ویسے کبھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کتنے اعلیٰ اور دلچسپ زمانوں میں پیدا کیا ۔ پہلے تاریخ کی کتاب پڑھتا تو دل کرتا تھا کاش فلاں بادشاہ کے دور میں ہوتے توکتنا مزہ آتا ۔ کبھی فلمیں یا ٹی وی شو دیکھتے ہوئے بھی یہ احساس ابھرتا کہ فلاں دور میں ہوتے تو کیسا ہوتا ۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی اور اس سے جڑی سب چیزیں اچھی لگتی ہیں کیونکہ وہ دوبارہ لوٹ نہیں سکتیں۔ اس زمانے کے عذاب تو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اِن ادوار میں حملہ آورں کے حملوں کے بعد ہونے والی بربادی کے ہاتھوں در بدر ہوتے تھے۔ اس لیے جب انگریزوں کے خلاف بغاوت کے بعد بہادر شاہ ظفر کے آخری دنوں کے بارے پڑھا تو شکر ادا کیا اس دور میں زندہ نہ تھا جب دلی لٹ رہی تھی ۔
پچھلے دنوں ایک کتاب پڑھ رہا تھا The Better Angels of Our Nature۔یہ کتاب امریکہ میں ڈاکٹر احتشام قریشی کے گھر کی لائبریری میں دیکھی تھی ۔ بلاشبہ اس شاندار کتاب میں مصنف نے بہت ریسرچ اور محنت کے بعد یہ تھیسس ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آج کی دنیا میں تشدد اور قتل و غارت ماضی کی نسب بہت کم ہوگیاہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ یہ بات نہیں مانیں گے کیونکہ آج کی دنیا میں بہت جنگ و جدل اور قتل و غارت‘ دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں‘ لیکن اس مصنف کے بقول دنیا ماضی کی نسبت بہت پرسکون ہوچکی ہے۔یہ کتاب پڑھنے کے بعد میرا وہ رومانس کم ہوا کہ فلاں بادشاہ کے دور میں زندہ ہوتے تو کتنا مزہ آتا ۔ اب مجھے مزہ آنے لگ گیا ہے کہ پاکستان میں آج کے دور میں زندہ ہوں ۔ تاریخ کا اس سے بہتر دور کوئی اور ہوگا ؟ روزانہ ایسے ایسے انکشافات اور کارنامے سامنے آتے ہیں کہ بندہ سر دھنے۔ ابھی ایک واقعے سے پوری طرح آپ لطف اندوز نہیں ہوپاتے کہ اس سے بھی بڑا دوسرا واقعہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں ایک دن ایسا نہ گزرا ہوگا جب آپ کو سانس لینے کی بھی فرصت ملی ہو۔ جب سے پانامہ آیا‘ اس کے بعد ایسے ایسے انکشافات ہوئے ہیں جو انگریز بادشاہ ہنری ششم کے درباری میں بھی نہیں ہوتے تھے‘ جب وہ اپنے قریبی درباریوں اور بیویوں کے بارے میں نئے انکشافات سن کر ان کا سر قلم کرنے کا حکم جاری کرتا تھا ۔
پانامہ کا ایک فائدہ ہوا کہ اس نے ہماری ایلیٹ کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا ۔ پانامہ کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں یہ بھی علم ہوا کہ عوام کے نزدیک سیاستدانوں اور لیڈروں کی کرپشن کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔ ہندوستان ویسے بھی ہزاروں سال تک لٹتا پٹتا رہا ہے لہٰذا یہاں کے لوگوں کے جینز میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ ہر انسان جو گھوڑے یا ہاتھی پر سوار ہے ‘ اس کا حق بنتا ہے کہ وہ جس بستی میں گھس جائے اسے لوٹ لے ۔ اب گھوڑے اور ہاتھیوں کے رتھوں کا دور نہیں رہا ‘ اب خصوصی جہازوں‘ پجا روز‘ لینڈ کروزر کا دور ہے۔ جس کے آگے پیچھے گاڑیاں ہوں‘ پروٹوکول ہو‘ وہ جب چاہے جہاں چاہے لوٹ مار کر ے‘ اسے قبول کر لیا جائے۔ پہلے ہمیں بتایا جاتا تھا کہ صرف زرداری کرپٹ ہیں اور ان کے سوئٹزر لینڈ میں 60 ملین ڈالر پڑے ہیں۔ نواز شریف نے سوئس حکومت کو خط لکھا تھا کہ یہ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت ہے‘ اسے واپس کیا جائے۔ شہباز شریف بھی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر وہ دولت واپس لانے کا کل تک اعلان کرتے رہے۔ اب اچانک پانامہ میں پتہ چلا کہ زرداری تو ان شریفوں کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا بچہ ہے جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ پیسہ کیسے کمانا اور اسے چھپانا ہے۔ اب وہ دونوں ایک ہوگئے ہیں۔
