جب یہ خبر پڑھی کہ ٹیلی فون کارڈز پر ٹیکس بحال کر دیا گیا ہے تو مجھے سینیٹ کمیٹی برائے فنانس کا وہ اجلاس یاد آیا جس میں ایف بی آر نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں کچھ پتہ نہیں کمپنیاں کتنا ٹیکس اکٹھا کر رہی ہیں اور حکومت کو کتنا دیا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے گیس چارجز کے نام پر چار سو باون ارب روپے کے ٹیکس عوام سے اکٹھے کرنے کے بعد کمپنیاں ٹیکس جمع کرانے سے انکاری ہو گئی تھیں۔ حکومت ان سے یہ ڈیل کر رہی تھی چلیں آپ دو سو ارب دے دیں باقی ڈھائی سو ارب روپے آپ خود رکھ لیں۔ اب خبر آئی ہے کہ حکومت دو سو ارب روپے اکٹھے کرنے کے لیے سکوک بانڈز جاری کرے گی اور اس کے لیے تگڑا سود ادا کرے گی۔ اندازہ کریں کہ وہ ٹیکس جو عوام دے چکے ہیں وہ خود کھا کر یہ کمپنیاں اب ڈکار بھی نہیں لے رہیں اور حکومت قرضہ لے گی۔
میں حیرانی سے بیٹھا سنتا رہا۔ اس سے بہتر ملک اور کیا ہو گا جہاں سرمایہ کار جو چاہے لوگوں کی جیبوں سے نکال لے اور وہ ٹیکس بھی حکومت کو ادا نہ کرے جو وہ پہلے ہی لوگوں سے لے چکا ہے۔
کسی قابل اعتماد دوست نے ایک دفعہ ایک واقعہ سنایا تھا۔
شہباز شریف خیبر پختون خوا حکومت سے ایک نیک نام ڈی ایم جی افسر ڈاکٹر راحیل صدیقی کی یہ شرط مان کر پنجاب ریونیو اتھارٹی کے چیئرمین کے طور پر لائے تھے کہ وہ ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اگرچہ شہباز شریف کے لیے یہ مشکل کام تھا کہ وہ ہر کام میں مداخلت نہ کریں کیونکہ ان کا ماڈل اسی بات پر ہی کھڑا تھا کہ اگر شہباز شریف نہ ہو تو شاید لوگ سانس بھی نہ لے سکیں۔ خیر ڈاکٹر راحیل صدیقی لاہور آ گئے۔ کام شروع کیا تو پتہ چلا‘ دو بڑی ٹیلی کام کمپنیاں ریونیو پورا ادا نہیںکر رہیں۔ انہوں نے اجلاس بلایا اور ان کمپنیوں کے مقامی عہدے داروں کو بلا کر کہا گیا کہ وہ انہیں ریکارڈ فراہم کریں کہ انہوں نے کتنی کالیں کی تھیں‘ اور ان پر کتنا ریونیو اور ٹیکس انہوں نے لوگوں سے وصول کیا تھا اور کتنا جمع کرایا تھا۔ ایک کمپنی راضی ہو گئی لیکن دوسری کمپنی والوں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ جب پہلی کو پتہ چلا کہ دوسری کمپنی اپنا ریکارڈ نہیں دے رہی تو وہ بھی مکر گئی۔
اس پر ڈاکٹر راحیل صدیقی نے دبنگ قدم اٹھاتے ہوئے اس کمپنی کا لاہور میں واقع دفتر سیل کر دیا۔ اس پر ہر طرف شور مچ گیا۔ لیکن اس کمپنی نے میڈیا پر یہ خبر نشر نہیں ہونے دی اور بلیک آئوٹ کرا دیا۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر صدیقی کو نواز شریف کی کابینہ کی ایک اہم وفاقی وزیر‘ جس کے اس کمپنی میں کچھ مفادات تھے‘ کا فون آیا: یہ کیا کر دیا ہے آپ نے‘ یہ فارن سرمایہ کار ہیں‘ بھاگ جائیں گے۔ اس خاتون وزیر کا خاوند بھی اس کمپنی میں کام کرتا رہا تھا۔
