سینیٹ کے اندر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تناؤ اور ٹینس ماحول کو پریس گیلری میں بھی ہم سب محسوس کر رہے تھے۔ بھانت بھانت کی بولیاں یہاں بھی بولی جا رہی تھیں۔ ہمارے اینکر دوست ضمیر حیدر بار بار کہہ رہے تھے کہ جناب آج ضمیر جاگنے کا دن ہے۔ صحافی سعدیہ کیانی کچھ اور اندورنی کہانیاں سنا رہی تھیں کہ آج کا دن کس کے نام رہے گا۔ ان کے تبصرے میں جان ہوتی ہے‘ لہٰذا سعدیہ کی باتیں غور سے سن لیتا ہوں۔ میں خاموش ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ میرا اب بھی خیال تھا کہ چلیں دو تین ووٹوں کی بات ہو تو بندہ مان لیتا ہے کہ ضمیر جاگ گیا تھا‘ لہٰذا ووٹوں کا فرق دور ہو جاتا ہے‘ لیکن پندرہ بیس ووٹوں کا فرق ہو تو بھلا کیسے دور ہو گا؟ میرا خیال تھا کہ شاید حکومت کے لیے پندرہ بیس لوگوں کو جیب میں ڈالنا مشکل ہو گا۔ میرے اندر کا گھسا پٹا آئیڈیلسٹ یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ ایک دفعہ پھر وہی کھیل کھیلا جائے گا جو پچھلے چالیس برسوں کی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔ کل رات ارشد شریف سے بھی ملاقات ہوئی تھی‘ اس نے بھی مجھے یہی کہا تھا کہ جناب اپنا رومانس جیب میں رکھیں‘ کل دیکھ لیجیے گا سنجرانی جیت جائیں گے۔ میں نے پوچھا: کیسے نمبر گیم پوری ہو گی؟ ارشد شریف اپنی مخصوص شرارتی اور معصومانہ مسکراہٹ سے بولا: کل خود دیکھ لینا کہ لوگوں کے ضمیر کیسے جاگتے ہیں۔ میں پھر بھی سمجھا کہ ارشد شریف مذاق کر رہا ہے۔ میں تو اس پر شرط لگانے لگا تھا‘ شکر ہے بچ گیا‘ کیونکہ ارشد شریف نے کہا کہ چھوڑ تو میرا دوست ہے‘ تجھ سے شرط کے پیسے لیتے اچھا لگوں گا؟ رہنے دے۔ میں نے کہا: لیکن میں لے لوں گا۔ وہ ہنس کر بولا: میں اسی لیے تو شرط نہیں لگا رہا کہ تم ہار جائو گے۔ ایک اور پیارے دوست نے کہا: پنجاب ہاؤس میں پچھلے دس دن سے ایک پیر ٹھہرا ہوا ہے جو چلے کاٹ رہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ڈی بلاک میں جا کر کمرہ نمبر تین چیک کر لو۔ اس لیے سنجرانی نہیں ہارے گا۔ میں نے کہا: بات اب پیروں تک پہنچ گئی ہے؟
میں یہ سب مذاق سمجھتا رہا‘ جب تک ہاؤس کے اندر میں نے حکومتی ارکان کو نعرے لگاتے نہیںدیکھ لیا۔ اپوزیشن کے ساٹھ ستر ارکان مل کر حکومت کے 35 ارکان کا مقابلہ نہیں کر سکے تھے۔ یہ تھا جمہوریت کا حسن کہ جس میں 35 ارکان نے 70 ارکان کو دن دیہاڑے سب کے سامنے شکست دے دی تھی۔ میرا خیال تھا کہ عمران خان یہ رسک نہیں لیں گے۔ اقتدار ساری عمر بندے کے پاس نہیں رہتا‘ لیکن اس کی سیاسی وراثت اس کا عمر بھر پیچھا کرتی ہے‘ حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی۔ جنرل ایوب خان کا اچھا بھلا ذکر آج بھی ہاؤس میں ہو رہا ہوتا ہے۔ جنرل یحییٰ خان کا بیٹا علی اپنے باپ کا دفاع کرتے لوگوں سے لڑ پڑتا تھا۔ ساری عمر یہی کرتا رہا۔ بھٹو کے کئی غلط درست فیصلوں کا حوالہ آج بھی ہاؤس میں آپ کو سننے کو ملتا ہے‘ جس سے وہ جان نہیں چھڑا سکتے۔ جنرل ضیا کا ذکر روز ہو رہا ہوتا ہے۔ جنرل مشرف کو دیکھ لیں۔
