۔ ملک اور سندھ کو تو انہوں نے اجاڑا سو اجاڑا لیکن اپنے گھر کو بھی آگ لگا دی۔ بلاول کو وہیں لا کھڑا کیا ہے جہاں خود تیس سال قبل کھڑے تھے۔ حیران ہوں کون اپنے بچے کا مستقبل تباہ کرتا ہے۔ کون اپنے بچے کو انگاروں پر پائوں جلتے دیکھ کر سکون محسوس کرتا ہے؟ کیا زرداری صاحب کو علم نہ تھا کہ بینظیر بھٹو اور انہوں نے خود ساری عمر اس دولت کی سزا بھگتی جو انہوں نے اکٹھی کی؟ کیا پیپلز پارٹی کے دیگر لیڈروں کی مثال زرداری صاحب کے سامنے نہ تھی؟ لیڈر چھوڑیں اس دولت نے خود زرداری کو کتنا خراب کیا ۔ جس راستے سے وہ خود جیل سے ہوآئے وہی راستہ بیٹے کے لیے کیسے چن لیا؟
زرداری صاحب کو فرق نہیں پڑتا کہ ہر طرف ان کے بیٹے کی تصویریں اور جائیدادوں کی تفصیلات ٹی وی چینلز پر چل رہی ہوں‘ تو کیا زرداری اب جب اپنے بیٹے کی تصویریں اور جائیدادوں کی تفصیلات ٹی وی پر چلتے دیکھتے ہوں گے تو انہیں اپنے ولی عہد شہزادے پر فخر محسوس ہوتا ہوگا؟ اب وہ خوش ہیںکہ وہ جو چاہتے تھے وہی کچھ ہورہا ہے؟ ان کا بیٹا ماں باپ کی طرح مشہور ہورہا ہے۔ پہلے ماں نے کرپشن پر مقدمے بھگتے‘ پھر باپ نے اسی پیسے کے لیے جیلیں کاٹیں اور اب بیٹے کی باری لگ گئی ہے ؟ دوسری نسل نے بھی وہیں سے اپنی سیاست شروع کی جہاں ماں اور باپ نے چھوڑا تھا۔ تو کیا زرداری صاحب کو یہ لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کامیاب ہونا ہے تو نہ صرف آپ خود کرپٹ ہوں بلکہ اپنے بچوں کو بھی کرپٹ کریں یا انہیں علم ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں ہر غریب کا رول ماڈل امیر آدمی ہے جو پراڈو پر سوار ہے اور اس کے ساتھ چند بندوقیں اٹھائے لوگ چل رہے ہیں‘ وہی ان کا ان داتا ہے‘ وہی گاڈ فادر ہے؟ غریب اور عام آدمی کو بھی اپنے جیسے بندے متاثر نہیں کرتے کہ جو اپنے لیے کچھ نہیں کرسکتا‘ وہ ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی لائے گا ۔ اس امیر بندے کو پتہ ہے وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو اگر اس امیر اور مشہور انسان نے اسے کچھ دن کے لیے ادھار دے دی تو اس کی قسمت بدل جائے گی۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ اپنے جیسے عام بندے کے وعدے یا مشورے پر اعتبار کرے گا اور نہ ہی بھروسہ ‘لیکن اگر وہی مشورہ مشہور اور مالدار انسان اسے دے تو وہ فوراً جان لڑا دے گا۔ سیاستدان لوگوں کی اس نفسیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کھل کر انہیں استعمال کرتے ہیں کہ وہ ان کی زندگیاں بدل دیں گے۔ یہ دھوکہ وہ ایک دفعہ نہیں بار بار ان لوگوں کو دیتے ہیں اور وہ لوگ بھی جانتے بوجھتے ان کرپٹ لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں اور کرتے جاتے ہیں‘ کیونکہ ان کے مسائل وہیں موجود ہوتے ہیں اور وہ ہارے جواری کی طرح سوچتے ہیں شاید ہمارا بھی کبھی کسینو میںجیک پاٹ لگ جائے گا۔ اگر کراچی میں سینما ہاؤس کی ٹکٹیں بیچنے والے آج ارب پتی بن سکتے ہیں تو پھر وہ کیوں نہیں؟
یوں ان سیاسی لیڈروں نے نہ صرف خود کرپشن کی‘بلکہ اپنے فالورز اور معاشرے کو بھی کرپٹ کر دیا ہے ۔ اب ہر کرپٹ انسان ہمارا ہیرو اور رول ماڈل ہے۔ اب کامیابی کی علامت وہی سمجھا جاتا ہے جس نے سب سے زیادہ لوٹا ہے۔
عمران خان کو دیر سے سمجھ آئی ‘اگر انہوں نے نواز شریف اور زرداری کا مقابلہ کرنا ہے تو انہیں بھی اتنی دولت چاہیے ہو گی جتنی ان کے پاس ہے۔ عمران خان صاحب خود دولت کما نہیں سکتے تھے لیکن اس طرح کے دولت مند پارٹی میں اکٹھے کیے جنہوں نے زرداری اور نواز شریف کی طرح لوٹ مار سے مال بنایا تھا۔ عمران خان نے بھی ان سب کو سر پر بٹھایا جنہوں نے بینک لوٹے تھے‘ کاروباری فراڈ کیے تھے‘ زرداری‘ نواز شریف کی طرح لوٹ مار کر کے گھریلو ملازمین کے نام پر بینک اکاؤنٹس کھول کر منی لانڈرنگ کی اور بیرون ملک جائیدادیں خریدی تھیں ؤ۔ آج عمران خان وزیراعظم ہیں۔
اس کہانی کا اخلاقی سبق آپ خود ڈھونڈ لیں اگر اس ملک میں اخلاقیات بچ گئی ہے کیونکہ میں تو زرداری کے اس جملے کی خوبصورتی اور رومانس میں گم اپنا سر دھن رہا ہوں
اوئے بیوقوفو‘ اوئے جاہلو!... واہ واہ!