فنانس منسٹری کے افسران کے بھی فون آنا شروع ہو گئے۔ ڈاکٹر راحیل صدیقی ڈٹے رہے۔ کمپنی نے ہفتہ کے روز عدالت سے حکم لے لیا کہ دفتر کھول دیں۔ ریونیو اتھارٹی نے کہا: وہ سوموار کو نوٹس وصول کرے گی۔ اب کمپنی کے لیے مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ دو دن مزید بند رہے گا۔ ڈاکٹر راحیل صدیقی نے کہا: جب وہ نوٹس آئے گا تو وہ اسے اپنے لاء ڈویژن کو بھیجیں گے کہ وہ اپنی رائے دیں۔ اب کمپنی کے لیے مشکل تھا کہ ہیڈ آفس پورا ہفتہ بند رہے۔ بلیک آئوٹ کے باوجود ایک انگریزی اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر چھپ گئی اور بیرون ملک اس کمپنی کے ہیڈ کوارٹر میں پڑھی گئی۔ وہاں شور مچ گیا کہ ہماری کمپنی پاکستان میں اربوں روپے کما رہی ہے لیکن وہ وہاں مقامی ٹیکس نہیں دے رہی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ فوری طور پر اپنا اعلیٰ افسر بھیجا کہ جا کر دیکھو کیا ہو رہا ہے۔ جب وہ سب ڈاکٹر راحیل صدیقی کو ملے۔ انہوں نے وہی بات سامنے رکھ دی تو پتہ چلا کہ بیرون ملک ہیڈ آفس کے علم میں نہیں تھا‘ جبکہ پاکستانی افسران کہنے لگے کہ وہ زیادہ ریونیو دینے کو تیار ہیں لیکن وہ ریکارڈ نہیں دیں گے۔ اس طرح بیرون ملک سے آنے والے اس افسر کی مداخلت پر معاملات درست ہوئے اور یوں انہوں نے وہ ٹیکس دیا جو وہ لوگوں سے اکٹھا کر چکے تھے۔ چند ماہ بعد پاکستان میں پوری ٹیم تبدیل کر دی گئی کہ آپ لوگ مقامی ٹیکس کیوں ادا نہیں کر رہے تھے اور کمپنی کے لیے آپ لوگ بدنامی کا سبب بنے۔
ایک دن ڈاکٹر راحیل صدیقی کو پتہ چلا کہ لاہور شہر میں بیوٹی پارلر والے ٹیکس چوری کر رہے ہیں۔ دلہنوں سے میک اپ کے نام پر لاکھوں لینے والے ٹیکس نہیں دے رہے تھے۔ شام کو بڑے بڑے پارلرز کو سیل کر دیا گیا۔ ساتھ ہی میڈیا میں خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ شہر کے اہم پارلر بند ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ٹیکس نہیں دے رہے تھے۔ تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ ڈاکٹر راحیل صدیقی کو ایک نمبر سے فون آیا ۔ پتہ چلا کہ وہ شہباز شریف کے تیسرے گھر سے تھا۔ ڈاکٹر راحیل صدیقی کو کہا گیا: فوری طور پر فلاں بیوٹی پارلر کھول دیں۔ اب راحیل صدیقی کے لیے بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا کیونکہ وہ توقع نہیں کر رہے تھے گھر سے فون آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے۔ فون بند ہوگیا۔ کچھ دیر بعد پھر فون آیا تو ڈاکٹر راحیل صدیقی نے بتایا کہ وہ اپنی ٹیم کو تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ رابطہ نہیں ہورہا۔ وہ مسلسل ٹالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ راحیل صدیقی کو یاد آیا کہ اس معاملے میں شہباز شریف نے پالیسی گائیڈ لائنز دی ہوئی تھیں کہ اگر گھر سے کسی کا سفارش کے لیے فون آئے تو کیا کرنا تھا۔ ڈاکٹر راحیل صدیقی نے شہباز شریف کے سٹاف افسر کو فون کرنے شروع کر دیے۔ جواب نہ ملا۔ ایک طرف بیگم صاحبہ مسلسل فون پر فون کر رہی تھیں کہ پارلر کیوں نہیں کھولا‘ تو دوسری طرف شہباز شریف کا سٹاف افسر فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ ڈاکٹر راحیل صدیقی پھنس گئے تھے کیونکہ وہ یہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے کہ جس پارلر کو انہوں نے کچھ دیر پہلے سیل کیا تھا اور پورے چینلز پر خبریں چل گئی تھیں‘ وہ اب انہی کے تالے کھول دیں اور پھر ٹی وی پر خبریں چلیں ریونیو اتھارٹی ڈر گئی ہے۔ جب دوبارہ فون آیا تو ڈاکٹر راحیل صدیقی نے محترمہ کو بتایا کہ مسئلہ بن جائے گا‘ لیکن وہ بضد تھیں کہ فوراً تالے کھولے جائیں جبکہ ڈاکٹر صدیقی کی یہ کوشش تھی اس وقت تک ٹالا جائے جب تک ان کا رابطہ شہباز شریف کے سٹاف افسر سے نہیں ہو جاتا۔
ڈاکٹر صدیقی اب پھنس گئے تھے۔ ایک طرف ان کی ڈیوٹی تھی تو دوسری طرف ان کا مزاج تھا اور وہ اس معاملے میں بات سننے کو تیار نہ تھے۔ انہیں پتہ تھا اگر ایک کا کھول دیا تو پھر سب کے تالے کھولنے پڑیں گے۔
خیر کافی دیر بعد شہباز شریف کے سٹاف افسر کا فون آیا‘ جب اسے یہ میسج بھیجا گیا کہ بہت ارجنٹ معاملہ ہے۔ ڈاکٹر راحیل صدیقی نے بتایا: جناب یہ معاملہ ہے۔ اب ان پر شہباز شریف کے تیسرے گھر سے دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ ان کے پسندیدہ پارلرکوفوراً کھول دیا جائے۔ ڈاکٹر صدیقی نے کہا: اگر ایک کو کھولنا ہے تو پھر وہ سب کو کھول دیں گے۔ پھر کر لیں اکٹھا ٹیکس۔
سٹاف افسر نے کہا کہ وہ ابھی واپس کال کرتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد فون آیا اور صدیقی صاحب سے پوچھا گیا: بیگم صاحبہ نے بدتمیزی تو نہیں کی تھی یا جواباً ان کے ساتھ بدتمیزی تو نہیں کی گئی تھی۔ یہ بات افسران کو بتا دی گئی تھی کہ شہباز شریف کے گھر سے فون آئے اور افسران کام نہیں کر سکتے تو بالکل نہ کریں‘ لیکن تہذیب سے انکار کیا جائے۔ اسی طرح شہباز شریف صاحب نے گھر بھی بتایا ہوا تھا کہ آپ لوگ میرے علم میں لائے بغیر فون کریں گے تو تہذیب سے فون ہوگا۔
ڈاکٹر راحیل صدیقی نے سٹاف افسر کو بتایا کہ محترمہ نے بدتمیزی نہیں کی لیکن اصرار بڑھتا جارہا ہے۔ اس پر ڈاکٹر صدیقی کو کہا گیا: آپ وہی کریں جو آپ کو کرنا چاہیے اور فون بند ہو گیا۔
اور پھر وہی پارلر اس وقت کھلا جب اس پارلر نے ٹیکس جمع کرایا۔
اتنی سی دیر لگتی ہے یہ سب ٹیکس اکٹھے کرنے میں اگر آپ اپنے افسران کو کچھ اعتماد دیں اور ساتھ میں کمپنیوں کی بدمعاشی اور بلیک میلنگ کے آگے جھکنے سے انکاری ہو جائیں لیکن سوال یہ ہے ڈاکٹر صدیقی جیسے کتنے افسران اپنی نوکریاں دائو پر لگا سکتے ہیں؟