پاکستان میں جو بڑی تبدیلی آئی وہ یہ تھی کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ پہلی دفعہ زرداری اور شریفوں کی لوٹ مار کے خلاف کھڑا ہوا اور یوں پیپلز پارٹی اورشریف خاندان کو سیاسی طور پر شکست ہونے لگی۔ عمران خان نے اس کا فائدہ اٹھایا اور آج وہ وزیراعظم ہیں۔ اب لگتا ہے لوگوں کی عمران خان سے جڑی توقعات بھی پوری نہیں ہوئیں۔ جو لٹیرے چوہدریوں کی ق لیگ ‘ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سے فارغ ہوئے وہ عمران خان کی بغل میں بیٹھ گئے ہیں۔ دراصل عمران خان شریفوں اور زرداری کے زوال سے سبق نہ سیکھ سکے کہ ان سے کہاں غلطیاں ہوئی تھیں جس کی وجہ سے دونوں آج جیل میں ہیں۔ عمران خان بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اقتدار ہمیشہ رہتا ہے اور یہ ہٹو بچو کی آوازیں ساری عمر ان کے اردگرد گونجتی رہتی ہیں۔ عمران خان بھی وہی غلطیاں کرچکے ہیں اور مسلسل کررہے ہیں جو زرداری اور شریفوں نے کی تھیں ۔ عمران خان انہی کے کندھوں پر سوار ہیں جن کے کندھوں پر سوار ہو کر زراری اور شریف اقتدار تک پہنچے تھے۔ اس ایک سال میں کرپٹ ایلیٹ عمران خان کے گرد جمع ہوچکی ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہوچکی ہے۔ عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور اوپر سے زخموں پر نمک چھڑکنے کی خاطر چیئرمین ایف بی آر کہتے ہیں کہ انہوںنے ایک بھی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ بھائی اگر نیا ٹیکس نہیں لگایا تو پھر ٹیکس کا ٹارگٹ کیوں ایک ہزار ارب بڑھا دیا گیا ہے یا پھر آئی ایم ایف کیوں کہہ رہا ہے کہ اس سال سات سو ارب سے زائد نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں؟ اس کے بعد تو انہوں نے پاکستان کے لیے پیکیج کی منظوری دی ہے۔ یہ وہ جھوٹ ہیں جو عمران خان کی ساکھ کو کھا گئے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے تمام دعوئوں اور وعدوں سے مکر رہے ہیں اور انہیں پتہ بھی نہیں چلا کہ ان کی مقبولیت اور عوام میں رومانس میں کتنی کمی آئی ہے۔
دوسری طرف مریم نواز ‘جو عدالت سے سزا یافتہ ہیں ‘کو موقع مل گیا ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف ایک تحریک شروع کریں جس میں لوگوں کی شرکت یہ میسج دے رہی ہے کہ لوگ عمران خان سے مایوس ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بلاول بھٹو نے چارسدہ اور لوئر دیر میں جو بڑے جلسے کیے ہیں اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب میں نہ سہی ‘ عمران خان کی پارٹی کی حکومت کے صوبے میں لوگ بلاول کو سننے نکل رہے ہیں۔ پنجاب میں مریم تو خیبرپختونخوا میں بلاول کے جلسے عمران خان کے لیے مسائل کھڑے کرسکتے ہیں اور پارٹی کے اندر کوئی سوچنے کو تیار نہیں کہ ایک سال کے اندر اندر بلاول اور مریم کیسے دوبارہ سیاست پر اثر ڈال رہے ہیں ۔
ایک بات طے ہے کہ مریم اور بلاول دراصل اپنے اپنے والد اور ان کی بے پناہ دولت بچانے کے لیے میدان میں ہیں۔ دونوں بچوں کو پتہ چل گیا ہے کہ اب زرداری اور نواز شریف کو کسی ڈیل یا ڈھیل کے ذریعے شاید باہر نہ لایا جاسکے لہٰذا سٹریٹ پاور ہی بہتر آپشن ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اس دفعہ نواز شریف کو سعودی عرب‘ قطر یا کسی اور ملک سے کوئی مدد نہیں ملی لہٰذا مریم نواز تمام کشتیاں جلا کر میدان میں آئی ہیں۔ جب سے انہوں نے احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو ریلیز کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کوئی لمحہ بور نہیں ہوتا۔ مریم نواز کا وار سنگین ہے اور اس نے عدالت اورججوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس ویڈیو کا جو بھی فیصلہ سامنے آئے لیکن اصل فیصلے جلسوں میں ہوتے ہیں اور عوام میں بیانیہ پاپولر ہوتا ہے جیسے عمران خان نے بیانہ پاپولر کر دیا تھا کہ شریف اور زرداری کرپٹ ہیںاب مریم نواز یہ بیانیہ عوام میں پاپولر کریں گی کہ ان کے والد کو جج کو بلیک میل کر کے سزا دلوائی گئی۔ مریم نواز کو پتہ تھا کہ انہوں نے وہ ویڈیو عدالت میں پیش نہیں کرنی بلکہ ٹی وی چینلز پر عوام کو دکھانی ہے تاکہ عوام کے ذہنوں میں شکوک ڈالے جائیں۔ شکوک یقینا ڈالے جا چکے ہیں۔ یہ روایت شریف خاندان نے ہی ڈالی تھی کہ سب کو خرید لو یا دھمکا دو۔ بیوروکریسی سے لے کر صحافیوں تک وفاداروں کی ایک فوج تیار کی گئی۔ یہی کام پیپلز پارٹی نے کیا اور بعد میں عمران خان نے بھی اپنے وفادار پیدا کر لیے۔ لیکن ان واقعات سے ایک بات ثابت ہورہی ہے کہ اب جو کچھ ہوگا پاکستان کے اندر ہی ہو گا۔ بیرونی کھلاڑیوں کو پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ورنہ اب تک نواز شریف اور زرداری باہر ہوتے۔
ایسے ہی میں سوچتا تھا فلاں دور میں پیدا ہوتے یا فلاں زمانوں میں زندہ ہوتے تو پتہ نہیں کیا مزہ آتا ۔ اب اس سے زیادہ دلچسپ زمانے بھلا اورکیا ہوسکتے ہیں ؟جب ہر طرف گھڑمس مچا ہوا ہے ۔ جب سب کے منہ سے نقاب نوچ کر پھینکے جارہے ہیں !