نواز شریف اور بینظیر بھٹو بھی اس دور سے گزرے‘ جب انہیں فیصلہ کرنا تھا کہ انہوں نے اپنی سیاسی وراثت کو بچانا ہے‘ اپنا نام تاریخ میں لکھوانا ہے یا چند ماہ کا اقتدار بچانا ہے۔ دونوں اس امتحان میں ناکام رہے۔ نواز شریف نے چھانگا مانگا سیاست کی بنیاد رکھی اور پاکستانی سیاست میں پیسے کا کھل کر استعمال ہونا شروع ہوا۔ عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے کئے گئے پیسوں سے ایم پی ایز کو خریدا گیا۔ ہر ایم پی اے کو رشوت کے طور پر تین تین اے ایس آئی اور تحصیلدار کی نوکریاں دی گئیں‘ جو انہوں نے تین لاکھ روپے فی کس کے حساب سے بیچیں۔ آج وہی نواز شریف مظلوم بنتے ہیں کہ وہ جمہوریت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جب وقت تھا کہ وہ جمہوریت کو مضبوط کرتے‘ اس وقت اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ اسی طرح بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے لگی تو وہ سب 'گھوڑوں‘ کو مری لے گئیں‘ جہاں ان پر اسی طرح خرچ کیا جیسے نواز شریف نے چھانگا مانگا میں خرچ کیا تھا۔ کسی نے بی بی کو کہا کہ آپ کے ایم این ایز نوکریاں بیچ رہے ہیں تو جواب دیا کہ کل کلاں انہوں نے الیکشن بھی لڑنا ہے۔ زرداری نے بینظیر بھٹو کو سمجھا دیا تھا کہ اگر سیاست کرنی ہے تو پھر نواز شریف ماڈل پر چلنا ہوگا۔ زرداری اور نواز شریف کو علم تھا کہ اقتدار کے لیے مقتدرہ کے ساتھ ہاتھ ملانا ہوں گے‘ لہٰذا انہوں نے باری باری اسے خوش کرنے کی کوشش کی۔
سینیٹ کی پریس گیلری میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر کے چہروں پر پھیلی مایوسی دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ دو سال پہلے یہی پی پی پی کے سینیٹر نعرے مار رہے تھے کہ زرداری سب پر بھاری کیونکہ انہوں نے سنجرانی کو بلوچستان سے لا کر چیئرمین بنوا دیا تھا۔ اس وقت عمران خان اور زرداری ایک تھے۔ ایک ہی مقصد تھا کہ نواز شریف کا نامزد بندہ چیئرمین نہیں ہوگا۔ اس وقت نواز شریف کو جمہوریت خطرے میں لگ رہی تھی اور پیپلز پارٹی اسے جمہوریت کا حسن قرار دے رہی تھی۔ آج پیپلز پارٹی کو جمہوریت خطرے میں لگ رہی تھی تو عمران خان اسے جمہوریت کا حسن قرار دے رہے تھے۔ عمران خان صاحب جس بات کو کبھی ہارس ٹریڈنگ سمجھتے تھے‘ آج وہی سب کچھ ان کے لیے جائز ہو گیا‘ جیسے کبھی نواز شریف اور زرداری کے لیے جائز تھا۔ مجھے یاد ہے جب سینیٹ کے چیئرمین کے لیے جوڑ توڑ شروع ہورہا تھا تو میں نے اس وقت بھی ایک بات اپنے ٹی وی پروگرام میں کی تھی کہ عمران خان کو اس کھیل میں نہیں پڑنا چاہیے‘ اس میں اگر یہ جیت گئے تو بھی ساری عمر کے لیے اِن کا نام اس بدنام زمانہ فہرست میں لکھا جائے گا جس میں پہلے سے زرداری‘ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف کے نام شامل ہیں۔ عمران خان جس ہائی مورال گرائونڈ پر ساری عمر سیاست کرتے آئے ہیں وہ کھو بیٹھیں گے۔ اقتدار بچا بھی لیا لیکن ساکھ نہ رہی تو کچھ نہیں رہے گا۔ وہ کسی کو طعنہ دینے کے قابل نہیں رہیں گے۔
جو دوسرا دکھ ہے وہ نوجوان نسل کو اس کھلم کھلا سیاسی بے ایمانی پر تالیاں بجاتے دیکھ کر ہوا۔ ہماری نوجوان نسل بھی اسی رنگ میں رنگی گئی ہے جس میں پہلے پارٹیوں کے لوگ رنگے ہوئے تھے۔ وہ بھی اس پر یقین نہیں رکھتے کہ زندگی میں کچھ اصول ہوتے ہیں‘ کچھ روایات ہوتی ہیں‘ جنہیں ایک حد تک توڑا جا سکتا ہے لیکن انہیں اٹھا کر گھر سے باہر نہیں پھینکا جاتا۔ نوجوان نسل‘ جسے عمران خان سبز باغ دکھا کر لائے تھے‘ وہ عمران خان صاحب پر نظر رکھنے کی بجائے ان تمام کاموں کی حامی ہوتی جا رہی ہے‘ جن سے نواز شریف اور زرداری بدنام ہوئے تھے۔ عمران خان صاحب نے اسی زہر سے زرداری اور شریف کو مارا ہے جس سے وہ دونوں کبھی اپنے سیاسی دشمنوں کو مارتے تھے۔ آج عمران خان بھی زرداری اور شریف کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں۔ اس پر عمران خان کے حامیوں کو خوش ہونا چاہیے یا غمگین یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ یہ سب پاور پالیٹکس ہے‘ اگرچہ عمران خان دعویٰ کرتے تھے کہ وہ مختلف ثابت ہوں گے اور بڑی تعداد میں لوگوں نے ان پر یقین کرلیا تھا لیکن وہ مختلف ثابت نہیں ہوسکے۔ سینیٹ ایک معزز ادارہ سمجھا جاتا ہے‘ جہاں دنیا بھر میں سمجھدار اور پرانے لوگوں کو جگہ ملتی ہے‘ تاکہ ان کی عقل اور سمجھ سے فائدہ اٹھایا جائے‘ لیکن پاکستان میں دھیرے دھیرے اس حوالے سے معیار گرتا گیا۔ پارٹیوں نے ٹھیکیداروں‘ وفاداروں اور ذاتی ملازموں کو سینیٹر بنانا شروع کر دیا۔ یوں آج سینیٹ میں ہم سب نے دیکھا کہ جب آپ پیسے سے ٹکٹ خرید کر آتے ہیں تو پھر آپ پارٹی کے نظریات یا لیڈرشپ کو فالو نہیں کرتے۔ اگر نواز شریف اور زرداری نے کبھی ہائی مورال گرائونڈز پر سیاست کی ہوتی تو آج ان کے سینیٹروں نے انہیں دھوکہ نہ دیا ہوتا۔
نواز شریف اور زرداری خود یہ سوداگری برسوں سے کرتے آئے ہیں‘ لہٰذا آج انہیں یہ شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے 'گھوڑے‘ کسی اور نے اچھی قیمت پر خرید لیے۔ تکلیف تو ہمارے جیسے لوگوں کو ہونی چاہیے جو بائیس برسوں میں ان کی قسموں‘ دعووں اور نعروں پر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ عمران خان‘ ان دونوں سوداگروں سے کچھ مختلف نکلیں گے۔ اور ہم سب ایک دفعہ پھر غلط نکلے۔